ضرب ٹرمپ

امریکہ سے آج کل شاذ و نادر ہی اچھی خبر سننے کو ملتی ہے۔ کبھی امریکی خواتین کے ملین مارچ کی خبر آتی ہے۔ کبھی صحافیوں کی دھمکیاں سنائی دیتی ہیں۔ کہیں رنگ و نسل کی تفریق کے نام پر حکومتی ادراوں کی جگ ہنسائی کا تماشا برپا کیا جاتا ہے۔ کہیں ناعاقبت اندیش اسقاط حمل وغیرہ کی حمایت میں مظاہرے کررہے ہیں۔ ان لوگوں کو اندازہ نہیں کہ اس سے جمہوریت کتنی بدنام ہورہی ہے۔ لگتا ہے ان امریکی خواتین اور صحافیوں کو پاکستان کے حالیہ انقلاب سے سبق نہیں ملا۔ تبدیلی احتجاجی جلسوں اور دھرنوں سے نہیں آتی۔ کام کرنے سے آتی ہے۔

تاہم ایک عرصے کے بعد یہ سنا تو بے حد خوشی ہوئی کہ نئے امریکی صدر نے بھی پاکستان کی پیروی میں دہشت گردی کے خاتمے کی مہم کا اعلان کیا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کے تجربے سے بیش قیمت فائدے اٹھائے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو حفظ ما تقدم کی ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس کی مدد سے آئندہ برسوں میں احتجاج اور مارچ جیسے ناعاقبت اندیشانہ جمہوری طور طریقوں کی مکمل حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ پاکستان میں حفظ ما تقدم یا پیش بندی کے دو طریقے مقبول ہیں۔ ایک طریقہ ملا نصر الدین سے منسوب ہے اور غالباً ترکی سے در آمد کیا گیا ہے۔ اس کی تفصیلات یوں ہیں کہ ملا نصر الدین نے اپنے نوکر کو گھڑا دے کر پانی لانے کے لئے کہا۔ ساتھ ہی دو تین تھپڑ جڑ دئے۔ نوکر نے روتے ہوے پوچھا کہ مارا کس حساب میں؟ ملا نے کہا اس تنبیہ کے لئے کہ گھڑا نہ ٹوٹنے پائے۔ نوکر نے کہا لیکن گھڑا تو نہیں ٹوٹا۔ ملا نے کہا گھڑا ٹوٹنے کے بعد مارنے سے کیا فائدہ۔ ترکی میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے ملا نصر الدین کے طریقے پر عمل جاری ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے تمام افراد کی حوصلہ شکنی جاری ہے جو احتجاج وغیرہ کی سیاست سے جمہوریت کو کمزور کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ جمہوریت کو نقصان پہچانے کی جرات کریں ان کی پیش بندی ضروری ہے۔

حفظ ما تقدم کا دوسرا طریقہ "ہور چُوپو” کہلاتا ہے۔ یہ سکھوں سے منسوب ہے لیکن پاکستان کے پنجاب میں اب بھی اس پر عمل مفید پایا گیا ہے۔ "ہور چوپو” کی کہانی یہ ہے کہ ایک مرتبہ کسانوں کی ایک سکھ برادری نے بہت غور و خوض کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ آمدنی میں اضافے کے لئے اس مرتبہ گنا کاشت کیا جائے۔ ساری بات تقریباً طے ہو گئی تو ایک گیانی نے ایک خدشے کی طرف توجہ دلائی۔ اس نے کہا کہ فصل تو ہو جائے گی لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پڑوس سے مسلمان آتے جاتے گنّے توڑ کر چوس جائیں۔ پھر آمدنی میں اضافہ کیسے ہوگا۔ برادری کو سخت غصہ آیا۔ ایک سردار جی نے کہا ان مسلمانوں کی ایسی کی تیسی۔ سب نے ڈنڈے سوٹے پکڑے اور مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ مسلمانوں نے واویلا کیا تو سردار جی نے کہا ہور چُوپو۔ تم گنے چُوپ کر ہمیں کنگال کردو اور ہم چُپ بیٹھے رہیں۔

"ہور چوپو” حکمت عملی کی تفصیلی تحقیق شاہین صہبائی اور رؤف کلاسرا جیسے نامور اورقابل احترام صحافیوں کی تحریروں میں ملتی ہے۔ صہبائی صاحب نے ۲۰۱۲میں این آر او مفاہمت کے تحت جمہوریت کی بحالی کے سیاق میں "ہور چوپو” کہ کرغالباً پاکستانی عوام کو متنبہ کیا کہ جمہوریت کے انتقام سے ڈرتے رہو۔ کلاسرا صاحب کا حوالہ ۲۰۱۴ میں ماڈل ٹاؤن میں جمہوریت کے نفاذ کے واقعات کے حوالے سے تھا۔ شاید ان کے خیال میں "ہور چوپو” کے مخاطب علامہ طاہر القادری اور ان کے پیروکار تھے جن کو ہور چوپو کی دفعہ کے تحت جرم سرزد ہونے سے پہلے پیش بندی کے طورپر سزا دے دی گئی ۔

ہور چوپو کی حکمت عملی کو "جمہوریت بہترین انتقام” کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اس سے دشمن کا قلع قمع بھی ہو جاتا ہے اور جمہوریت بھی بدنام نہیں ہوتی۔ ہمارے خیال میں امریکی صدر کو بھی اس حکمت عملی کو اپنانا چاہئے تا کہ امریکہ میں صحیح جمہوریت کو استحکام ملے۔ اگر خواتین، صحافیوں اور لبرل کی بیخ کنی نہ کی گئی تو وہ امریکہ کبھی عظمت رفتہ بحال نہیں کر پائے گا۔ امریکی دانشوروں نے بھی تائید کی ہے کہ ریاست کو مکمل اور مطلق العنان اختیارات ملنے چاہییں۔ قانون کی حکمرانی جیسے اخلاقیات کے اصول تصور ریاست کو کمزور کرتے ہیں۔ اب موقع ہے کہ جمہوریت ابھی سے ایسے لوگوں کو قرار واقعی سزا دے جن سے خطرہ ہے کہ وہ امریکہ کو غلط راہ پر لے جا سکتے ہیں۔

امریکی صدر کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے کے اعلان سے پاکستان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بہت عرصے سے پاکستان میں یہ شکایت سننے میں آرہی تھی کہ امریکہ روس، کشمیر، برما، مشرق وسطی، خصوصا عراق اور شام میں اصل دہشت گردوں کے بارے میں بہت نرم رویہ اپنائے ہوے ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ اس سے پہلے کہ امریکی میڈیا دہشت گردی کے خلاف اقدامات کو متنازعہ قرار دے اسے "ضرب ٹرمپ” کا نام دے دیں۔ اس تجویز کا مقصد خدا نخواستہ امریکی صدر کی انا کو ٹھیس پہنچانا نہیں ہے۔ ہم صرف اس خرابی بسیار کے پیش نظر کہ رہے ہیں جو اکثر بعد میں نظر آیا کرتی ہے۔ اس خرابی بسیار میں یہ پہلو بھی شامل ہے کہ جب کچھ اور نہ بن پڑے تو صحافی سول ملٹری خلیج کی بات کرنے لگتے ہیں۔ پاکستان میں تو اسے خرابی بسیار نہیں سمجھا جاتا کیونکہ صحافیوں کو سول اینڈ ملٹری گزیٹ کی یاد تازہ کرا دینے سے وہ سب کسی نہ کسی طرح ایک پیج پر آجاتے ہیں۔ خلیج کو بھی پاکستان میں برا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ خلیج کی برکت سے ہی پاکستانیوں کو چھوٹے بڑے ہر طرح کے کاروبار کے مواقع ملتے ہیں۔ امریکہ میں خرابی بسیار کو ڈیمیج کنٹرول کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے اس لئے نقصان کے بعد ہی اس کی طرف توجہ دی جاتی ہے ۔ پاکستان میں ہور چوپو کے تحت نقصان سے پہلے ہی ڈیمیج کنٹرول شروع کردیا جاتا ہے۔

پاکستان کے تجربے کی روشنی میں ہم کہ سکتے ہیں کہ ضرب ٹرمپ کا نام اس لئے بھی مناسب ہے کہ اس سے پہلے امریکی صدور نے اس کام کے لئے وار آن ٹیرراور کروسیڈ وغیرہ کی اصطلاحیں استعمال کیں۔ ان سے جو غلط فہمیاں پیدا ہوئیں ان سے امریکہ کو ہی نقصان پہنچا۔ پاکستان میں ضرب سے عام طورپر ضرب خفیف مراد لیا جاتا ہے۔ ضرب خفیف کے نام سے کیا جائے تو گھریلو تشدد کو بھی برا نہیں کہا جاتا۔ دہشت گرد بھی اسے ضرب خفیف سمجھ کر خطرناک نہیں سمجھتے۔ اس طرح ان کے ٹھکانے بھی ختم ہو جاتے ہیں اور کوئی غلط فہمی بھی پیدا نہیں ہوتی۔ ویسے ضرب عربی لفظ ہے جو تجارت اور موسیقی دونوں کے حوالے سے استعمال ہوتا ہے۔ انگریزی کےلفظ ٹرمپ کا ترجمہ اردو میں ترم کیا جاتا ہے اور ترم باجے کا نام ہے۔ اس کے ساتھ ضرب کا لفظ لگانے سے موسیقی کا گمان ہوتا ہے۔ باجا بجتا ہے تو لوگ بے خود ہو جاتے ہیں۔ طاؤس اور رباب کا ماحول پیدا ہوتا ہے تو شمشیر و سنان کی یاد نہیں آتی۔ پاکستان میں بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے صوفی میوزک کو کامیابی سے رواج دیا گیا۔

ایک حالیہ تقریب میں ہم نے نو منتخب صدر کو بہت بے نیازی کے ساتھ جھومتے جھومتے دیکھا تو بے حد خوشی ہوئی۔ حا لانکہ اس تقریب میں صوفی میوزک تو در کنار کسی گیتار کی آوازبھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ بے خودی بے سبب نہیں تھی۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ تشویش اس لئے ہے کہ امریکہ میں پردے کی مخالفت اور اس کے بارے میں منافرت تو ہے لیکن ممانعت نہیں۔

بشکریہ تجزیات آن لائن

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے