کیامشعال ملک حافظ سعید کی جانشین ہیں؟

افغان جنگ کی پیداوار حافظ محمد سعید آج کل حکومت پاکستان کی جانب سے جھوٹی سچی پابندیوں کا شکار ہیں ۔امریکی مفادات کیلئے کالے جھنڈے لیکر نکلنے والے اب کالی زلفوں والے بنائے جا رہے ہیں ۔

لشکر طیبہ یا جماعة الدعوة ہے کیا چیز؟ ۔ لشکر طیبہ یا جماعة الدعوة کا قیام 80کی دھائی میں عمل میں لایا گیا ۔یہ وہی وقت تھا جس میں پاکستان نے امریکی جنگ کو جہاد کا نام دے کر افغانستان میں اس کا ساتھ دیا۔ اس عرصہ میں طالبان کی پیدائش سمیت درجنوں چھوٹی بڑی تنظیمیں بنیں اور ان میں سے ہی ایک لشکر طیبہ ہے ۔

جہادی تنظیموں کی اپنی ایک تھیوری ہے۔ جب تک جہادی عناصر تنظیم بنانے والے ( اپنے خالق)کی ہر بات پر لبیک کریں اس وقت تک وہ گڈ طالبان یا اچھے جہادی کہلاتے ہیں ۔جب وہ اپنے ”خالق” کی پالیسی سے اختلاف کریں تووہ ”بیڈ طالبان “یابرے جہادی اور دہشت گردقرار دے دیے جاتے ہیں اور ان کے مقابلے کیلئے اسی تنظیم سے ا چھے طالبان نکال کر متوازی تنظیم قائم کر دی جاتی ہے اور ان بر ے لوگوں کا دانہ پانی بند کردیا جاتا ہے ۔

جماعة الدعوة کا قیام 1987میں عمل میں لایا گیا ، حافظ سعید ، عبداللہ اعظم اور ظفر ا قبال 1985سے جمعیت اہلحدیث کے پلیٹ فار م سے متحرک ہوئے اور دو سال کے قلیل عرصہ میں ایک جماعت کی بنیاد رکھ دی ۔ابتداءمیں دیگر جہادیوں کی طرح ان کی منزل بھی افغانستان ٹھہری ۔وہا ں پر ہی ٹریننگ کیمپ بنائے اور بر سر پیکار ہوگئے۔

افغان جہاد جب اپنے انجام کو پہنچا تو لشکر طیبہ نے اپنے ٹریننگ سینٹر صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ)منتقل کردیے ۔1989میں جب کشمیر میں ایک لبرل جماعت لبریشن فرنٹ نے پاکستان کی مدد سے آزادی کی مسلح جدوجہد شرو ع کی تو پوری دنیا تنازعہ کشمیر سے آگاہ ہوئی اور عین ممکن تھا کہ کشمیرایک آزاد خود مختار ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھر جائے گا مگر اسی دوران لشکر طیبہ کو جہاد کشمیرکا ٹھیکہ جاری کردیا جس نے کشمیریو ں پر غلامی کی تاریک راتیں مزید لمبی کردیں۔

2008کے ممبئی دھماکوں کے بعدلشکر طیبہ کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے عالمی دہشت گرد گروپ قراردے کر پابندی عائد کر دی توتنظیم کا نام بدل کر جماعة الدعوة رکھ دیا گیا۔ 2014میں اقوام متحدہ نے بھی اس پر پابندی عائد کر دی ۔امریکہ ، برطانیہ ، بھارت ، روس اور آسٹریلیا سے پہلے دہشت گرد گروپ قرار دے چکے ہیں۔

کشمیر میں 1989میں شروع ہونے والی آزادی کی مسلح جدوجہد اپنے ابتدائی دو برسوں میں ہی عروج پر پہنچ چکی تھی ۔ ایک سابق جہادی کے بقول آدھا سری نگر مجاہدین کے کنٹرول میں تھا ۔یہ ایسی ہی صورتحال تھی جیسی 2009میں سوات میں دیکھنے کو ملی ۔ بھارتی فوجی آزادی کے متوالوں پر فائرنگ کرنے کی بجائے ان کا استقبال کرتے اور اپنی جان کی امان طلب کرکے محفوظ راستہ فراہم کرتے تھے ۔ بھارتی فوج عملاً کیمپوں تک محدود ہو گئی تھی۔عوام بھی حریت پسندوں کو تحفظ فراہم کرتے تھے (کشمیر میں آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کو آج بھی حریت پسند ہی کہا جاتا ہے )کچھ عرصہ بعد جب لبریشن فرنٹ اور پاکستانی پالیسی ساز اداروں کے مابین اختلافات پیداہوئے اور کشمیر کو ہاتھ سے نکلتا ہوا دیکھ کر کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں مذہبی عناصر کو داخل کیا ۔حافظ سعید امیر المومنین ننے کے چکر میں ان عناصر کے سرخیل مقرر ہوئے اور جی جان ایک کر کے پاکستان کے مقتدر حلقوں کیلئے کام کیا ۔

حافظ سعید کی اننگ پوری ہونے کی گو نج 3اکتو بر2016 کو قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس میں سنی گئی ۔بڑھتے عالمی دباو، بھارتی وزیر اعظم کی پاکستان کو سفارتی سطح پرتنہا کرنے کی دھمکی ،آزاد کشمیر،گلگت بلتستان اور بلو چستان کے حوالے سے نر نیدر مو ری کی گفتگو پر حکومت پاکستان کافی عرصے سے سوچ بچار میں مبتلا تھی ۔ 3اکتوبر کو اعلیٰ سطحی اجلاس میں ایک ممبر یا پارلیمنٹ کے ذریعے مقتدر حلقو ں کو جماعة الدعوة کابو ریا بستر گو ل کرنے کا عندیہ دیا۔بالآخر دنیا کے نمبر دار کی جا نب سے پیغام کو جواز بنا کر کا لے جھنڈے والوں کی مزید خدمات سے معذرت کرلی گئی ہے ۔

جماعة الدعوة پر حالیہ پابندی کے بعد پاکستان سمیت اڑوس پڑوس میں مختلف چہ مگوئیاں جاری ہیں ، پاکستانیوں اور کشمیریوں کی اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ حافظ سعید پر پابندی صرف دکھاوے کیلئے ہے ۔ جماعة الدعوة پرپابندیوں کا کچھ اثر نہیں پڑے گابلکہ حسب سابق تنظیم کا نام بدل کر اپنا کام جاری رکھیں گے ۔

میری ذاتی رائے کے مطابق حافظ جی کی اننگ ختم ہو چکی ہے ، انہوں نے اپنے دور میں ہمیشہ فرنٹ فٹ پر کھیل پیش کیا ۔ اب دنیا بدل چکی ہے ، نئے رجحانات ، نئی سوچوں اور امنگوں کے مطابق حافظ جی کی جانشین تیار کر لی گئی ہے جس کی کئی ماہ سے بھر پور طریقے سے رونمائی بھی کی جا رہی ہے ۔حافظ سعید کی جانشین جماعة الدعوة سے زیادہ موثر اور فعال کردار ادا کر سکتی ہے۔ کشمیریوں کی بھر پور حمایت بھی حاصل ہو گی ۔ حافظ سعید کی جانشین معروف حریت رہنما اور لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک کی اہلیہ ہیں ۔ اگرچہ یاسین ملک اور مشعال ملک 2009میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے مگر مشعال ملک اس سے قبل سیاسی سرگرمیوں سے بہت دور رہیں ، گزشتہ برس انہیں پاکستانی دارلحکومت اسلام آباد سے کشمیر کی سیاست میں داخل کیا گیا اور پھر آئے روز ان کی سربراہی میں احتجاجی مظاہرے اور سیمینارز منعقد کرائے جا رہے ہیں ۔

یاسین ملک کشمیر کی آزادی کی واحد توانا آواز ہیں ۔یہاں کے مقتدر حلقوں کو الحاق ہندوستان چاہنے والے لیڈروں سے کوئی خاص خارنہیں بلکہ انہوں نے خود مختار کشمیر کیلئے کی جانے والی مسلح جدوجہد کواپنی مرضی کا رخ دینے کے کیلئے جماعة الدعوة کو میدان میں اتارا اور اب خود مختار کشمیر کی پرامن جدوجہد کی آواز کو ہائی جیک کرنے کیلئے مشعال ملک کو میک اپ کے ساتھ میدان میں اتار دیا گیا ہے ۔

حکومت پاکستان پالیسی بیانات کی حد تک تو کشمیریوں کی سیاسی ، اخلاقی اور سفارتی حمایت کا رونا روتی ہے مگر عملی طور پر آج تک سیاسی ، اخلاقی اور سفارتی حمایت کے بجائے ”لشکری حمایت” کی گئی جس کا خمیازہ کشمیری عوام آج بھی بھگت رہے ہیں ۔ مشعال سے شادی کے بعد سے ہی یارلوگ کہتے آ رہے ہیں کہ یاسین ملک نے اب پاکستان مقتدر حلقوں سے نکاح کر لیا ہے ۔پاکستان کے مقتدر حلقے اس سے قبل کشمیریوں کے لیے جو کام حافظ سعید سے بندوق اور ہینڈ گرینڈوں کے ذریعے کراتے تھے ، اب وہی کام مشعال ملک سے سپاسی میدان میں لیا جائے گا۔یوتھ فار کشمیر سمیت درجن بھرفرضی تنظیمیں اور اتنے ہی بظاہر پرائیویٹ نظر آنے والے ادارے پہلے ہی آزاد کشمیر میں آزادی سے سر گرم ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے