امریکہ اور حقوق انسانی ( پارٹ 1)

امریکیوں نے آٹھ سالہ نوار کو قتل کر دیا تو اس پر حیرت کیسی ؟کہ اس قوم کے افسانے سے بوئے خوں ہی تو آتی ہے۔ہاں ایک عام آدمی گاہے الجھ ضرور جاتا ہے کہ ایک پاکستانی بیٹی ملالہ کے لیے تڑپ اٹھنے والا امریکہ خود دوسروں کی بیٹیوں اور بچوں کو کیسے قتل کر سکتا ہے.

امریکہ کی تاریخ کا ایک سرسری سا جائزہ اس الجھن کو دور کر دیتا ہے. امریکہ نے ابھی تک”کنونشن آن دی رائٹس آف چائلڈ” یعنی بچوں کے حقوق کے کنونشن کی توثیق نہیں کی۔ دل چسپ بات یہ کہ اس کنونشن کے سات آرٹیکلز خود امریکہ نے لکھے تھے جن میں سے تین براہِ راست امریکی آئین میں سے لیے گئے اور خود صدر ریگن نے تجویز کیے تھے۔
( بحوالہ،نینسی ۔ای۔واکر، کیتھرین بروکس، لارنس ایس رائٹسمین،
Children Rights in the United States: In Search of National Policy ،
(ایس اے جی ای) 199 ، صٖفحہ 40۔ )
افغانستان کو اس نے امن کے نام پر برباد کردیا ۔ یہی نہیں بلکہ آدمی حیرت اور صدمے سے دوچار ہوجاتا ہے جب وہ یہ خبر سنتا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجی مرنے والے معصوم شہریوں کے اعضاء کاٹ کر”یادگار” کے طور پر محفوظ کر لیتے ہیں اور فخر سے دوستوں کو دکھاتے ہیں ۔

جرمن روزنامے "درسپیگل” (Der Speigal) اور امریکی میگزین "رولنگ سٹون ” (Rolling Stone)نے ایسی تصاویر بھی شائع کیں جن میں امریکی فوجی مقتول افغانوں کی لاشوں کے پاس فاتح کے طور پر کھڑے ہیں جن کے سر کاٹے جاچکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان سروں کی یہ فوجی ٹرافیاں بناتے ہیں ۔جیسے شکاری کبھی ہرن شکار کرکے ٹرافیاں بناتے تھے۔(بحواالہ، ایشین ٹریبون، یشین ٹریبون،
US War Crimes In Afhanistan: Severed Human Heads Brandished
25 اپریل 2011۔ )
ایشین ٹریبیون (Asian Tribune) کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ افغانستان میں تعنیات "ففتھ سٹرائکربرگیڈ” کے "تھرڈ پلاٹون” کی "براوو کمپنی” کے ایک فوجی کارپورل جرمی مارلوک (Jermy Marlock) نے ایک پندرہ سالہ نہتے افغان لڑکے گل مدین کو قتل کرنے کے بعد اس کی انگلی یاد گار کے طور پر اپنے پاس محفوظ کرلی( بحوالہ ،ایشین ٹریبیون،25 اپریل2011)
جنگی جنون جتنا بھی بڑھ جائے ، یہ وہ جرم ہے جس کا کوئی انسان تصور تک نہیں کر سکتا لیکن امریکہ کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے یہ امریکی فوجی پہلی بار اس گھناونے جرم کے مرتکب نہیں ہو رہے بلکہ وہ اس سے قبل جاپانیوں کو بھی اسی "حسنِ سلوک ” کا نشانہ بنا چکے ہیں۔

وحشت و بربریت کے ان مظاہر کا تعلق اگر محض امریکی فوج کے نچلی سطح کے اہلکار وں تک محدود ہوتا تب بھی ایک ناقابل برداشت اور شرمناک اقدام تھالیکن ہمیں یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ امریکی کا نگریس کے اراکین تک مرنے والوں کے اعضاء ایک دوسرے کو تحفے میں پیش کرتے رہے۔

امریکہ کی "سدرن الینائس یونیورسٹی” (Southern Illinois) کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر جیمز ۔ جے ۔وینگارٹنر کا کہنا ہے کہ ایک رکن کانگریس نے امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ کو ایک (Letter opener) تحفے میں دیا جو ایک مقتول جاپانی فوجی کے بازو کی ہڈی سے بنایا گیا تھا( بحوالہ،جیمز، جے۔ویگارٹنر، Trophies of War: US Troops and the Mutilation of Japanese war Dead ” یونیورسٹی کیلیفورنیا پریس جرنل ” 1992 صفحہ 65)
ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی جاپانی فوجیوں کے سر کاٹ کر پکاتے اور کھاتے بھی رہے۔ اور یہ رپورٹ بھی کسی دوسرے حریف ملک کی نہیں بلکہ امریکہ کی اپنی یونیورسٹی آف السٹر (University of ULSTER) کے پرفیسر سمن ہارے سن (Simon Harrison, ) کی ہے( بحوالہ، ہاری سن سمن،Skull Trophies of the Pacific War جرنل آف دی رائل انتھروپولوجیکل انسٹی ٹیوٹ، یونیورسٹی آف السٹر۔ 2008 ، صفحہ 827 )
یہ برائی اتنی عام ہو گئی تھی کہ امریکی شاعر ونفیلڈ ٹاونلے سکاٹ جس اخبار میں ملازمت کرتا تھا اس اخبار کے دفتر میں بھی ایک جاپانی فوجی کے سر کی بنی ہوئی ٹرافی آویزاں کردی گئی۔ سکاٹ نے اس پر ایک نظم بھی لکھی:

The US Soldier with the Japanese Skull( دی یو ایس سولجر ود دی جاپانیز سکل)۔( بحوالہ،ہاری سن سمن،Skull Trophies of the Pacific War جرنل آف دی رائل انتھروپولوجیکل انسٹی ٹیوٹ، یونیورسٹی آف السٹر۔ 2008 ، صفحہ 822 )
ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے سینئر ریسرچ فیلو معروف برطانوی مورخ نیال فرگوسن (Nail Ferguson) جن کا ٹائم میگزین نے 2004 میں دنیا کے 100 موثر ترین آدمیوں میں شمار کیا تھا اور جو امریکی صدارتی امیدوار جان میک کین کے مشیر بھی رہ چکے ہیں، اس بربریت کے بارے میں لکھتے ہیں :

” دشمن کی کھو پڑیوں سے ابال کر کھال اتار کر یادگار کے طور پر رکھنے کا عمل ایک عام چیز تھی۔ کان ، ہڈیاں اور دانت تک اکٹھے کیے گئے)بحوالہ،نیال فرگوسن ، The War of the World: Historys Age of Hatred پینگوئن بکس ، لندن صفحہ 546 ۔(ISBN 978-0-14-101382-4
یہ بربریت اس قدر عام تھی کہ سمن ہاری سن کے مطابق 1984 میں جب جاپانی فوجیوں کی باقیات واپس کی گئیں تو 60 فیصد لاشوں کے سرتن سے جد ا ہوچکے تھے( بحوالہ،ہاری سن سمن،Skull Trophies of the Pacific War جرنل آف دی رائل انتھروپولوجیکل انسٹی ٹیوٹ، یونیورسٹی آف السٹر۔ 2008 ، صفحہ 828 )
امریکہ کے معروف پروفیسر جیمز۔جے۔وینگارٹنر کا کہنا ہے کہ چونکہ امریکی معاشرہ جاپانیوں کو جانور سمجھتا تھا اس لیے ان کی ہڈیوں اور کھوپڑیوں کے ساتھ اگر وہی سلوک کیا گیا جو جانوروں کی ہڈیوں اور کھوپڑیوں کے ساتھ ہوتا ہے تو اس میں حیرت کیسی؟( بحوالہ، جیمز، جے۔ویگارٹنر، Trophies of War: US Troops and the Mutilation of Japanese war Dead
” یونیورسٹی کیلیفورنیا پریس جرنل ” 1992 صفحہ 54)ٍ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے