تھوڑا جی لے پر بہت زیادہ محنت کی ضرورت تھی

تھوڑا جی لے اس سال کی پہلی پاکستانی فلم ہے جس نے فلم بینوں کو مایوس ہی نہیں بلکہ حیران کردیا ہے کہ پاکستانی فلموں کے معیار پر اتنی تنقید کے بعد بھی ایسی واجبی فلمیں بنائی جارہی ہیں۔

ہم فلمز اور ایورریڈی پکچرزکی جانب سے ریلیز کی جانے والی فلم ’تھوڑاجی لے‘۲۰ جنوری ۲۰۱۷ کو پاکستان بھر کے سینماؤں میں ریلیز کردی گئی ہے۔

تھوڑا اجی لے ایک مزاحیہ ڈرامہ فلم ہے جس کی ایگزیکٹو پروڈیوسر ٹیلی ویژن اور سیاست کی مقبول شخصیت مہتاب اکبر راشدی ہیں جبکہ فلم کے مصنف اور ہدایت کاران کے صاحبزادے رافع راشدی ہیں۔

کراچی اور لاڑکانہ میں عکسبند کی گئی تھورا جی لے کے نمایاں کرداروں میں زیادہ تر نئے چہرے تعارف کروائے گئے ہیں جن میں رضوان علی جعفری، بلال عباس، رمشا خان، سلمان فیصل، فاطمہ شاہ جیلانی، قاسم خان اور احسن محسن اکرام شامل ہیں۔

تھوڑا جی لے میں نوجوانوں کے مسائل اور وقت کے ساتھ کی ان کی تبدیل ہوتی زندگی کی عکاسی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلم کی کہانی سات نوجوانوں کے گرد گھومتی ہے جن کا تعلق معاشرے کے مختلف پس منظر سے ہے لیکن کالج میں ہم جماعت ہونے کی وجہ سے سب آپس میں دوست ہیں۔ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد تمام دوست ایک دوسرے سے تقریبا لاتعلق ہوجاتے ہیں اورانہیں ملنے کا موقع تب ملتا ہے جب ان کا ایک دوست پارٹی خان (بلال عباس) جو ایک ڈی جے ہے نشے کی زیادتی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہوجاتا ہے جس کی اطلاع اینڈی (سلمان فیصل) جواب ایک ڈریس ڈیزائنر ہے دیگر دوستوں کو دیتا ہے۔ پارٹی خان کے ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد ساتوں دوست کیزاد (رضوان علی جعفری) جو ایک جاگیردار ہے کے گھر پر ملتے ہیں جہاں دو دن کے لیے لاڑکانہ میں اس کے فارم ہاؤس پر چلنے کا پروگرام بنایا جاتا ہے۔ ان دوستوں میں میشا (رمشا خان) بھی ہے جو کارپوریٹ جاب کرتی اور اپنے ہی گروپ کے لڑکے آزاد (احسن محسن خان) سے شادی کرچکی ہے لیکن مصروف پیشہ ورانہ زندگی کی وجہ سے اس کی ازدواجی مسائل کا شکار ہے۔ بہار (فاطمہ شاہ جیلانی) ایک دولت مند باپ کی لاابالی لڑکی ہے جس کی زندگی کا مقصد اپنے خوابوں کے شہزادے کے ساتھ عیش و آرام کی زندگی گزارنا ہے۔ ٹی سی (قاسم خان) ایک کمپنی میں ملازم ہے جو تمام دوستوں میں سب سے کم مالی حیثیت رکھتا ہے اور اپنی جنسی ترجیحات کے بارے میں الجھن کا شکار ہے۔

فلم میں کردار سازی تو کی گئی ہے لیکن کہانی کہیں نہیں ہے۔ دوستوں کے آپس کے تعلقات کو واضح نہیں کیا گیا ہے مثلا فارم ہاؤس کے سفر کے دوران رمشا کو معلوم ہوتا ہے کہ کیزاد اس سے محبت کرتا تھا جس کے بعد وہ کیزاد پر اس طرح برستی ہے جیسے کسی راہ چلتے لڑکے نے اس کو چھیڑدیا ہو۔ اس کے علاوہ یہ کہیں نہیں دکھایا گیا کہ کالج کی زندگی کے دوران ان کے درمیان کیا ہوتا تھا کہانی کا آغاز ہی عملی زندگیوں سے ہوتا ہے جبکہ کہیں کہیں ماضی کے فلیش بیک دکھانے کی زحمت کی گئی ہے جو کہانی کو واضح کرنے میں ناکام ہیں۔

فلم کہیں بے تکی کامیڈی کا منظر پیش کرتی ہے اورکہیں الجھے ہوئے رشتوں کی سنجیدہ کہانی۔ رائٹر اور ڈائریکٹر کیا دکھانا چاہ رہے ہیں بالکل غیر واضح ہے کہ یہ ایک سیریس کامیڈی ہے، ہلکی پھلکی کامیڈی ہے یا پھر ایک مکمل کامیڈی فلم۔

اداکاری کی جگہ اوورایکٹنگ کی گئی ہے جبکہ مزاح کی جگہ چھچھورا پن ہے۔ اداکاروں کے چہرے تاثرات سے عاری ہیں اور مکالمے انتہائی پھیکے اور بے جان ہیں۔

فلم میں کل چھہ گانے شامل ہیں جو تمام کے تمام پس منظر میں ہیں۔ موسیقی صہیب راشدی نے ترتیب دی ہے۔

تھورا جی لے جیسی فلمیں نہ صرف لوگوں کے وقت، پیسے اور سینما مالکان کے وسائل کا ضیاع ہیں بلکہ محنت سے بنائی گئی بہتر فلموں پر سے بھی فلم بینوں کا اعتبار اٹھانے کے مترادف ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے