عامر لیاقت کی کہانی

#عامر_لیاقت_حسین کو پہلی بار اپنے اسکول میں نعت پڑھتے دیکھا تھا۔ وہ ان دنوں ایک مقامی اخبار میں مزاحیہ کالم لکھتے اور اے پی ایم ایس او کے اجتماعات میں شوقیہ تقریریں کرتے تھے۔ پاکستان میں نجی چینلز کے آتے ہی وہ اینکر کے روپ میں جلوہ افروز ہوئے اور اسکے ساتھ ہی وفاقی وزیر بھی بن گئے۔ بلاشبہ انتہائی کم عمری میں وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے لیکن تنازعات پہلے دن سے ہی انکا پیچھا کرتے رہے ہیں۔ ہمیشہ یہی سوال اٹھتا رہا کہ دراصل وہ ہیں کیا! اینکر، نعت خواں، عالم دین، سیاستدان، تجزیہ نگار یا انٹرٹینر۔

یہ سلسلہ #جعلی_ڈگری کے الزام سے شروع ہوا۔ گو انہوں نے میڈیکل کی تعلیم دوسرے سال ہی ادھوری چھوڑ دی تھی لیکن ڈاکٹر کا سابقہ اپنے نام کے ساتھ مستقل جوڑ لیا۔ قومی اسمبلی کی رکنیت کیلئے جو ڈگری انہوں نے جمع کرائی وہ مستند نہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جس ورچیول یونیورسٹی سے بیچولر، ماسٹرس اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی، اس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ تھا۔ پرویز مشرف اور الطاف حسین یہ حقیقت جانتے تھے لیکن اسکے باوجود انہیں وزارت پر برقرار رکھا گیا۔ یہ دوطرفہ طرفداری جاری رہی یہاں تک کہ یکایک حالات نے پلٹا کھایا اور موصوف استعفی دیکر مشرف مخالف کیمپ میں آگئے۔

بظاہر یہ علیحدگی #سلمان_رشدی کے معاملے پر ہوئی تھی لیکن اندرون خانہ کچھ اور باتیں مشہور ہوئیں۔ تبدیلی پوری شدت سے محسوس کی جارہی تھی۔ لاوڈ اسپیکر سے لال مسجد اور افغان طالبان کے لئے سدائیں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔ آئے روز عافیہ صدیقی کا زکر ہونے لگا، جس مکتب فکر کو وہ اپنے طنز کے نشتر پر رکھتے تھے، انکی محفلوں میں آنے جانے لگے اور جن علمائے کرام کو حقارت سے دیکھتے تھے، اب اکثر انکی صحبت کا فیض اٹھاتے نظر آتے۔ یوم ختم نبوت کے خصوصی پروگرام میں ایک اقلیتی گروہ نے ان پر نفرت پھیلانے کا الزام لگایا لیکن اسکے برعکس مذکورہ چینل انہیں انتہاپسندی کا مخالف ایک اعتدال پسند اسکالر کے طور پر پیش کرتا رہا۔ عالم اسلام کی پانچ سو بااثر شخصیات میں نام کا دعوا بھی کبھی درست ثابت نہ ہوسکا۔

وہ ایک چینل چھوڑ کر دوسرے میں آئے تو نئے تنازعات بھی ساتھ لائے۔ آف کیمرا ہونے والی انتہائی نازیبا گفتگو #لیک ہوگئیں۔ اس ویڈیو لیک نے جہاں نئے پروگرام کی ریٹنگ پر چار چاند لگادئے وہیں انکی شخصیت کو مزید متنازع بنادیا۔ وہ روایتی رمضان ٹرانسمیشن کے موجد ہیں، زور آور ہیں اور ریٹنگ حاصل کرنے کا گر جانتے ہیں لیکن مذہب کو تفریح اور روحانیت کو انعامات کے ساتھ جوڑنے کی کوشش ہرگز قابل تعریف نہیں ہوسکتی۔ سنجیدہ طبقے نے ان حرکتوں پر ہمیشہ تنقید کی لیکن مذکورہ چینل ہمیشہ انکا دفاع کرتا رہا۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ اسکی وجہ صرف ریٹنگ کی ڈوڑ تھی یا پھر کوئی دوسرا ایجنڈا۔ یہی نہیں طاہر شاہ کے ساتھ سلوک ہو یا شیرخوار یتیم بچوں کو انعام بناکر جھولیوں میں ڈالنا، رمضان ٹرانسمیشن کے خلاف ایکشن لینے سے #پیمرا ہمیشہ کتراتا رہا۔

سابقہ چینل پر واپس آئے تو مراعات اور ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوگیا۔ اسی دوران جامعہ اردو میں داخلہ لیا اور بی اے، ایم اے پاس کیا۔ گو کہ موصوف ماضی میں خود مبینہ طور پر ایک ایسی تقریر کے مرتکب ہوئے تھے جس پر بعد میں انہیں اعلانیہ معافی مانگنی پڑی لیکن اسکے باوجود #جنید_جمشید کے تنازعے پر انہوں نے کسی قسم کی مروت روا نہیں رکھی۔ بے خیالی میں زبان سے ادا ہونے والے چند غیر محتاط الفاظ پر باوجود معافی کہ وہ سابق گلوکار کے خلاف سرگرم رہے۔ لائیو پروگرام میں جنید جمشید کی والدہ مرحومہ کیلئے نامناسب زبان استعمال کی۔ آرمی پبلک اسکول سانحے کے بعد تبدیلی کا یہ دوسرا دور تھا جس میں مخصوص مکتب فکر سے قربت ایک بار پھر دوری میں بدلتی رہی۔ اختلاف نے نفرت کا لبادہ اوڑھا لیکن پیمرا پھر بھی خاموش رہا۔

تبدیلی کا تیسرا دور ایم کیو ایم میں واپسی کا تھا۔ کراچی کے #بلدیاتی_الیکشن قریب تھے اور کہا جارہا تھا کہ ناظم کراچی اور گورنر سندھ کے نام شاٹ لسٹ کئے جارہے ہیں، عامر لیاقت بھی اس ڈور میں شامل ہوگئے۔ جب الطاف حیسن کے انتہائی قریبی ساتھی ان سے دور ہورہے تھے، عامر لیاقت ہاتھ میں علم اٹھائے میدان میں اگئے۔ متحدہ کی دو قدم آگے بڑھ کر وکالت کی اور تحریک انصاف کو نشانے پر رکھ لیا۔ اس دوران انکے چند ایسے اخباری کالم بھی شائع ہوئے جنہیں سادہ ترین الفاظ میں اخلاقیات کا جنازہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک بزرگ کالم نگار کو نہ صرف انہوں نے لتاڑا بلکہ بدتمیزی میں آخری حد تک گئے لیکن پیمرا نے کوئی کاروائی نہیں کی۔

22 اگست کے بعد وہ تبدیلی کے چوتھے دور سے گزر رہے ہیں۔ آج کل یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے وہ خود کو ایک قومی ادارے کا خود ساختہ ترجمان اور #حب_الوبطنی کا ٹھیکے دار سمجھتے ہوں۔ پاکستان کی اربن مڈل کلاس نیوز اینکرز اور ہندوستان کے خلاف سخت باتیں سننا پسند کرتی ہے۔ اس لئے الزام ہے کہ انہوں نے ایک نومولود چینل پر یہی راہ پکڑ رکھی ہے۔ حال ہی میں لاپتہ ہونے والے چار اکٹویسٹ کے حق میں آواز اٹھانے والا مخصوص طبقہ آج کل موصوف کے نشانے پر ہے۔ کسی اینکر کو کسی بھی فرد کے ایمان کو جانچنے یا اسکی حب الوطنی پر سوالیہ نشان کھڑا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یقینا اس معاملے پر پیمرا ایکشن لینے میں حق بجانب تھا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ جو پیمرا پہلے گریز پر کاربند تھا وہ اچانک اتنا متحرک کیسے ہوگیا۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا پیمرا واقعی اپنے ضابطہ اخلاق کی پابندی کرانا چاہتا ہے یا مخصوص طبقے پر تنقید نے اسے خواب غفلت سے جگا دیا ہے۔ پھر جس قسم کی پابندی لگائی گئی ہے وہ قطعا درست قرار نہیں دی جاسکتی ہے۔ ہر اختلاف اور تنازع اپنی جگہ مگر کسی بھی شخص پر آپ کس طرح مطلق پابندی لگاسکتے ہیں؟ مجھے حیرانگی ہے کہ #آزادی_اظہار_رائے کا دعویدار طبقہ اس مکمل بندش کی خبر پر مسرت اور سندھ ہائی کورٹ کے درست فیصلے پر افسوس کا اظہار کررہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے