جماعت اسلامی آزادکشمیراورفیصلے کالمحہ

جماعت اسلامی ایک عالمگیر اسلامی تحریک ہے۔ جس کا کئی ممالک میں باقاعدہ اپنانظم قائم ہے۔ جماعت اسلامی دراصل ابواعلٰی مودودی کی فکر اور سوچ کا نام ہے ۔ پاکستان کے قیام سے قبل جماعت اسلامی کے قیام کی بنیاد رکھی گی تھی.کسی حد تک یہ بھی درست ہے کہ اُس وقت پاکستان کی مخالفت جماعت اسلامی کے بعض حلقوں میں ہوئی تھی لیکن یہ مخالفت پاکستان کے قیام کی نہیں بلکہ تقسیم کے حوالے سے تھی۔

ایک طالب علم ہونے کے ناطے قیام پاکستان کے حوالے سے کئی ایک سوال میرے ذہین میں بھی موجود ہیں اور سچ تو یہ بھی ہے کہ اس وقت مسلمانانِ ہند کے لیے درد رکھنے والے علماء کرام اور دیگر مکاتبِ فکر کے پڑھے لکھے لوگوں نے اس بٹوارے کی شدید مخالفت کی تھی اور یہ بات مجھ سمیت دیگر کئی طالب علم آج تک نہیں سمجھ پائے کہ آخر یہ کیسی نظریاتی تقسیم تھی جو بھائی کو بھائی سے جدا کرگئی۔

آپ نے زمین کا ایک ٹکڑا ہی تو حاصل کیا مسلمانوں کی اکثریت تو آپ وہاں ہی چھوڑ آئے اور ساتھ ایسے کھوٹے سکے لے آئے جو مذہب اورسیاست کے نام پرپہلے یہ خود اب ان کی نسلیں تجارت کر رہیں ہیں۔پاکستان کی تخلیق کے خاکوں میں اپناخون رنگ کی صورت بھرنے والے تو کیا کسی کو یاد رہتے جھنوں نے اس ملک کو بنایا اور سجایا وہ بھی روتے روتے اس جہاں سے رخصت ہوئے۔ یہ کیسی تقسیم تھی کہ ایک بھائی کراجی میں آبسا تو دوسرا لکھنو ہی میں رہ گیا۔

پاکستان کو مدینہ ثانی کہنے والوں کا خون اسی مدینے کی گلیاں میں پانی کی طرح بہایا گیااور سوال کرنے والے نے یہ بھی سوال کیے کہ کیا مدینہ ثانی میں مسلمان کا خون سستا اور پانی مہنگا ہے….؟ جبکہ ہندوستان کی کربلا میں مسلمان باعزت زندگی گزار رہے ہیں۔پڑوس میں رہنے والا ہندو مسلمان کے ہر دکھ درد میں اس کے گھر کی صحن میں موجود ہوتا ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ وہاں کے بسنے والے ہمارے مسلمان بھائی کہ رہے ہیں جن کا تعلق وہاں کی جماعت اسلامی یا کسی بھی مذہبی جماعت سے ہے۔

پاکستان بنا اور پھرپاکستان تقسیم ہوا”نا منظور بنگلہ دیش نامنظور ” کی تحریک میں مشرقی پاکستان کی جماعت اسلامی نے اس تقسیم کے خلاف اپنا خون پانی کی طرح بہایا لیکن بنگلہ دیش بننے سے نہ رک سکا۔جب بنگلہ دیش بن گیاتو وہاں کی جماعت اسلامی نے ہزاروں کارکنان کی قربانی کے بعد بالاخر بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا،وہاں سرکاری عہدے لیے بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کےلیے الیکشن لڑا اور وہ بنگلہ دیش جو قومیت ،رنگ،نسل اور زبان کی بنیاد پر بنا تھا جماعت اسلامی کے کارکنان اس پارلیمنٹ کا حصہ بنے ان کی حمایت اور مخالفت کی بنیاد پر وہاں حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہی لیکن اس کے کارکن اس جرم کی سزا آج تک کاٹ رہے ہیں۔

درست فرمایا خواجہ آصف نے کہ جماعت اسلامی نے ہمیشہ تاریخ میں رانگ کردار ادا کیا اس کی وجہ پاکستان کی اپنی تاریخ ہے۔جو جھوٹ،منافقت اور غداری سے بھری پڑی ہے۔پاکستان کے سیاست دانوں اور اس ملک میں بننے والی حکومتوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کو اول رکھا۔ پنجاب کے بسنے والے سیاست دانوں نے پاکستان کو صرف پنجاب تک محدودکیا۔ ہم کشمیری کوبھی ڈیشو کے طور پر پاکستانی حکومتوں نے استعمال کیااور بدقسمتی سے کشمیری قیادت وزارت امورِ کشمیر کے عتاب کا شکار رہی اپنے اقتداراعلٰی کو دوسروں کےرحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا رہا ۔

میں نے کئی بار جماعت اسلامی آزادکشمیر کی قیادت کے سامنے بھی یہ سوال رکھا کہ اگر کشمیر ایک آزاد خودمختار اور باوقار ملک بن جائے تو اس میں خدانخواستہ اسلام کو کیاخطرہ ہے۔۔۔۔؟ اپنی زبان ،رنگ اور نسل کی بنیاد پر اپنے لیے ایک آزاد ملک کا مطالبہ کرنا کیونکر کوئی گناہ ہے۔ پھر ایک ایسی ریاست جس کی اپنی سرحدیں متعین تھی۔جس کی اپنی ثقافت ،اپناکلچر،اپنی تہذیب ،اپنی پہچان اور سب سے بڑھ کر اپنی حکومت قائم تھی۔ جس کو ایک سیاست کےتحت تقسیم کیا گیا۔اس ریاست کی بکھری اقائیوں کو پھر سے قومی دھارے میں لے آنا باحیثیت کشمیری ہم سب کی ذمہ داری ہے لیکن اصل کردار تو قومی آزادی کی تحریکوں میں قیادت ہی کا ہوتا ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کسی تحریک کی تنظیم مختلف ممالک میں اگر قائم ہوتو وہ جماعت وہاں کے حالات کے مطابق اپنے سیاسی فیصلے کرتی ہے۔ اگر اس بنیاد پر جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی قیادت یہ کہتی ہے کہ ریاست جموں کشمیر کے دونوں اطراف جماعت اسلامی موجود ہے۔جو حصہ پاکستان کے زیرانتظام ہےوہ دستوری لحاظ سے پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی آزادکشمیر دستوری اعتبار سے جماعت اسلامی پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔ لہذا جماعت اسلامی آزادکشمیر جماعت اسلامی پاکستان کے فیصلوں کی پابند نہیں ہے۔

جماعت اسلامی آزاد کشمیر کےترجمان کے اس بیان کے بعد جماعت اسلامی کشمیر یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہے کہ پاکستان کی حکومتیں اور وہاں کے سیاست دان ہمارے معملات میں مداخلت مت دیں۔ پچھلے سال جولائی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے مسلم لیگ ن کے صدر راجہ فاروق حیدر کی خواہش پر ان سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی تھی۔ جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو اسمبلی کی دو سیٹیں ملی تھیں۔ اب آصف کرمانی کا سراج الحق سے یہ مطالبہ کہ جماعت اسلامی پاکستان آزادکشمیراسمبلی کی سیٹیں واپس کرے۔آصف کرمانی آئینی اعتبار سے یہ مطالبہ کرنےکاحق ہی نہیں رکھتے۔

اگر جماعت اسلامی آزادکشمیر کے ترجمان کی اس وضاحت کو حق مان لیا جائے تو پھر جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی قیادت کے پاس دو راستے ہیں اول تو وہ اس "چور سپاہی ” کے کھیل سے باہر نکل آئے،اپنی پوزیشن واضح کرے اور جماعت اسلامی پاکستان سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کرے اور پھر جماعت اسلامی آزادکشمیر میں ایک ریاستی جماعت ہوتے ہوئے ریاست کی خوشحالی ،ترقی اور اس میں ایک آزاد باوقار اور خودمختار حکومت کے قیام کے لیے آئینی جنگ لڑے اس وقت ریاست کے تشخص اور اس کے وقار کو بحال کرنے کے لیے جماعت اسلامی کے اندر بڑے قد آور نام موجود ہیں۔ جنہوں نے پہلے بھی تقسیم کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی حکومتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو جماعت اسلامی کے اراکین اپنا دستوری حق استعمال کریں اور قیادت کے سامنے ان کے سیاسی فیصلوں کی بابت پوچھیں اگر اراکین جماعت بھی ایسا کرنےمیں ناکام ہیں تو دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ یہ دورنگی روش چھوڑ دیں کیونکہ ایسے میں آئینی اور دستوری بات ان کے منہ سے اچھی نہیں لگتی وہ بھی دیگر غیر ریاستی جماعتوں کی طرح کشمیریوں کےحقوق پر ڈاکہ مارتے رہیں۔دوسروں کی طرح اپنے مفادات کی جنگ لڑتےرہیں۔

ایسے میں لکھنے والوں کو یہ سچ لکھنے سے کون روک سکتا ہے کہ سید کی تحریک نےپوری دنیا کےبسنے والے مسلمانوں میں ایک نظریہ سوچ اور فکر کو جگہ دی۔اپنی پہچان، شناخت اور عزت نفس کی بحالی کا درس دیا لیکن اس عالمگیر تحریک کی کشمیری قیادت نے محض اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اپنانظریہ ہار دیا اور اس کا کارکن اپنی قیادت کے حق میں تالیاں بجاتا رہا نعرے لگاتا رہا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے