جماعت اسلامی، مسلم لیگ اور تاریخ کی سائیڈ

خواجہ آصف صاحب!

جماعت اسلامی تاریخ کی درست سمت میں کھڑی تھی

جب سید مودودی ”مسئلہ قومیت” کے نام سے دو قومی نظریے کے حق میں لکھ رہے تھے۔
جب سید مودودی مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کو ”مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش” کے ذریعے واضح کر رہے تھے۔
جب سید مودودی کہہ رہے تھے کہ اگر یہاں ایک مربع میل کا رقبہ بھی ایسا مل جائے جس میں انسان پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت نہ ہو تو میں اس کے ایک ذرہ خاک کو تمام ہندوستان سے زیادہ قیمتی سمجھوں گا۔
جب سید مودودی کو یوپی مسلم لیگ نے مجلس دستوری کا رکن بنایا تھا۔
جب سید مودودی کے نمائندے قمرالدین خان قائداعظم سے ملے تھے تو قائد نے سید مودودی کی خدمات کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور کہا تھا کہ جماعت اعلیٰ مقصد کے لیے کام کر رہی ہے، لیگ علیحدہ وطن کے حصول کی طرف متوجہ ہے، اس سے جماعت کا کام تکمیل کو پہنچے گا۔
جب مسلم لیگ دو قومی نظریے کے اثبات کےلیے سید مودودی کا لٹریچر استعمال کر رہی تھی۔
جب علامہ اقبال ترجمان القرآن سے سید مودودی کی تحریریں پڑھوا کر سنتے تھے اور سید کو حیدرآباد دکن سے پٹھان کوٹ آنے کی دعوت دے رہے تھے۔
جب سید مودودی سرحد اور سلہٹ کے ریفرنڈم میں پاکستان کی حمایت کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ وہاں میرا ووٹ ہوتا تو پاکستان کے حق میں پڑتا۔
جب جماعت اسلامی کے کارکنان مشرقی و مغربی پاکستان میں لٹے پٹے مہاجرین کو سنبھال رہے تھے۔

جماعت اسلامی تاریخ کی درست سمت میں کھڑی تھی
جب قیام پاکستان کے فوری بعد اس نے ملک تحریک پاکستان کے وعدوں کے مطابق اسلامی نظام کی بات کی، اس کے حق میں مہم چلائی۔
جب سید مودودی نے قائداعظم کی موجودگی میں ریڈیوپاکستان سے اسلامی نظام ریاست کے حق میں یکے بعد دیگر 5 تقاریر کیں اور اس کے خدوخال کو واضح کیا۔
جب مسلسل جدوجہد کے ذریعے اس نے قرارداد مقاصد منظور کروا کر ریاست کی سمت بھی متعین کروا دی جس سے آج تک لبرل طبقہ نالاں ہے۔
جب اس نے 31 علماء کے 22 نکات منظور کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔
جب اس نے ملک میں ختم نبوت کا مقدمہ لڑا اور سید مودودی کو سزائے موت سنائی گئی۔
جب دستور ساز اسمبلی کے توڑے جانے پر مولوی تمیزالدین کو اس کے خلاف عدالت جانے کا راستہ دکھایا اور اس کے لیے سندھ ہائی کورٹ اور پھر فیڈرل کورٹ کےلیے فیس بھی فراہم کی، ایسے عالم میں کہ جب ملک میں ہو کا عالم تھا اور آئی آئی چندریگر جیسا مسلم لیگی بھی بغیر پیسوں کے مقدمہ لڑنے کو تیار نہ تھا
جب اس نے پاکستان کے پہلے دستور کےلیے مشرقی و مغربی پاکستان میں مہم چلائی اور 56 کے آئین کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔

جماعت اسلامی تاریخ کی درست سمت میں کھڑی تھی
جب اس نے ملک میں پہلے مارشل لا کے مقابلے میں جمہوری مزاحمت کا راستہ اختیار کیا اور فوجی آمریت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
جب فوجی آمریت کی مزاحمت کی وجہ سے اس پر پابندی لگا دی گئی تھی، اس کی مرکزی، صوبائی اور ضلعی قیادت کو گرفتار کر لیا گیا تھا، اور پھر سپریم کورٹ نے اسے بحال کیا تھا۔
جب اس نے فیلڈ مارشل کے مقابلے میں مادر ملت کا ساتھ دیا تھا، اور ملک کے دونوں حصوں میں ان کے حق میں مہم چلائی تھی۔
جب 65 کی جنگ میں ایوب خان کی مسلسل ایذا رسانی اور مظالم کے باوجود ریاست پاکستان کا نہ صرف ساتھ دیا تھا بلکہ ایوب خان کو تاشقند معاہدے کے لیے جاتے وقت سید مودودی نے ائیرپورٹ جا کر رخصت کیا تھا۔
جب مشرقی پاکستان میں اس نے پاکستان بچانے کی جنگ لڑی تھی اور اپنے جوانوں کا لہو پیش کیا تھا۔

جماعت اسلامی تاریخ کی درست سمت میں کھڑی تھی
جب اس نے ملک میں سویلین آمریت کے مقابلے میں حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کیا تھا۔
جب اس کی طلبہ تنظیم ”بنگلہ دیش نامنظور” کی تحریک چلا رہی تھی، جبکہ مسلم لیگ موجود ہی نہ تھی، احتجاج کیا کرتی۔
جب اس کے ولی صفت امیر میاں طفیل محمد جیل میں بدترین جہالت کا مقابلہ کر رہے تھے
جب اس سے متعلقہ صحافی و پریس بند ہو رہے تھے اور عقوبت خانوں میں اذیتیں جھیل رہے تھے۔
جب ڈاکٹر نذیر کو شہید کر دیا گیا تھا۔
جب اس نے بھٹو کی بدترین مخالفت اور ریاستی تشدد کے باوجود آئین پاکستان کی تیاری و منظوری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
جب اس نے نظام مصطفی کی تحریک چلائی تھی، اور پھر بھٹو سے معاہدے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

جماعت اسلامی تاریخ کی درست سمت میں کھڑی تھی
جب انتخابات کا وعدہ پورا نہ ہونے پر اس نے ضیاء کابینہ سے نکلنے کا فیصلہ کیا تھا۔
جب ضیاء الحق کی مجلس شوری میں رکنیت و شمولیت سے انکار کر دیا تھا۔ (خواجہ صاحب کے والد البتہ اس کے رکن اور سربراہ تھے)
جب اس نے ضیاء الحق کے ریفرنڈم کی حمایت نہیں کی تھی۔
جب اس کی طلبہ تنظیم، ٹریڈ یونینز پابندی کا شکار ہو رہی تھیں۔
جب اس کا زور توڑنے کےلیے کراچی اور ملاکنڈ میں تنظیموں کو کھڑا کیا جا رہا تھا۔
جب اس نے اپنے مضبوط حلقوں (طلبہ و ٹریڈ یونین، کراچی و ملاکنڈ) پر ریاستی ضرب کے باوجود سرخ ریچھ کو افغانستان میں روکنے کےلیے ریاست کا ساتھ دیا تھا۔
جب اس کے جوان پاکستان کے سبزے و ہریالی کو بچانے کےلیے اپنے خون کی سرخی سے سرخ ٹینکوں کو روک رہے تھے۔

جماعت اسلامی تاریخ کی درست سمت میں کھڑی تھی
جب اس نے پاکستان کی شہ رگ کے حصول کے لیے حمایت و پشتیبانی کا فیصلہ کیا تھا۔ جس کا ایک قائد سید علی گیلانی آج بھی میدان میں کھڑا ہے، برہان وانی کے رگوں میں یہی جماعت لہو بن کر دوڑتی تھی۔ اور بھارتی فوج اب کہتی ہے کہ کشمیر میں اصل مسئلہ جماعت اسلامی ہے۔
جب اس نے 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا۔

جماعت اسلامی تاریخ کی درست سمت میں کھڑی تھی
جب اس نے سودی نظام کے خلاف عدالت سے رجوع کیا۔
جب اس نے نوے کی دہائی میں کرپشن کے خلاف نعرہ بلند کیا تھا۔ عین اسی وقت جب پانامہ میں آف شور کمپنیاں کھولی جا رہی تھی، سوئس بنکس بھرے جا رہے تھے۔
جب اس کا امیر کرپشن کے خلاف جدوجہد میں مری روڈ پر لاٹھیاں کھا رہا تھا اور پہلے احتساب پھر انتخاب کا نعرہ دیا تھا۔

جماعت اسلامی تاریخ کی درست سمت میں کھڑی تھی
جب اس نے پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف آواز بلند کی تھی۔
جب مشرف کے کمال ازم کے نعرے اور روشن خیالی کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔
جب قاضی حسین احمد پرویز مشرف کے پہلے سیاسی اسیر بنے تھے۔
جب اس نے پرویزمشرف کی ایمرجنسی پلس یعنی دوسرے مارشل لا کی مخالفت کی تھی۔
جب اس نے وکلا تحریک کا ساتھ دیا تھا اور اس کے لیے الیکشن تک کا بائیکاٹ کر کے نقصان کو قبول کیا تھا۔

اور جماعت اسلامی آج بھی تاریخ کی درست سمت میں کھڑی ہے
جب اس نے کرپشن کے خاتمے کو عوامی نعرہ بنا دیا ہے
جب کرپشن کے خلاف ملک گیر ٹرین مارچ کرتی ہے
جب پانامہ کیس میں اس کا امیر سب سے پہلے عدالت سے رجوع کیا ہے
جب وہ حزب اقتدار و حزب اختلاف میں ہر کرپٹ آدمی کے احتساب کا مطالبہ کرتی ہے
جب سب سے پہلے سراج الحق اپنے آپ کو اور اپنی ٹیم کو احتساب کےلیے پیش کرتے ہیں۔

جناب خواجہ آصف صاحب !

مسلم لیگ تاریخ کی غلط سمت میں کھڑی تھی
جب قائداعظم کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کر دیے گئے تھے اور انھیں کہنا پڑا تھا کہ ان کی جیب میں کھوٹے سکے ہیں (بدقسمتی سے ان کھوٹے سکوں کا چلن آج بھی جاری ہے)
جب پاکستان بنتے ہی لوٹ مار کی دوڑ شروع ہو گئی تھی۔
جب متروکہ املاک پر قبضے شروع کر دیے گئے تھے اور مہاجرین منہ تک رہے تھے۔
جب شہیدان پاکستان کا لہو خشک نہ ہوا تھا کہ ان سے کیے گئے وعدوں سے بےوفائی شروع کر دی گئی تھی۔
جب قائداعظم اور لیاقت علی خان کی آنکھ بند ہوتے ہیں اقتدار کی غلام گردشوں میں وہ کھیل شروع ہوا تھا جس کے بارے میں کہنا پڑا تھا کہ ”گِھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں”
جب یہ معلوم ہونا مشکل ہو گیا تھا کہ یہ ”طوائف” اگلی رات کس کے اشارہ ابرو پر ناچے گی۔
جب مسلم لیگ کے الف ب ت کے نام سے ٹکڑیوں میں بٹنے کے عمل کا آغاز ہوا تھا اور پاکستان اور دستور اور عوام کے بجائے شخصی آمریت کا دروازہ کھولا گیا تھا۔
جب چند سالوں میں ہی اس اقتداری کھیل کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں بےزاری پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی۔
جب دستور ساز اسمبلی کے توڑے جانے پر کسی مسلم لیگی نے کھڑے ہونے سے انکار کر دیا تھا اور اس سے وابستہ بڑے وکیل پہلے فیس مانگتے نظر آتے تھے۔
جب راتوں رات اسکندر مرزا سے ہوتے ہوئے وہ ایوب خان کی بانہوں میں چلی گئی تھی۔
جب قائداعظم کی بہن اور مادر ملت کے بجائے ایوب خان کا ساتھ دیا گیا تھا۔
جب مادر ملت کو ایسے نازیبا القاب سے نوازا گیا تھا، جن کو دہرایا بھی نہیں جا سکتا۔ ایسے جلوس نکالنے اور نعرے لگانے والوں کے بچے آج کل وفاقی وزیر ہوتے ہیں۔
جب وہ قوم کو کیا خود کو سنبھالنے میں ناکام رہی تھی، اور مشرقی و مغربی پاکستان دونوں سے اس کا صفایا ہو گیا تھا، ایک جگہ عوامی لیگ اور دوسری جگہ پیپلزپارٹی، نتیجتا ملک ہی دو ٹکڑے ہو گیا۔
جب آپ کے والد گرامی مجلس شوری کی سربراہی فرما رہے تھے۔ (آج جھوٹی سرگوشیوں کی بات پھیلانے سے البتہ باز نہیں آتے)
جب جونیجو جیسے نفیس سیاستدان پر کو ہٹا کر مسلم لیگ پر قبضہ کیا جا رہا تھا اور آپ سمیت حواری نوازشریف کا ساتھ دے رہے تھے۔
جب سود کے حق میں عدالت جا کر اللہ و رسول کے خلاف جنگ کا اعلان کیا گیا تھا۔
جب اقتدار کے نشے میں سازشوں کو روزمرہ کا معمول بنا لیا گیا تھا، اور حواری پیش پیش ہوتے تھے۔
جب پیلی ٹیکسی سکیم جیسے منصوبوں اور قرض اتارو ملک سنوار جیسنے نعروں سے لوٹ مار کو معمول بنا لیا گیا تھا۔
جب مختلف منصوبوں سے لوٹی گئی رقم سے لندن میں فلیٹس خریدے جا رہے تھے، پانامہ میں آف شور کمپنیاں کھولی جا رہی تھیں۔
جب سپریم کورٹ پر حملہ کیا جا رہا تھا اور چیف جسٹس سمیت ججوں کو جان بچا کر بھاگنا پڑا تھا۔
جب فوج کے خلاف سازشیں کی جا رہی تھیں اور کور کمانڈرز میں پھوٹ پڑوانے جیسے اقدامات کیے جا رہے تھے۔
جب پاکستانی شہریوں کو اغوا کرکے امریکہ کے حوالے کرنے کا آغاز کیا جا رہا تھا۔
جب میاں نوازشریف لاٹھیاں کھاتے کارکنوں کو اکیلا چھوڑ کر اور فوجی آمر سے معاہدہ کرکے جدہ بھاگ گئے تھے، اور میاں شہبازشریف ہر جدہ جانے والے سے پوچھتے تھے کہ آج کل جرنیل کیا سوچ رہے ہیں۔
جب وکلا تحریک میں سازباز کے بغیر میاں صاحب نے گھر سے نکلنے انکار کر دیا تھا، میاں شہبازشریف کی جی ایچ کیو میں ملاقات کے بعد نکلے تھے اور گوجرانوالہ سے واپس ہو گئے تھے۔
جب اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔
جب آپ سمیت لیگی وزرا نے پرویزمشرف کے ہاتھوں حلف اٹھایا تھا۔

کہنے کو اب بھی بہت کچھ باقی ہے، مگر تحریر ضرورت سے زیادہ طویل ہوگئی، اس لیے مسلم لیگی کردار والے حصے کو مختصر کرنا پڑا ورنہ مزید کافی کچھ گنوایا جا سکتا تھا۔ مختصرا یہ کہ ن لیگ کا قائداعظم کی مسلم لیگ سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا شیطان کو ایمان سے ہو سکتا ہے۔ وہ بےچاری مسلم لیگ تو لیاقت علی خان کی آنکھ بند ہوتے ہی آخری ہچکی لے چکی تھی۔ آخر میں بس اتنا کہنا ہے کہ ہمیشہ کی طرح آپ آج بھی تاریخ کی غلط سمت میں کھڑے ہیں جب اپنے فرائض کو چھوڑ کر خود کو کرپشن کے دفاع کے لیے مختص کر لیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے