حافظ سعید،کشمیراورنجی جہادی گروہ

حافظ سعید کے ساتھ جو ہوا وہ غیرمتوقع نہیں تھا۔ان کی تنظیم کا ’’اصلی‘‘ نام لشکر طیبہ تھا جسے نائن الیون کے بعد’’قومی مفاد‘‘ میں سابق فوجی آمر پرویزمشرف نے کالعدم قرار دیا تھا۔ پھر اس جماعت نے اپنا نام جماعۃ الدعوۃ رکھ لیا اور اپنے کام میں کافی تنوع لایا۔کشمیر میں عسکری کارروائیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں فلاحی کاموں میں بھی اس جماعت کے کارکن کافی متحرک نظر آئے ۔ایمولینسوں ، ہسپتالوں اور اسکولوں کی چین بنائی گئی ۔ رائے عامہ پر اثر انداز ہونے اور اپنی تشہیر کے لیے ایک مضبوط سائبر ٹیم بھی تشکیل دی گئی۔صحافیوں کی دل کھول کی خدمت کی جاتی رہی۔

عیدین پر ’’تحائف‘‘ کے لیے پاکستان کے کم وبیش سبھی بڑے شہروں کے صحافیوں کی فہرستیں بنائی جاتی رہیں اور پریس کلبوں کا ’’خاص خیال ‘‘ رکھا جاتا رہا۔ نتیجے میں حافظ سعید میڈیا میں مسلسل اِن رہے۔ کبھی کبھار ان کے نام سے لکھا مضمون بھی اخبارات کے ادارتی ودینی صفحات پر دکھائی دیتا رہا۔ انہیں ایک ہیرو اور بھارت دشمن کے طور پر پورٹریٹ کیا گیا جس سے بھارت اور دیگر ممالک کو تنقید کا کھلا موقع ملتا رہا لیکن معاشی مفادات کی بناء پر جڑی اس دنیا میں ایسا اب بہت دیر تک ایسا چل نہیں سکتا۔

حافظ سعید کی کالعدم لشکر طیبہ ( بعد میں جماعۃ الدعوۃ) کی بنیادی پہچان کشمیر میں عسکریت ہے ۔حافظ سعید اور ان کے بہی خوا ہ اس لڑائی کو ’’جہاد‘‘ باور کرواتے ہیں۔وہ ہندوستان کے خلاف ایک فیصلہ کن آخری معرکے کی تیاری کو دینی فریضہ قرار دے کر نوجوانوں کی تربیت کرتے رہے ہیں ۔ ’’دفاعِ پاکستان کونسل ‘‘ کے نام سے بنائے گئے کئی جماعتوں کے اتحاد کا حصہ بھی ہیں اور اکثر کونسل کے جلسوں میں خطاب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ریاست نے بیرونی دباؤ کے باوجود انہیں بہت عرصہ تک کھل کھیلنے کا موقع دیا لیکن اب بالآخر انہیں محدود کرنے کا فیصلہ کر دیا گیاہے اور اس اقدام کو حسب سابق ’’قومی مفاد‘‘ کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔

حافظ سعید کو گھر میں نظر بند کرنا درست ہے یا غلط ۔ اس پر بات ہو سکتی ہے ، لیکن کشمیر میں کسی بھی پاکستانی عسکری تنظیم کی موجودگی یا سرگرمی بہرحال کئی طرح کے سوالات کو جنم دیتی ہے ۔ ان غیر ریاستی تنظیموں کی سرگرمیوں کی وجہ سے کشمیر کے ایک بڑے حصے پر قابض بھارت کو یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ کشمیر میں ’’دراندازی‘‘ پاکستان کروا رہا ہے ۔ اس کے نتیجے میں کشمیر کی حقیقی وداخلی تحریک بھی شکوک وشبہات کا شکار ہو جاتی ہے۔

آزادکشمیر میں جماعۃ الدعوۃ یا جیش محمد ٹائپ تنظیموں کی جانب سے احتجاج اور دیگر سرگرمیاں بھی کشمیریوں کے درد کا درماں کرنے کی بجائے ان کے لیے مزید مسائل پیدا کرتی ہیں۔ جب لوگ ان غیر ریاستی عسکری تنظیموں کے اقدامات اور آزادانہ چلت پھرت پر تنقید کرتے ہیں تو انہیں ’’قومی سلامتی ‘‘ کے مخالف قرار دے کر چُپ کرا دیا جاتا ہے۔جب یہ عسکری تنظیمیں اپنی لڑائی کو مذہب کی بنیاد فراہم کرتی ہیں تو ان پر تنقید کا دروازہ تقریباً بند ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ اس صورت میں ناقد کو مذہب کے مقدس نظریات سے منحرف قرار دیے جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس لیے بہت سے لوگ خاموشی ہی کو عافیت جانتے ہیں۔

نوے کی دہائی کے آس پاس شروع ہونے والی اس رنگ برنگ ’’جہادی تحریک‘‘ کے لیے درجنوں پرائیویٹ گروہ بنائے گئے ۔انہیں ہر طرح کی سہولیات بہم پہچائی گئیں۔کئی طرح کے استثنیٰ انہیں حاصل تھے۔ مذہبی واعظوں اور مبلغوں کے ذریعے ملک کے بیش تر دیہی علاقوں میں جلسے جلوس ہونا شروع ہوئے ۔ یہ واعظ کشمیر میں ہونے والے مظالم کی پرسوز تصویر کشی کرتے رہے اور نوجوانوں کو اس’’مقدس جنگ ‘‘ کے لیے تیار کرتے رہے۔ بے شمار نوجوان اپنا گھر بار، پڑھائی اور مستقبل تیاگ کر ان جتھوں کا حصہ بنے اور پھر انہیں واپسی کا راستہ کم ہی ملا ۔ بعضوں کو سب کچھ دیکھ بھال لینے کے بعد ہوش آیا تو اس وقت کافی دیر ہوچکی تھی ۔ ایسے بچے کھچے کچھ نوجوان آج نجی محفلوں میں سچی آپ بیتیاں سناتے ہیں اور دیگر نوجوانوں کو الحذر الحذر کی تلقین کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

کشمیر کے باب میں کچھ چیزیں سمجھ لینی چاہیں۔ ایک تو یہ کہ کشمیر صدیوں پرانی ریاست ہے جس کا رقبہ تاریخ کے نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ بڑھتا گھٹتا رہاہے لیکن اس کی الگ شناخت البتہ ہمیشہ برقرار رہی ہے ۔اس خطے میں کئی مذاہب کے ماننے والے آباد ہیں۔بین المذاہب ہم آہنگی اور اپنا مخصوص آرٹ و کلچر اس خطے کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔ تقسیم ہند کے ہنگام یہ بوجوہ(گلگت کی تحریک، قبائلی یلغار اور بھارتی فوجوں کی آمد وغیرہ سے) یہ ریاست منقسم ہوئی اور کشمیر کم ازکم دوبڑے حصوں میں بٹ گیا جن کا انتظام پاکستان اور بھارت کے ہاتھ آیا۔ آر اور پار کے کشمیریوں کو اس تقسیم کی بھاری قیمت چکانی پڑی اور یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں۔

نوے کی دہائی کے اوائل میں شروع کیے گئے ’’جہاد‘‘ نے کشمیریوں کی زندگیوں کو مزید المیوں سے دوچار کر دیا۔ پھر ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ اپنی آزادی کے لیے سرگرم بہت سے کشمیریوں کو اپنی تحریک کے مخصوص مذہبی رنگ میں ڈھل جانے کا خطرہ محسوس ہوا تو وہ عسکریت سے دست برادر ہو کر غیر مسلح جد وجہد کی جانب آئے ۔ یہ بڑا فیصلہ تھا لیکن اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا ۔

اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کشمیریوں کی غیر مسلح جدوجہد کی انسانی بنیادوں پر اخلاقی حمایت اور دنیا بھر میں ان کے موقف کی ترجمانی کی جاتی۔عالمی فورمز پر کشمیریوں کی براہ راست رسائی کو ممکن بنایا جاتا، بحیثیت کشمیریوں کے وکیل ، پاکستان کے پالیسی ساز اداروں اور سفارتی مشنوں کا یہی کام تھا لیکن کچھ عاقبت نااندیشوں نے ’’عسکری تڑکا‘‘ لگائے رکھنا ضروری سمجھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس طرح بھارت کو دباؤ میں رکھا جانا آسان ہوگا۔ بعد میں ثابت ہوایہ محض خوش فہمی تھی۔بھارت نے مخصوص ایشوز کو بنیاد بنا کر پاکستان کو سفارتی طور پر تنہاکرنے کی بھرپور مہم چلائی اور وہ اس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہا ۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے فیصلہ سازوں نے دیر سے ہی سہی مگر کسی نہ کسی صورت اس خطرے کا اثر محسوس کر لیا ہے اور حالیہ اقدامات اسی ادراک کا ایک ابتدائی نتیجہ ہیں۔

آج کی دنیا میں ریاستوں کے تعلقات کا سب سے بڑا حوالہ معاشی بھائی بندیاں ہوتی ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں نظریات و عقائد ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ حال ہی میں متحدہ عرب امارات کا بھارت کا یوم جمہوریہ بھرپور طریقے سے منانا، ترکی کا روس سے معافی مانگنا اور اسرائیل سے تعلقات بہتر بنانا، افغانستان کا اپنے سر سے پاکستان کا ہاتھ جھٹک دینا، روس اور چین کے درمیان تلخیوں میں نمایاں کمی آنا اور ”مرگ بر امریکا” کا نعرہ لگانے والے ایران کا امریکا کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کر لینا وغیرہ اسی حقیقت کا مظہر ہیں۔ یہاں بھی یہی مجبوری آڑے آئی کہ پاکستان نے ممکنہ معاشی ناکہ بندیوں سے بچنے کے لیے حافظ سعید کو محدود کیا ہے۔ سفارتی سطح پر ہونے والی مسلسل سُبکی بھی اس کی ایک وجہ ہے ۔

اگر ڈُو مور کا مطالبہ شدت اختیار کر گیا تو ممکن ہے مستقبل میں حافظ سعید کے حوالے سے اس سے بھی سخت فیصلہ لینا پڑے۔ یہ بھی امکان ہے کہ حافظ سعید اور ان کی بھرپور افرادی وقت کو سرگرمی کی کسی نئی جولان گاہ میں مصروف کر دیا جائے اور کسی نئے موقع پر ان کے استعمال کی منصوبہ بندی کی جائے۔ تاہم حافظ سعید کی نظر بندی سے منظر سے ابہام کی تہہ کسی قدر چھٹنا شروع ہو چکی ہے۔

حافظ سعید نے حکام کی جانب سے نظر بندی کے احکامات ملنے کے بعد کہا کہ یہ دراصل ہمیں کشمیر کی تحریک آزادی کی حمایت سے روکنے کا حربہ ہے لیکن انہوں نے ریاست کے فیصلے کی تعمیل میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ یہ اچھی علامت ہے۔ اب اصل کام پاکستان کے فیصلہ ساز اداروں کا ہے کہ وہ کشمیریوں کی تحریک کی اخلاقی وسفارتی حمایت کے اپنے وعدے پر عمل درآمدکریں اور کشمیر میں غیر ریاستی جہادی تنظیموں کی مسلح سرگرمیوں کو فیول کرنے کے تاثر کو زائل کریں۔

اگرریاستی اداروں اور پالیسی سازوں کے نزدیک یہ لڑائی جہاد ہی ہے تو پرائیویٹ جہادی فرنچائزیں کھولنے کی بجائے ریاستی سطح پر اس کا کُھلا فیصلہ کیا جائے اور معاملے کو کسی منطقی نتیجے پر پہنچا دیا جائے۔ سالہا سال کی ان مبہم اور بے سمت پالیسیوں کا خمیازہ دہائیوں سے منقسم ریاست جموں وکشمیر کے باشندے بھگت رہے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے