میں محمد حنیف ہوں نا وسعت اللہ خان

گُزشتہ چند ہفتوں میں کئی اہم واقعات ہوئے ۔ جن میں ٹرمپ کی جیت، بلاگرز کی گمشدگی اور مسیحی بستی جلانے والے لوگوں کی رہائی شامل ہے ۔ بار بار لیپ ٹاپ اٹھایا کہ اِن مُوضوعات پر کچھ لکھوں ۔ لیکن سوچتا رہا ۔کہ کہ مجھے کِس صَف میں کھڑے ہونا ہے ۔ ایک صحافی دوست نے کہا کہ تم محمد حنیف یا وسعت اللہ خان نہیں ہو۔ کوئی غائب کرے گا تو پیچھے پوچھنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ میرے جیسے لکھنے والے رَیٹنگ ، ضمیر،اِنسانیت، خوف اور نظریات کے بیچ پِس کر رِہ جاتے ہیں۔

مجھے بچپن سے بکریاں چَرانے کا شوق تھا ۔ مِڈل کے بورڈ کےِ امتحان کے بعد امی جی نے ایک بکری لے کر دے دی ۔ ہمارے محلے میں سادات کے کافی گھرانے تھے۔ ان میں ہی ایک شاہ جی تھے جو ریٹائرڈ فوجی تھے اور اُس زمانے میں ایک سرکاری سکول میں پی ٹی آئی مقرر تھے۔اُنہوں نے کافی ساری بکریاں پال رکھی تھیں۔ میں روزانہ عمران سیریز پہلو میں دبائے شاہ جی کے ساتھ قریبی ٹِیلوں پر بکری چَرانے جاتا تھا۔ انہوں نے ایک دن مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ یہ تم کیا فضول کہانیاں پڑھتے رہتے ہو (اس زمانے میں محلے کا کوئی بھی بڑا بچوں کو ڈانٹنے کے ساتھ ساتھ چھترول بھی کر سکتا تھا) ۔ میں تمہیں کل اَچھی کتابیں لا کر دوں گا تم وہ پڑھا کرو۔ اور اس طرح میں ’’داستا نِ مجاہد‘‘ کے آغاز کے ساتھ نسیم حجازی کی رُومانوی تاریخ سے آشنا ہوا۔ عمران کا ہِیرو اِزم ، مجاہد کے نعروں اور گھوڑوں کی سُموں کے نیچے دَب کر رہ گیا۔ بس پھر ایک ہی سال میں نسیم حجازی کے تمام ناول پڑھ ڈالے ۔ اس کے ساتھ ساتھ طارق اسماعیل ساگر کے سپر مین کمانڈوز ، اے حمید اور ایم اے راحت کی جادوئی کتابیں اور افسانے دماغی لائبریری کا حصہ بنتے رہے ۔ سارے ناولز میں رُومانوی اور جذباتی مناظر کا اس قدر شدت سے انتظار ہوتا ۔ کہ بعض اوقات صفحے پلٹ کر وہاں تک پہنچنے کی سعی کی جاتی۔

کالج میں وہ اَثرات مدہم ہوئے تو کہانیوں کے ایک اور لکھاری جاوید چودھری سے واسطہ پڑا۔ زیرو پوائنٹ کے عنوان سے چھپنے والے کالم کے سب ہی دلدادہ تھے۔ ان کی ہر کہانی سے کوئی نہ کوئی سبق اخذ ہوتا ۔ مجھے یاد ہے کہ جب ان کے کالموں کا مجموعہ چھپا تو میں نے کس مشکل سے پیسے بچا کر خریدا تھا۔ شاید اُس وقت جاوید چوھدری سمجھدار نہیں تھے لیکن دو چار سال کی محنت کے بعد وہ اچھے خاصے سمجھدار ہو گئے لیکن میرے سمیت کئی دوستوں کے دِل سے اُتر گئے۔ پھر کسی نے مشورہ دیا کہ ارشاد حقانی اور نذیر ناجی اچھا لکھتے ہیں ان کو پڑھا کریں۔ چونکہ دماغی رُجحان شروع سے کہانیوں کی طرف تھاا اسلئے ارشاد احمد حقانی مرحوم کی گہری اور سنجیدہ باتیں پَلے نہیں پڑتی تھیں۔ بہرحال عمومی نوجوانوں کی طرح ہماری زندگی میں بھی اَشفاق احمد ، بانو قُدسیہ ، ممتاز مفتی، قُدرت اللہ شہاب ، سعادت حسن منٹو ، کرشن چندر ، قرات العین حیدر ، فیض، احمد فراز سمیت کئی لوگوں نے ڈیرہ ڈالے رکھا۔مطالعے کی اس تاریخ سے یہ تجزیہ کرنا آسان ہو گیا کہ لفافی اور غیر لفافی تحریر میں کیا فرق ہوتا ہے ۔

2005 کے زلزلے نے وُسعت اللہ خان اور محمد حنیف سے روشناس کرایا۔ اور سوشل میڈیا کی دریافت کے بعد بہت سے اچھا لکھنے والے لوگوں کو پڑھنے کا موقع ملا۔ صحافی اور کالم نگار کے بعد بلاگرز، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور سٹیزن جرنلسٹ کی اصطلاحات وجود میں آئیں ۔ آہستہ آہستہ مزید سمجھ میں آنے لگا کہ کہانی اور حقیقت میں کیا فرق ہوتا ہے۔ گھڑی ہُوئی کہانی کا کیا مقصد ہوتا ہے اور کسی خاص وقت اور حالات میں وہ کس کوکیا فائدہ یا نُقصان دیتی ہے ۔

لیکن پتا نہیں یہ محمد حنیف اور وسعت اللہ ٹائپ کے صحافی نہ جانے سوچے سمجھے بغیر کیوں لکھتے ہیں ۔ ان کو نہ تو سیاسی اغراض ومقاصد سے فرق پڑتا ہے اور نہ ہی یہ لوگ ریٹنگ کی پرواہ کرتے ہیں ۔یہ لکھتے ہوئے ان کو یہ بھی فرق نہیں پڑتا۔کہ جنرل ضیاء ، راحیل شریف ، طالبان اور بلوچستان کے بارے تحریروں سے اسٹیبلشمنٹ ناراض ہو جائے گی۔ مجھے ان لوگوں کے لائف سٹائل کا زیادہ نہیں معلوم لیکن گمان یہی ہے کہ ان جیسے لکھنے والے ایک تو خود اچھا بینک بیلینس نہیں بنا سکے اور پھر جَو اِن کی تحریروں کے مُتاثرین ہیں وہ بھی زندگی میں صرف نظریات ہی چاٹتے رہ جائیں گے۔اب آپ کی مرضی ہے کہ آپ نظریات پر زندہ رہنا چاہتے ہیں یا سمجھداری کا مظاہرہ کرتے پوئے ’’اچھے لکھاری‘‘ بننا چاہتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے