راجہ فاروق حیدر کے ابتدائی چھ ماہ، ایک جائزہ

علاقائی اور قومی معاملات پر اپنے دو ٹوک موقف کے لئے پہچانے جانے والے آزادکشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ (ن)کی حکومت کو قائم ہوئے چھ ماہ مکمل ہوچکے ہیں۔ ان ابتدائی چھ ماہ میں اگرچہ راجہ فاروق حیدر نے بنیادی نوعیت کے متعدد ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جو ان کے انتخابی منشور کا حصہ تھے تاہم ان کے سامنے ابھی بھی انتخابی وعدوں اوردعوﺅں کا ایک پہاڑ کھڑا ہے۔

فاروق حیدر حکومت کی ابتدائی چھ ماہ کی کارکردگی اگرچہ ان کے وعدوں اور دعوﺅں سے کسی حدمطابقت رکھتی ہے مگر جن اقدمات کا وعدہ ے کی بنیاد پر انہوں نے عوام سے ووٹ حاصل کیئے ان میں سے کئی ایک کا پورا ہونا مستقبل قریب میں بھی نظر نہیں آ رہا ۔آزاد کشمیر کے وزراءاپنی حکومت کی کارکردگی کو قابل فخر قرار دے رہے ہیں، اپوزیشن جماعتیں مسلسل لاتعلقی کا اظہار کر رہی ہیں، جبکہ کچھ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق فاروق حیدر کی اپنی ہی جماعت کے کچھ ممبران اسمبلی اندرون خانہ اپنے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے بھی ساز باز کر رہے ہیں۔

فاروق حیدرکوریاستی اقتدارایک ایسے وقت میں ملا جب وفاقی اور ریاستی حکومت کے درمیان مالیاتی کھینچا تانی کے باعث خطے کو لگ بھگ 22 ارب روپے کے اوور ڈرافٹ کا سامنا تھا۔ آٹھ جولائی کو بھارتی فوج کے ہاتھوں حزب المجاہدین کمانڈربرہان وانی کے شہادت کے بعد منقسم ریاست جموں وکشمیر کی تمام

وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدرخان
وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدرخان

اکائیوں میں احتجاج اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو چکی تھی۔ 18ستمبر میں کو اڑی حملے کے بعد تو صورتحال مزید خراب ہو گئی ۔ خطے میں طویل دورانیہ تک جنگ کے بادل منڈلاتے رہے۔ کنٹرول لائن پر ہونےوالی جھڑپوں اور فائرنگ کے تبادلے میں درجنوں افراد شہید اور زخمی ہوئے اور املاک تباہ ہوئیں۔ ان مشکل حالات میں فاروق حیدر حکومت کی کارکردگی اخباری بیانات اور کنٹرول لائن کے کچھ علاقوں کے فضائی دوروں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

مسلم لیگ کے انتخابی منشور میں شامل اہم نکات میں آزادکشمیر کے عبوری آئین، ایکٹ 1974ءمیں ترمیم کے ذریعے ریاستی حکومت کے اختیارات میں اضافہ ایک اہم نقطہ ہے۔ریاست کے اندر سے کرپشن کا خاتمہ، سرکاری ملازمتوں پر تقرریوں میں میرٹ کی پاسداری، ریاست میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے ذریعے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی، نوجوانوں کی قومی سیاست اور فیصلہ سازی کے عمل میں شمولیت کے لئے عملی اقدامات وہ نعرے ہیں جنہوں نے عام آدمی خصوصاً نوجوانوں کو مسلم لیگ (ن) کی طرف راغب کیا۔

جن وعدوں نے سب سے زیادہ ووٹروں کی توجہ حاصل کی ہے ان میں کشمیر کونسل سے اختیارات کی قانون ساز اسمبلی کو منتقلی ،ریاستی حکومت کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنانے، منگلاڈیم اور پن بجلی دیگر منصوبوں پر حکومت پاکستان سے پاکستان کے صوبوں کے برابر رائیلٹی کا حصول، نئے تعمیر ہونے والے پن بجلی منصبوں پر حکومت پاکستان کے ساتھ معائدہ جات، قومی مالیاتی کمیشن میں پاکستان کے صوبوں کے دیے جانے والے حصے کی شرح کے مطابق حکومت پاکستان سے اپنا حصہ وصول کرنے ،پاکستان میں مقیم مہاجرین جموں وکشمیرکے لئے مختص 12نشستوں پر انتخابات کے طریقہ کار میں تبدیلی کے ذریعے وفاقی حکومت اور اداروں کی آزاد کشمیر کے سیاسی عمل میں مداخلت کو ختم کرنے جیسے پرکشش وعدے شامل تھے۔

کابینہ کی تشکیل اور صوابدیدی عہدوں پر تقرریوں کے عمل میں وفاقی وزراءکے دباﺅ کو خاطر میں نہ لاکر اپنے ساتھ وزراءاور افسران کی ایک مختصر مگر متحرک اور با صلاحیت ٹیم تشکیل دیکر اگرچہ راجہ فاروق حیدر نے ان تمام وعدوں کی تکمیل کے لئے ایک مضبوط بنیاد قائم کر لی تھی۔ تاہم اپنے منصوبوں اور ارادوں پر عمل کے لئے انہیں فی الحال وہ سازگار حالات میسر نہیں آسکے جن کی توقع پاکستان میں ان کی ہی جماعت کی حکومت کی موجودگی میں کی جا رہی تھی۔حکومت کی تشکیل کے دوران اگرچہ فاروق حیدر نے اپنی کابینہ مختصر رکھنے کا وعدہ پورا کیا تاہم وفاقی وزراءنے کابینہ میں اپنی مرضی کے وزراءشامل نہ کرنے پر فاروق حیدر حکومت کے لئے مالیاتی اور سیاسی مسائل پیدا کرنے کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

آزاد کشمیر کی سابق حکومت کے منظور کردہ تعلیمی پیکج کی منسوخی کا معاملہ ابھی تک عدالتوں میں زیرکار ہے مگر فاروق حیدر حکومت کے اس قدام کو ریاستی عوام کی اکثریت نے ناپسندکیا ہے۔ پبلک سروس کمیشن کی تشکیل نو، محکمہ تعلیم میں این ٹی ایس یعنی نیشنل ٹیسٹنگ سروس کے ذریعے بھرتیا ں ،کابینہ کا مختصر سائز، صوابدیدی عہدوں پر ماضی کی نسبت کم تعداد میں سیاسی تقرریاں ، سرکاری ملازمین کے انتقامی تبادلوں کا تناسب ماضی کی نسبت کم ہونا فاروق حیدر حکومت کے ایسے اقدامات ہیں جن پر ان کی جماعت کے ممبران اسمبلی ، وزراءاور سیاسی کارکن خوش ہو یا نہ ہو ں ریاستی عوام بحرحال کافی حد تک مطمئن ہیں۔فاروق حیدر کے ان اقدامات سے ریاستی خزانے کا بوجھ بحر حال کسی حد تک کم ہوا ہے۔

بلدیاتی اداروں میں سیاسی ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے کے بجائے چھ ماہ کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات کا وعدہ بھی پورا نہیں ہو سکا۔ اگر چہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور وزیر اعظم کی جانب سے ان انتخابات میں نوجوانوں کے لئے 25فیصد نشستیں مختص کرنے کے اعلان کو کافی سراہا گیا ہے۔ باوجود اس کے کہ عدالت سابق دور حکومت میں ہی حکم دے چکی ہے، فی الحال ان انتخابات کا انعقاد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ آزادکشمیر کے لوگوں نے آخری بار 1992ءمیں بلدیاتی انتخابات میںووٹ ڈالے تھے۔

آزادکشمیر کے عبوری آئین، ایکٹ 1974ءمیں ترمیم کے ذریعے کشمیر کونسل سے اختیارات کی قانون ساز اسمبلی کو منتقلی ،ریاستی حکومت کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنانے، منگلاڈیم اور پن بجلی کے دیگر منصوبوں پر حکومت پاکستان سے صوبوں کے برابر رائیلٹی کا حصول، نئے تعمیر ہونے والے پن بجلی منصبوں پر حکومت پاکستان کے ساتھ معائدہ جات، این ایف سی ایوارڈمیں صوبوں کے دیے جانے والے حصے کی شرح کے مطابق وفاقی سے اپنا حصہ وصول کرنے کے علاوہ کشمیر کونسل سے ٹیکس وصول کرنے کے اختیارات کی ریاستی حکومت کو منتقلی، وفاقی حکومت اور اداروں کی جانب سے ریاست کے سیاسی اور حکومتی معاملات میں مداخلت کا راستہ روکنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مقیم مہاجرین جموں وکشمیرکے لئے مختص 12نشستوں پر انتخابات کے طریقہ کار میں تبدیلی کے معاملات کو بھی وزیر اعظم اپنے طور پرمتعلقہ فورمز پر اٹھا چکے ہیں۔

وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اپنے حالیہ دورہ مظفر آباد کے دوران ایکٹ 74ءمیں ترمیم کے لئے اصولی حمائت کا عندیہ بھی دیے دیا ہے ۔ اس سلسلے میں عملی اقدامات اور رائے عامہ کا ہموار ہونا ابھی باقی ہے۔ دیگر امور جن میں قومی مالیاتی کمیشن ، رائیلٹی اور ٹیکسوں میں حصے کے معاملے میں صوبوں اور وفاقی اداروں کے ساتھ روابط کے باوجود فی الحال خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی بلکہ بعض صوبوں اور اداروں کی جانب سے تو باقاعدہ مزاحمت بھی کی جا رہی ہے۔

مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پراجاگر کرنے کے لئے ہونے والے اقدامات میں حصہ ڈالنے کے لئے وزیر اعظم اب تک برطانیہ سمیت متعدد یورپی ممالک کے دورے کر چکے ہیں ۔اس دوران برطانوی اور یورپی ممبران پارلیمنٹ اور انسانی حقوق کے اداروں سے متعدد ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں۔ وزیر اعظم ان دنوں بھی برطانیہ کے دورے پر ہیں جہاں انہوں نے آزادکشمیر میں تعلیمی نظام بہتر کرنے اور اساتذہ کی تربیت کے لیے برطانوی حکومت کے ادارے برٹش کونسل اور آزادکشمیر کی حکومت کے درمیان چھ ہزاراساتذہ کی تربیت کے معاہدہ پر دستخط دستخط کیئے ہیں۔ اس منصوبے کے دوسرے مرحلے پر برطانوی حکومت آزادکشمیر میں ہزاروں بچوں کو انگریزی کی تعلیم دے گی۔

آزاد کشمیر میں بجلی کا بحران فاروق حیدر حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی حکومت سے متعدد بار شکایات اور واپڈا حکام کے ساتھ تلخ ترش پیغامات کے تبادلے کے باوجود دارالحکومت مظفر آباد سمیت کئی علاقوں میں اس وقت بھی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ دس گھنٹوں سے اوپر ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف بھی اس سلسلے میں احکامات صادر کر چکے ہیں کہ آزاد کشمیر میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ چھ گھنٹے سے اوپر نہیں ہونا چاہیے تاہم بجلی کی پیدوار کا بے تحاشہ پوٹینشل ہونے کے باوجود آزاد کشمیر کے کئی علاقوں کی راتیں روشن نہیں ہو سکیں۔

منتخب ہونے کے بعد سے مسلسل بھاگ دوڑ کے باوجود وزیر اعظم فاروق حیدر اپنے ابتدائی چھ ماہ کے دوران کوئی نمایاں تبدیلی تو نہیں لا سکے تاہم جس انداز میں انہوں نے بیرونی و اندرونی دباﺅ کا سامنا کیاہے اور بنیادی نوعیت کے جو اقدامات اٹھانے کے ساتھ ساتھ متبادل پالیسیاں اپنائی ہیں،خطے پر ان کے دور رس اثرات ضرور مرتب ہوں کے۔بحرحال ان اثرات کے مثبت اور دیرپا ہونے کا انحصارراجہ فاروق حیدر کی حکومت کے استحکام پر ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے