پینے کا پانی کتنا صاف ؟

پانی زندگی ہے اور کرہ ارض پر زندہ رہنے کا اہم جزوبھی ۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ جو پانی آپ اور ہم پی رہے ہیں وہ کتنا صاف ہے ؟ہم میں سے بہت کم ایسے ہونگے جو لیبارٹری سے پانی ٹیسٹ کرانے کے بعد استعمال کرتے ہوں ۔تو پھر یہ کیسے پتہ چلے کہ گھروں کے نل میں آنے والا پانی ، ٹیوب ویلز ، فلڑیشن پلانٹس یا پھر بوتلوں کا پانی ، یعنی منرل واٹر کہلانے والا پانی پینے کے قابل ہے ؟

پانی میں قدرت نے کیلشیم ، منرلز سمیت 100 سے زاہد عناصر رکھے ہیں۔تاہم جراثیم ، زہریلی دھاتیں ، گدالاپن ،نائٹریٹ ،فلورائیڈ ، سنکھیا،اوران گنت مضر عناصرکے شامل ہونے سے پانی زندگی نہیں موت بانٹ رہا ہے ۔

پاکستان کونسل برائے تحقیقات آبی وسائل کے سروے کے مطابق پاکستان میں پینے کا پانی صرف 22 فی صد ہی صاف ہے ۔وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں بھی صور ت حال تسلی بخش نہیں ۔اور پینے کا پانی 75 فی صد آلود ہ ہے ۔

اس سروے کےمطابق راول پنڈی ،اسلام آباد ،،پشاور ،لاہور ، کراچی ، ملتان ، کوئٹہ ، حیدر آباد ،سکھراور گوجرانوالہ سمیت 24 شہروں کا پانی 80 فی صد پانی آلودہ ہے ۔جس میں جراثیم کا تناسب 69 % فی صد رہا ۔جنوبی پنجاب اور سندھ کے پانی میں سنکھیا کی مقدار 15 فی صد ،زیر زمین حاصل پانی میں نائٹریٹ کی مقدار 93 فی صد ،ا ور بلوچستان کے پانی میں فلورائیڈ کی مقدار 8 فی صد ہے ۔ چیرمین پی سی آر ڈبیلو آر ، ڈاکٹر محمد ا شرف کا کہنا ہے کہ پاکستان کونسل برائے تحقیقات آبی وسائل، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ماتحت پانی کی مانیٹرنگ کا مجاز ادارہ ہے ۔

جو ملک بھر سے واٹر سمپل اکھٹے کر کے پانی کے ٹیسٹ کرتا ہے ۔اور ماہانہ اپنی رپورٹس حکومت کو پیش کرتا ہے ۔ ڈاکٹر محمد اشرف کہتے ہیں کہ واٹر فلٹریشن پلانٹس کا پانی بھی آلودگی سے پاک نہیں ۔وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے کو اسلام آباد کے فلٹریشن پلانٹس کے پانی کی ٹیسٹ کے بعد رپورٹس بھیجی جاتی ہیں ، جب کہ پارلیمنٹ لاجز کے پانی کی رپورٹ بھی باقاعدگی سے جمع کرائی جاتی ہے ۔

آلودہ پانی کی ایک بڑی وجہ زیر زمین پانی کی پائپ لائنز اور سیوریج لائنزکا ایک ساتھ سفر بھی ہے جو پانی میں زہر گھولتا رہتا ہے ۔پتہ اس وقت چلتا ہے جب شہری آلودہ پانی کی وجہ سے استپالوں تک پہنچنے لگتے ہیں ۔

اسلام آبا دمیں ایک طرف تو پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے لیکن دوسری جانب متعلقہ اداروں کی عدم توجہی سے پانی کے مسائل بڑھنے لگے ہیں ۔اسلام آباد کے گنجان آباد سیکٹر جی ٹین فور جائیں تو ٹیوب ویل نمبر 161 کی حالت زار اپنی تباہی کی داستان سناتی دیکھائی دے گی ۔پانی کا پائپ پھٹے نہ جانے کتنا عرصہ بیت گیا ، اس کے ساتھ کوڑا کرکٹ ،اسی لائن سے جراثیم سمیت زہریلے مواد کے داخلے کے لیے رستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔۔اسی سیکٹر میں تھوڑا آگے بڑھیں تو ایک ایسا فلرٹشن پلانٹ موجود ہے جسکے نل سرے سے ہی غائب ہیں ۔ یہ نل کس نے کب اتارے ، جواب دینے والا اہل کار نیا ہے اس لیے اس کے علم میں یہ سب نہیں ۔

شہری شکایت کرتے ہیں کہ یہاں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ۔اور نہ ہی پانی کی ٹیسٹنگ کا کوئی نظام ہے ۔شہری کہتے ہیں کہ بعض فلڑیشن پلانٹس میں پانی اتنا گدلا ہوتا ہے کہ وہ نل میں آنے والے پانی پر اکتفا کرتے ہیں ۔

پاکستان کونسل برائے تحقیقات آبی وسائل منرل واٹر کے نام پر بوتلوں میں پیک پانی کو بھی محفوظ قرار نہیں دتیا کیونکہ یہ پانی گراونڈ واٹر سے بھرا جاتاہے ۔منرل واٹر میں مصنوعی عناصر شامل کِیے جاتے ہیں ۔یہ عناصر مقررہ معیار سے کم یا زیادہ ہوجانے سے پانی مضر صحت بن جاتاہے ۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق آلودہ پانی 80 فی صد بیماریوں کا باعث بنتا ہے ۔جس میں ، ہپاٹائٹس ، آنتوں،معدہ و جگر ، گردے کی بیماریوں سمیت کینسر جیسی جان لیوا بیماریاں بھی شامل ہیں ۔یہ تشویش ناک صورت حال ہنگامی اور بھرپور اقدامات کا تقاضا کرتی ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے