تعلیم ذریعہ معاش بن چکی

آخر کیا وجہ ہے ،علم جو ایک نور ہے ایک روشنی ہے جو ایک انسان کو با کردار و با اخلاق بنا دیتا ہے ۔ اسی نور سے ایک ان پڑھ اور پڑھے لکھے میں فرق ہوتا ہے ۔ کہتے ہیں نا کہ پڑھے لکھے اور ان پڑھ انسان میں زمیں آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ وہ فرق کیا ہے ؟ انسان کا ہر گزرا کل آنے والے کل سے ہر پہلو بہتر ہو تو اسے سمجھا جاتا ہے کہ وہ ایک پڑھا لکھا انسان ہے ۔ میں سب کو تو ایسا نہیں کہہ سکتا لیکن آج کے دور میں زیادہ تعداد میں لوگ تعلیم تو حا صل کرتے ہیں پر تعلیم سے وہ خود تبدیل نہیں کرتے ۔ اگر انسان کو بات چیت کرنا ہی نا آتا ہو تو اس کی تعلیم کس کام کی بیشک اس نے پی ایچ ڈی کیوں نا کر رکھی ہو ۔

ہمارے معاشرے میں یہ المیہ ہے کہ پڑھے لکھے اور ان پڑھ انسان میں کوئی فرق نظر نہیں آ رہا ۔ اس کی بہتر مثال آپ ملک کے سربراہوں سے لے سکتے ہیں ۔ میڈیا سے شاید ہی کوئی نا واقف ہو اور شاید ہی کوئی ہمارے ملک کے سربراہوں کو نہ جانتا ہو ۔ ذرا اپنے اندر کے ضمیر سے پو چھیے کہ جب یہ لوگ میڈیا پر آ کر بات کرتے ہیں تو کیا ان کی بات چیت سے لگتا ہے کہ انہیں کہیں سے تعلیم کی ہوا بھی لگی ہے ، ان کی بات چیت سے اگر کوئی اندازہ کرے تو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ پڑھا لکھا انسان ہے ۔میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگ ان پڑھ ہی ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ ان کی گفتگو میں کوئی ادب و احترام نہیں ، انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ کس سے بات کر رہیں ہیں ۔

انسانیت کیلئے تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریمؐ پر اللہ کی طرف سے جس پہلی آیت کا نزول ہُوا اسکی ابتدا بھی ’’اقرا‘‘ یعنی پڑھ لفظ سے ہوئی۔ہمارے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ معلمی ایک پیغمبرانہ پیشہ ہے ۔بد قسمتی یہ پیغمبرانہ پیشہ کا حامل اب پیسے کے پیچھے بھاگ دوڑ کر رہا ہے ۔ کیا میں درست کہہ رہا ہوں ؟ ہمارے ملک میں کیوں امیر اور غریب کی لیے تعلیمی ادارے مختلف ہیں؟کیوں ہمیں یہ نہیں سکھایا جاتا کہ تمھارا اصل مقصد تعلیم کے حصول سے یہ ہے کہ تمہارا آج تمہارے گزرے ہوئے کل سے ہر پہلو سے بہتر ہو ۔ کیوں یہ نہیں سکھایا جاتا کہ تم اگر کل کو ایک با اخلاق انسان بن گئے تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے ۔کیوں یہ نہیں سکھایا جاتا کہ معاشی تو صرف ذریعہ حیات ہے مقصد حیات نہیں ۔ ہمارے ملک میں تعلیم کی تقسیم کیوں ؟ ایک غریب کے لیے الگ تعلیم ایک امیر کے لیے الگ تعلیم ہے ۔ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے سے تعلیم حاصل کریں ۔

جن کی جتنی مالی حیثیت ہوتی ہے وہ ویسی ہی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں ۔ اب وہ کسی بہتر تعلیمی ادارے میں جائیں گے تو اس مقصد بہتر روزگار کا حصول ہی ہے ۔ایسا نہیں کے وہاں ایک مہذب انسانی تربیت ہوتی ہے اور وہ لوگ بھی مہذب ہوتے ہیں ۔ وہاں بھی ہنر اور تکنیک بتائی جائیں گی ۔ معلمی کا مقصد صرف معاشی مفادات کے حصول کو قرار دینا درست نہیں ہے۔

سب سے پہلی درسگاہ ماں کی گودہوتی ہے ۔ اب وہ تربیت بھی اسی معاشی حصول کے لیے ہوتی ہے ۔ ایک بچہ جب منہ سے بات تک نہیں کر سکتا تو اسے یہی کہا جاتا ہے کہ بیٹا کل کو تم نے ایک ڈاکٹر یا انجنئیر بننا ہے ۔ بہت کم مائیں ایسی ہیں جو یہ تربیت دیتی ہیں کہ بیٹا تم نے جھوٹ نہیں بولنا،بیٹا تم نے کبھی فرائض میں کوتاہی نہیں کرنی ،بیٹا تم نے کبھی غریبوں اور مسکینوں کا ناحق حق نہیں کھانا ،بیٹا تم نے بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے پیار کرنا ہے ۔

یہی معاشی حصول کا سلسلہ روحانی باپ کے سپرد ہوتا ہے ۔ وہ بھی اس کو ایسی ہی تربیت کرتا ہے ۔ ہم عمر بھر اپنی ساری محنتیں ،کوششیں اپنی معاشی آسودگی کے حصول میں صرف کرتے ہیں اور جب کبھی بہت ساری دولت اور بے پناہ وسائل ہمارے ہاتھ میں آ جاتے ہیں تو ہم اپنی زندگی کو کامیاب سمجھتے ہیں ۔ ہمیں اپنے آپ پر فخر ہوتا ہے کہ ہم کا میاب ہو گے حالانکہ انسان کی اصل کامیابی ان اخلاقی معیارات پر پورا اترنے میں ہے جن کی وجہ سے وہ اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے