نسرین بھی ایک فیمینسٹ انقلاب ہے

نسرین انجم بھٹی سے میری آخری ملاقات قبرستان میں ہوئی۔ ہاتھوں میں گلاب اور گیندے کے پھول اُٹھائے اُس کی قبر کے پیچھے چلنا، اُسے قبر میں اترتے دیکھنا، اُس کی قبر کو مٹی کو بوسہ دینا، یہ مناظر یہ جنازہ مجھے کچھ اس طرح ذہن نشین ہے جیسے کسی کو کوئی جشن یاد ہوتا ہے۔

شاید اس لیے کہ میں اپنی عظیم و دلبر دوست کو شان سے رخصت کرنا چاہتی تھی اور محسوس کر رہی تھی کہ نسرین آزاد ہو گئی، نسرین مکمل ہو گئی۔ شاید اس لیے بھی کہ جسم کو خاک کرنا میرے لیےایک انوکھا تجربہ تھا جو ایک مسلمان عورت ہونے کے ناطے مجھے پہلے کبھی میسر نہیں ہوا تھا۔

نسرین کا تعلق مسیحی برادری سے تھا جہاں عورتیں مردوں کے ساتھ قبرستان جاتی ہیں۔ مسلمان مرد عورتوں کو دفنانے کی رسم سے کیوں دور رکھتے ہیں، نسرین؟ شاید اس لیے کہ مردہ کہیں گمراہ نہ ہو جائے؟ کہیں مردے میں زندگی کی خواہش دوبارہ نہ پل جائے؟ اور عورت پھر سے آخرت کے سفر میں رکاوٹ نہ بن جائے جس کا الزام ویسے ہی ہماری ثقافت میں عورت کے سر ہے، بلکہ اسے عورت کی فطرت قرار دیا جا چکا ہے۔

مرنا بھی ایک فیمینسٹ اِشو ہے، یہ تو نے مجھے سمجھایا، نسرین۔ اب میں ‘فیمینسٹ اسٹرگل’ کی ‘گل’ کس سے کروں گی نسرین؟

تیری ہم عمر شاعراؤں کو میں آپا کہتی ہوں یا ان کے نام کے آگے ’جی‘ لگاتی ہوں۔ تجھ کو بس نسرین کہتی تھی۔ پہلے دن سے ہی آپ سے ایسی محبت، بے تکلفی، اور برابری ملی کہ خود بہ خود نسرین ہی زباں پہ آیا اور اب آپ کو یاد کرتے کرتے یہ آپ بھی ’تو‘ میں بدلے جاتا ہے۔ یہ ’تو‘ اور ’آپ‘ کا نظام بھی ایک فیمینسٹ اِشو ہے نا نسرین (جو اس وقت خود بہ خود اُلٹا پُھلٹا ہو رہا ہے)۔

مجھے یہاں تیری وہ شاعری یاد آ رہی ہے جو تو نے "عورتوں کے عالمی دن پر” کے عنوان سے لکھی تھی:

کس رُت میں آئے ہو؟

کہ تمہیں خوش آمدید بھی نہیں کہہ سکتی

درمیان حائل

آنکھوں میں آنسو تمہیں دیکھنے نہیں دیتے

ماتھے پر ٹیکا کہ سر نہ اٹھا سکوں

ہاتھوں میں چوڑیاں ہتھکڑیاں ہیں بج اٹھیں گی

پاؤں میں جھانجھریں۔ ۔ ۔ بیڑیاں ہیں

چلوں گی تو پکڑی جاؤں گی

بھاری لباس کی سرسراہٹ سازشوں اور سزاؤں کوجنم دے گی اور

گھونگھٹ گردن کو کبھی

اٹھنے نہیں دے گا۔ ۔ ۔ کبھی نہیں شاید

تاکہ میں نتھلی

سانس کے ساتھ مجھے گائے کی طرح گھسیٹتی ہے

کس رُت آئے ہو

کہ میں لڑکی سے پھر گائے بن چکی ہوں

ہماری دوستی بھی ایک فیمینسٹ انقلاب ہے، یہ بھی تو جاتےجاتے سکھلا گئی۔ تیری میت پر گئی تو رشتے داروں نے تیری بہن سے پوچھا ’یہ کون ہے؟‘ آپ کی بہن نے تھوڑا ہنس کر، رُک کر اور سوچ کر جواب دیا، ’دوست ہی ہے‘۔

ہسپتال میں جب تجھے دیکھنے گئی تو وہاں بھی نرس نے سوال کیا،’یہ آپ کی کون ہیں؟ میں نے کہا ’دوست‘ تو وہ بڑی حیران ہوئی۔ نسرین تیرے آخری وقت میں عورتوں ہی کے ذریعے احساس ہوا کہ ہمارے بیچ لگ بھگ چالیس برس کی عمر کا فرق ہے۔

دنیا کو عمر کے فرق والی عورتوں کی دوستی بھی حیران و پریشان کرتی ہے، ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ بھی ایک دیوار ہے، چھوٹی ہی مگر بڑی سی جس کو گرانا ہے؟ گرا نہیں سکتے تو پھلانگ کر کے تو جا سکتے ہیں نا! اگرفیمینسٹ جدوجہد یہیں پر اٹک گئی تو آگے کیا ہو گا؟ نسرین، او نسرین ابھی تو ہم ملے تھے، ابھی تو بہت کچھ سیکھنا تھا، سمجھنا تھا۔

میں نسرین سے پہلی بار 2012 میں ریڈیو پاکستان کے دفتر میں ملی جہاں وہ کئی عرصے سے پروڈیوسر کی خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔ مجھے اب بھی وہ لمحہ یاد ہے جب ان کی پنجابی نظم ’شام لاٹ‘ سنتے سنتے دنیا سے بے خبر ہو گئی تھی اور میں نسرین کے دھن میں گم ہو گئی تھی۔ اچانک سے کسی نے آواز دی تو یاد آیا کہ کمرے میں اور بھی لوگ موجود ہیں۔

نسرین انتہائی محبت سے مجھے اپنی خطرناک نظم پنجابی اور اردو میں سمجھا رہی تھی اور اس کے تصور کی گہرائی میں ڈوبتے ڈوبتے مجھ پر ایک کیفیت سی طاری ہو گئی تھی۔ میری دوست بھی کسی ساحر سی ہی تھی، روح کے راز جان لیتی، الفاظ کے دریا میں احساس کا رقص کرتی تھی۔ میری پسندیدہ شاعرہ نے صرف شاعری ہی نہیں زبان بھی ایجاد کی تھی۔

اپریل 2014 میں اسلام آباد لٹریچر فیسٹول پر ہم ملے تو میں نے نسرین کی شاعری میں ایک الگ پہلو محسوس کیا۔ لٹریچر فیسٹول سے ایک دن پہلے نسرین مجھے اپنی نئی نظمیں سنا رہی تھی۔

میں بہت ہلکے پھلکے موڈ میں تھی، ہنسی مذاق کر رہی تھی، نسرین کی نظموں نے اس طرح وار شروع کیا کہ آنسو میرے ضبط کو شکست دے کر نکل آئے تھے۔ میں ’ہائے نسرین‘ کرتے کرتے پھر اپنی بکھری روح کو سنبھالتی، مگر ایک اور نظم سنتے ہی پھر رو پڑتی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ نسرین ایسا کیا کہہ رہی ہے کہ اتنا رونا آرہا ہے۔ پر یہ ہی تو نسرین کا کمال تھا۔

نسرین کیفیات کی جڑوں سے جال بچھا رہی تھی اور میں اپنی ’جڑوں سے کانپ‘ رہی تھی۔ 6 ماہ بعد ہم لاہور میں ملے تو جڑوں سے گلستان بن چکے تھے اور اب میں اور نسرین دونوں رو رہے تھے۔ اس نے ایک نظم تو ایسی سنائی کہ میرا دل جھوم کر رویا اور میں بول اٹھی، ’یہ تو فیمینسٹ اینتھم ہے!‘۔ لیکن یہ کوئی ایسا ترانہ نہیں تھا کہ جس کے لفظوں سے اقوال بنائے جائیں یا پھر ان کو بینر پر سجایا جائے۔

یہ الفاظ کی کاریگری تھی ہی نہیں، احساس و انوبھَو کی جادوگری تھی۔ مجھے بس مکمل علم تھا کہ یہ ایک نئے قسم کا ترانہ ہے جو رُلا کر نچوڑ دیتا ہے۔ ایک نئے زمانے کا ترانہ، زمانوں سے کچلی ہوئی عورت کے لیے۔ نسرین نے سکھایا کہ جدوجہد اور غم و ماتم دونوں کی راہ ساتھ اپنانی ہوگی، دونوں کو دوست بنانا ہو گا۔

عبداللہ حسین نے نسرین کی کتاب بن باس کے دیباچے میں لکھا تھا، ’ان کی ترقی کی رفتار یہی رہی تو ان کی شاعری آفاق کو گرفت میں لینے کے قابل بھی ہو جائے گی۔‘

شاید جسے میں احساس و انوبھو کی جادوگری کہہ رہی ہوں وہ آفاق کو گرفت میں لینے کا ہی دوسرا نام ہے۔ نسرین کی شاعری سب کو پگھلائے گی۔ میں کتنی خوش نصیب ہوں کہ مجھے نسرین نے جیتے جی پگھلایا، رلایا، ہنسایا، مست کیا، ڈھیر سارا پیار دیا اور عشق کا مطلب سمجھایا۔

مجھے معاف کرنا نسرین، میں تجھے ٹھیک طرح بُوجھ نہ سکی۔ اس بات کا غم ہمیشہ رہے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے