وفاق المدارس کا پستی کا سفر

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے دینی مدارس کا وہ ادارہ ہے کہ جو پاکستان کے 40 ہزار دینی مدارس کے تعلیمی معیار کا نگہبان ہے، عصر حاضر کی جدت کے مطابق دینی و دنیا وی علوم کے امتزاج کے ساتھ ساتھ تعلیمی معیار کو اس قابل بنانا کہ اس ادارے کی ڈگری دیگر بڑے تعلیمی اداروں کے لئے بھی قابل قبول ہوں۔ مگر یہاں ایک کڑوی حقیقت یہ ہے کہ ایسا کبھی ہو نہیں پایا، اگر چہ اس ادارے کے چند ایک افراد اپنی تئ کوشش کرتے رہےمگر بحیثیت وفاق المدارس ادارہ نے کبھی جدید تقاضوں کو پورا کرنے کوشش نہیں کی

ان 40 ہزار دینی مدارس میں سے چند ایک ادارے انفرادی طور پر تو بہت کچھ کرچکے، بلکہ تعلیمی معیار ات میں بھی وفاق جیسے ادارے سے بھی آگے نکل گئے۔وجہ اس کی واحد یہی ہے کہ اس ادارے میں کبھی ایسی شخصیت کو خدمات کا موقع ہی نہیں دیا گیا کہ جو اپنی تخلیقی سوچ و صلاحیتوں کو ا س ادارے کے لئے بروئے کار لائے۔ حال ہی میں صدر وفاق المدارس مولانا سلیم اللہ خان صاحب کے رحلت فرما جانے کے بعد امید یہ تھی کہ شاید اب وفاق تعلیمی معیار کی پرانی روایات کو ختم کرتے ہوئے کچھ ہنگامی اقدام کرتے ہوئے وفاق کے نظام کو بہتر کرنے کے لئے باصلاحیت قابل علماء کرام کی خدمات حاصل کرے گا، مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ وہی پرانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک بار پھر صدر وفاق المدارس کی ذمہ داری ایک ضعیف اور بزرگ شخصیت کے حوالے کردی۔

پاکستان کے 40 ہزار دینی مدارس میں سے چند ایک مدارس جو کہ انفرادی طور پر اپنے ادارے کے تعلیمی معیار اور نظام کو اس درجے پہنچا چکے ہیں کہ آج انہیں یقینا وفاق کی ضرورت نہیں، ان چند مدارس کا تقابل ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کے ساتھ کیا جانے لگا ہے، مگر حیران کن بات یہ ہے کہ ان آگے نکل جانے والے دینی مدارس کے سرکردہ حضرات کو کبھی وفاق کی کوئی اہم ذمہ داری کے قریب بھی نہیں رکھا گیا

صدر وفاق المدارس کی ذمہ داری کے لئے اس وقت سب سے موزوں شخصیت مفتی تقی عثمانی یا مفتی رفیع عثمانی سے بہتر کوئی نہیں تھی، یہ حضرات عملی طور پر دنیا کے سامنے اپنے ادارے کے تعلیمی معیار اور اپنی قابلیت کو منوا چکے ہیں اس کے باجود ان حضرات کو وفاق المدارس کی ذمہ داری نہ دینا وفاق المدارس کی پستی جانب سفر کی کھلی دلیل ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے