ٹرمپ کا بیان اور”صحافیوں” کے کارنامے

جمعہ کی رات 10 بجے کا وقت تھا۔ دفتر سے گھر کے لیے نکلا۔ اچانک رستہ بدلا اور پریس کلب پہنچ گیا۔

ایگزیکٹو ہال میں دیکھا تو عجیب منظر تھا۔ دو دو لوگوں کا ٹولہ سر جوڑے ایسے بیٹھا تھا جیسے کسی امتحانی ہال میں بوٹی لگا رہا ہو۔۔ نام نہاد الیکشن کمیٹی پاوں پر پاوں رکھے گرما گرم چائے کے مزے اڑا رہی تھی۔۔۔

عجب نفسا نفسی جاری تھی۔ ہر کوئی ریس میں بہت آگے نکلنا چاہتا تھا۔۔۔ ہر کسی کے ہاتھ میں اپنے ہی بیلٹ پیپر تھے اور وہ اپنی کوئٹہ کی ٹکٹیں بک کرائے جا رہا تھا۔

میرے ووٹ۔ تیرا قلم، تیرا ضمیر، تیرا اندراج۔
ایک ووٹ بولتا، دوسرا ٹک مارتا
آواز آتی وقار ستی۔ ٹک ہوتی بیٹری والا
پھر آواز آئی فرقان راو۔ ٹک ہوئی کافی والا
کسی کو ہوش نہیں تھی کہ یہاں کوئی خبر والا بھی گھوم رہا ہے۔

میلہ سجا تھا۔ میں بھی باری باری ہر سٹال پر گیا۔۔ بہانے بہانے سے پرت لیتا۔ اپنے ۔ وقار ستی اور فرقان راو کے ووٹوں پر نظر دوڑاتا گیا۔۔
سب کے ترازو ایک جیسا تول رہے تھے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ مجھ سمیت وقار ستی، فرقان راو، سبوخ سید۔ ارشد وحید چودھری، عیسیٰ نقوی، نوشین یوسف، عائشہ خان ،فیض پراچہ، عابد فاروقی اور چند دیگر دوستوں کی بہت بہتر پوزیشن ہے مگر ہمارے ووٹوں کا اندراج درست نہیں کیا جا رہا تھا۔۔۔

اسی اثنا میں وقار ستی اور فرقان راو بھی ایگزیکٹو ہال میں پہنچ گئے، میں نے انہیں ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔۔۔وقار ستی نےکچھ بیلٹ پیپرز پر مشتمل ایک پرت اٹھایا اور افضل بٹ کے ساتھ بیٹھ کر دوبارہ گنتی شروع کر دی۔۔

خود ساختہ گنتی کرنے والوں نے میرے پانچ ووٹوں کا اندراج کیا تھا، دوبارہ گنتی پر وہ 10 ووٹ نکلے۔۔ بگڑی صورت حال دیکھ کر 65 بیلٹ پیپرز پر مشتمل نیا پرت اٹھایا گیا۔۔۔اس میں میرے ووٹوں کا اندراج 7 تھا، دوبارہ گنتی پر 33 ووٹ نکلے۔۔

جوں جوں ہمارے ووٹ نکلتے ، افضل بٹ کا رنگ اڑتا گیا،،، پھر تیسرا اور چوتھا پرت اٹھایا گیا۔ افضل بٹ اور وقار ستی نے مل کر دوبارہ گنتی کی۔ صورت حال یہاں بھی ویسی ہی نکلی۔۔۔ چار گنا کم ووٹ درج کیے گئے تھے۔۔۔
رنگے ہاتھوں دھاندلی پکڑی گئی تو افضل بٹ نے مانا کہ یہ زیادتی ہے ۔۔

جیتے لوگوں کو ہرائے جانے بارے اقبال جعفری سے پوچھنے کی زحمت کی تو وہ آگ بگولا ہو گئے اور بولے کہ "اس سے زیادہ شفافیت کیا ہو سکتی ہے کہ جس کے ووٹ تھے اسے ہی گننے کو دے دیئے۔ آپ تو کبھی خوش ہو ہی نہیں سکتے،،،میں کوئی بچہ تھوڑا ہی ہوں۔ آخر 12 سال سے یہی کام کر رہا ہوں۔ سب سے قسم لی اور اس کے اپنے بیلٹ پیپر حوالے کر دیئے۔۔۔
بس قسم بسم اللہ پڑھنے تک تھی اور انہیں خاص ہدایت تھی کہ کوئی مخالف جیتنے نہ پائے۔۔۔ اب بھلا کوئی قسم کیسے توڑتا۔۔”

ہم نے شور مچایا، یونین کے نومنتخب صدر افضل بٹ اور پریس کلب کے صدر شکیل انجم کو دھاندلی کے ثبوت دکھائے اور کمیٹی کو تحریری درخواست دی کہ ہم ان نتائج کو نہیں مانتے۔۔۔
یونین کے ٹکڑے کرنے والو۔۔۔
بس کر دو بس۔۔ مزید کتنے ٹکڑے کرو گے؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے