’آپ جوا کھیل رہے ہیں‘ سپریم کورٹ کا وزیراعظم کے بیٹوں کے وکیل کو انتباہ

پاناما لیکس سے متعلق دائر کی گئی آئینی درخواستوں کی منگل کے روز 20 ویں سماعت ہوئی۔ سماعت کے آغاز میں ہی نیب کے پراسیکیوٹر جنرل وقاص ڈار نے عدالتی حکم پر نیب کے اجلاس کی رپورٹ پیش کی۔ روسٹرم پر کچھ دیر گزارنے کے بعد جب وہ واپس آئے تو اُن کے چہرے پر طمانیت نمایاں تھیں کیونکہ عدالت عظمیٰ کے اس بینچ کے سامنے جتنے بھی وکیل پیش ہوئے ہیں اُنھیں حقائق تک پہنچنے کے لیے بہت زیادہ ’گرِل‘ کیا جاتا رہا ہے۔

وزیراعظم کے صاحبزادوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل شروع کیے تو اس دوران اس پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک رکن پارلیمان نے عوامی جلسے میں اُن ریمارکس پر عدالت کو ڈاٹنا جس میں عدالت کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے خود کہا تھا کہ ’اُن کی کتاب ایک کھلی کتاب ہے لیکن اس کتاب کے کچھ صفحے مسنگ ہیں۔‘

جسٹٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ عدالت سے غلطی ہوگئی ہو اور اُنھیں وہ صفحے نظر نہ آئے ہوں۔

واضح رہے کہ وفاقی وزیر ریلوے نے چند روز قبل گوجرانوالہ میں ایک عوامی جلسے کے دوران کہا تھا کہ وزیراعظم ایک کھلی کتاب ہیں اور اُن کی کتاب کے تمام صفحے پورے ہیں اور اگر کسی کو نظر نہیں آتے تو اس میں ہمارا قصور نہیں ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے ایک بیان میں وضاحت بھی کی تھی کہ اُنھوں نے یہ الفاظ پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کے بارے میں نہیں کہے۔

سماعت کے دوران حسن اور حسین نواز کے وکیل کا کہنا تھا کہ اُن کے موکل اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ اُنھوں نے یہ فلیٹس سنہ 2006 میں خریدے تھے، جس پر بینچ میں موجود جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ آپ کو اپنے قدموں پر ہی کھڑا ہونا ہے اپنے گھٹنوں پر نہیں۔ اس پر کمرہ عدالت میں ایک قہقہ بلند ہوا۔

وزیراعظم کے صاحبزادوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کل کی سماعت میں کہا گیا کہ کیا 12 ملین درہم اونٹوں کی پشت پر لاد کر قطر لے کر گئے تھے۔
اُنھوں نے کہا کہ یہ اتنی بڑی رقم نہیں تھی کہ اُونٹوں کی ضرورت پڑتی۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ 1980 کی دہائی میں ایک ہزار درہم کا نوٹ موجود تھا۔
سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی طرف سے پارلیمنٹ ہاؤس میں کی گئی تقریر کے بارے میں اُن کے پہلے وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا تھا کہ یہ اُن کا سیاسی بیان تھا جبکہ وزیراعظم کے دوسرے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اُن کے مؤکل نے اپنی تقریر میں عمومی طور پر اپنے کاروبار کا ذکر کیا تھا جبکہ آپ کوئی اور بات کر رہے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ جب وزیراعظم سے کاروبار کے بارے میں پوچھیں تو کہا جاتا ہے کہ کاروبار اُن کے بچوں کا ہے، اُن سے پوچھیں۔ اُنھوں نے کہا کہ کسی نہ کسی کو تو جواب دینا ہوگا جس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے کاروبار سے متعلق ثبوت رکھ دیے ہیں اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ اُن کی بات کو اہمیت نہ دی جائے جبکہ درخواست گزاروں کی طرف سے کوئی شواہد عدالت میں جمع نہیں کروائے گئے۔

وفاقی وزیر ریلوے نے چند روز قبل گوجرانوالہ میں ایک عوامی جلسے کے دوران کہا تھا کہ وزیراعظم ایک کھلی کتاب ہیں اور اُن کی کتاب کے تمام صفحے پورے ہیں
اُنھوں نے عمران خان کے بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ حزب مخالف کا کام محض الزام لگانا ہے، ثبوت دینا نہیں۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ اگر اُن کے موکل نے حقائق چھپائے ہیں تو اس کی سزا ان کے مؤکل کو ہی دی جاسکتی ہے نا کہ ان کے والد یعنی وزیر اعظم کو، اس پر بینچ کے سربراہ نے وزیراعظم کے صاحبزادوں کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ بات کر کے بہت بڑا جوا کھیل رہے ہیں۔

اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ عدالت گلف سٹیل ملز کے پارٹنر طارق شفیع کو بلا کر کاروبار اور منی ٹریل کے بارے میں سوال پوچھ لے۔ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ قانونِ شہادت کے تحت مردوں کو قبروں سے نکال کر عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا۔

حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نون اور حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ان درخواستوں کے سماعت کی وجہ سے جو کھچاؤ پیدا ہوا ہے وہ سپریم کورٹ میں بھی نظر آتا ہے۔ سپریم کورٹ کی بالکونی میں دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد بھی نظر آیے ہیں جنھیں پہلے ان درخواستوں کی سماعتوں کے دوران کبھی نہیں دیکھا گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے