⁠⁠⁠ڈاکٹرشہباز منج،تصور ختم نبوت اوراحمدی جوڑا

ایڈیٹرز نوٹ : ڈاکٹر شہباز منج سرگودھا یونیورسٹی میں استاد ہیں . انہوں نے گذشتہ دنوں آئی بی سی اردو پر احمد جوڑے کے حوالے سے ایک مضمون لکھا جس سلیم الحق خان صاحب نے جواب دیا ہے . آئی بی سی اردو سنجیدہ علمی مکالمے کی روایت کا امین ہے . صاحبان علم ان موضوعات پر اپنی آرا کا علمی انداز میں اظہار کر سکتے ہیں .

ڈاکٹر شہباز منج صاحب کا مضمون اس لنک پر کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے .

ڈاکٹر محمد شہباز منج صاحب مجھے نہیں معلوم کہ یہ واقعہ اور کردار حقیقی ہیں یا نہیں؟ اور پاکستان میں احمدیوں پر اپنے اظہار عقیدہ اور احمدی کتب و رسائل پر پابندی کے ہوتے ہوئے کوئی خاتون کیسے اپنے عقائد کا کھل کر اظہار کر سکتی ہے اس کا جواب آپ ہی دے سکتے ہیں۔ اور اس پر مزید یہ کہ آپ اس کے استاد بھی ہوں اور پاکستان میں احمدیوں کے خلاف عام رویہ بھی متشددانہ ہو۔ خیر اس مفروضہ قصے کو چھوڑ کر میں آپ کے تحقیقی جذبے اور جرأت کی قدر کرتا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کے حقیقی عقائد کے بارے میں سوال کرنا بھی ایسا جرم ہے کہ سوال کرنے والے پر توہین رسالت کا پرچہ کردیا جاتا ہے اور اگر کوئی شخص کسی اعلی عہدے کا اہل بھی ہو تو اسے نام نہاد علماء کے خوف سے اس شخص کو یا اس کے ادارے کو خواہ وہ فوج کا ادارہ ہی کیوں نہ ہو، وضاحت بھی کرنی پڑھتی ہے کہ اسکا ہی نہیں بلکہ اس کے دور پار کے کسی عزیز رشتہ دار کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں۔

تفصیلی عقائد کے بیان کا یہاں موقع نہیں مگر مختصر طور پر میں بنیادی اختلافی عقائد جو دراصل اختلافی ہیں بھی نہیں کا ذکر کرنا چاہوں گا تا عام مسلمان کو میرے ہی نہیں اپنے عقیدے سے بھی واقفیت ہو جائے۔ یہ بات آپ کو عجیب لگے گی مگر حقیقت یہ ہی ہے۔

مسلمانوں کی اکثریت حضرت امام مہدی علیہ السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کی آخری زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آمد و نزول کی منتظر ہے۔ اس عظیم دور میں رونما ہونے والے واقعات کی تفصیل احادیث میں موجود ہے اور وہ تقریبا تمام واقعات ہمارے سامنے ظہور پاچکے ہیں اور ان واقعات کا رونما ہو جانا احادیث کی صداقت کا زبردست ثبوت ہے جسے ایک بینا شخص رد کر ہی نہیں سکتا۔

وہ مسلمان جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ قرآن کریم میں درج ہے کہ وہ نبی اور رسول ہیں اور یہ ایسا منصب ہے کہ اس سے اللہ تعالی کسی کو معزول نہیں فرماتا۔ لہذا جب حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ تشریف لائیں گے وہ نبی بھی ہوں گے اور امتی بھی ہوں گے۔

اس کا حوالہ مسلم شریف کی وہ حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے آنے والے مسیح کو چار بار عیسٰی نبی اللہ فرمایا اور آپ کے ساتھیوں کو اصحاب فرمایا۔ تو گویا ختم نبوت کے جو معنی نام نہاد علماء نے آپ کو بتائے ہیں وہ نہیں ہیں کہ کسی قسم کا نبی نہیں آئے گا۔ قرآن کریم کو آپ پڑھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ نبی شرعی بھی ہوتے ہیں جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور امتی یا طابع نبی جیسے بیشمار انبیاء موسوی امت یا بنی اسرائیل میں آئے جن میں آخر پر حضرت عیسی علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کے 1400 سال بعد آئے۔ اسی طرح امت محمدیہ میں بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی تمثیلی نام سے آمد بھی امتی نبی کی حیثیت سے ہی ہو گی ۔ امت محمدیہ میں آنے والےعیسٰی علیہ السلام موسوی شریعت کی تعلیم نہیں دیں گے جو تورات و انجیل پر مبنی ہے بلکہ وہ قرآن کریم کی تعلیمات کے ذریعہ امت محمدیہ کی اصلاح کی تعلیم دیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر وہ حقیقی جسمانی طور پر وہی وجود ہیں جو بنی اسرائیل کی طرف آئے تھے تو کیا حضرت عیسٰی علیہ السلام پر دوبارہ قرآن کریم نازل ہو گا یا وہ آکر کسی سے قرآن پڑھیں گے تا کہ قرآن کریم کے ذریعے امت کی اصلاح کرسکیں؟

احمدی بھی دوسرے مسلمان فرقوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسٰی نبی اللہ کی آمد پر یقین رکھتے ہیں۔ فرق صرف شخصیت کا ہے۔ احمدی اس سارے کلام کو تمثیلی کلام مانتے ہیں جب کہ دوسرے مسلمان فرقے حقیقی معنی لیتے ہیں۔ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم کی 73 فرقوں والی حدیث کے الفاظ پر ہی غور کرنے سے سمجھ آسکتی ہے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی امت کو موسوی امت کے مشابہ قرار دیا ہے۔ احمدی عقیدہ ہے جس وجود نے امت کی اصلاح کے لئے آنا ہے وہ امت محمدیہ میں پیدا ہو گا اور شریعت محمدی کی پیروی سے ہی امتی نبوت کا مقام حاصل کرے گا۔ جیسا کہ موسوی امت میں حضرت عیسی علیہ السلام نے حاصل کیا تھا ۔امت محمدیہ میں آنے والا وجود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل غلامی میں آئے گا اور امت کی اصلاح کا کام کرے گا اور دوسرے ادیان باطلہ کا دلائل اور قرآن کی برہان سے خاتمہ کرے گا۔

احمدی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو وہی امام مہدی اور مسیح مانتے ہیں جس کے آنے کی بشارت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے خود دی تھی۔
پاکستان میں 1984 سے یک طرفہ احمدیوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور احمدیوں کے ساتھ نام نہاد علماء کی طرف سے خود تراشیدہ اور بےبنیاد عقائد منسوب کر دئے جاتے ہیں اور احمدیوں کے خلاف نفرت کی ایک نا ختم ہونے والی آگ بھڑکائی جاتی ہے۔ حضرت مرزا صاحب کا دعوی ہر اس منصب کا دعوی ہے جس کی آخری زمانے میں امت کی اصلاح کے لئے آنے والے وجود کے منصب کی پیش خبری حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی تھی۔

میں آپ سے مودبانہ گزارش کروں گا کہ اگر آپ واقعی تحقیق کرنا چاہتے ہیں تو آپ حضرت مرزا صاحب کی اصل تصانیف کا مطالعہ کریں جو انٹرنیٹ پر احمدیہ آفیشل ویب سائٹ پر موجود ہیں اور جن کو پاکستان میں رکھنا اتنا بڑا جرم ہے کہ ایک 80 سالہ احمدی المشہور شکور بھائی یہ کتابیں رکھنے پر دہشتگردی کی دفعات کے نتیجہ میں 8 سال کی قید بھگت رہے ہیں۔ سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے پھیلانا جھوٹا ہونے کی نشانی ہے۔

احمدیہ عقائد کے پرچار اور احمدیہ کتب و رسائل پر پاکستان میں پابندی آپ کو دعوت فکر دیتی ہے کہ دلائل سے آراستہ قوموں کو ایسے اقدامات کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی۔ا بلکہ اس کے مقابل ان کی طرف سے”قل ہاتوابرھانکم ان کنتم صادقین” کا اعلان عام ہمیشہ جاری و ساری رہتا ہے۔

آخر میں میں حضرت مرزا صاحب کی تحریر سے اقتباس پیش کرتا ہوں:-

"نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم ۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو۔ اور اس کے غیر کو اس سے کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ ۔ اور یاد رکھو نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہو گی۔ بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ کون ہے؟

وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے۔ اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے۔ مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے۔۔”۔ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13-14)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے