عشق قاتل سے بھی،مقتول سے ہمدردی بھی

گزشتہ دنوں برہان وانی کی شہادت کے دو سو دن کی تکمیل پر ایک سیمینارمنعقد ہوا،سیمینار متحدہ طلبہ محاذ برائے تحریک آزادی کشمیر نے منعقد کروایا تھا ،سمینار میں پاکستان و آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت سمیت اعلیٰ شخصیات نے شرکت کی،سیمینار کا بنیادی مقصد برہان وانی کی قربانی کو خراج عقیدت پیش اور کشمیر کی آزادی کے لیئے نوجوان نسل میں بیداری پیدا کرنا تھا ۔

افسوس کہ سیاسی قائدین نے فن خطابت کے جوہر یوں دکھائے کہ دو بول برہان وانی کے نام کیے اور پھر ہر ایک نے اپنی سیاسی جماعت کے کارنامے سینہ تان کر بیان کیئے محسوس یوں ہو رہا تھا کہ خراج عقیدت پیش کرنے کے لیئے سٹیج پر آنے والاہر سیاسی لیڈر ہاتھ سے نکلتے وقت کی دم پکڑ کر اپنی سیاست کے گن گا رہا ہے ،منافقت کی آخری حدیں اس وقت پار ہو چکی تھیں جب کشمیری شہداء کا ذکر بہت جوش و جذبے سے کیاگیامگر شائد ایک نام ایسا تھا جس کو زبان پر لانا گناہ عظیم سمجھا گیا،شاید کشمیر سے والہانہ محبت رکھنے والے یہ بھول گئے تھے کہ نظریاتی اختلاف اپنی جگہ مقبول بٹ کشمیر ہی کا ایک سپوت تھا اور کشمیر کے لیئے ہی اپنی جان کا نذرانہ دیا تھا ۔

کشمیر کو دل و جان سے چاہنے والے اور ‘‘کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگانے والے جوش خطابت میں شائد یہ بھی بھول گئے کہ جس سر زمین پر کھڑے ہو کر آزادی سے یہ نعرہ لگایا جاتاہے اور جس پاکستان کا کشمیر کو حصہ کہا جاتا ہے اس پاکستان اور اس آزاد کشمیر میں ان کی یہ آزادی بھی بے شمار قربانیوں کی مرہون منت ہے ،گزشتہ سات دہائیوں سے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہماری جانوں کی حفاظت کرنے والی پاک آرمی کی قربانیوں کے ذکر کے لیئے زبان کو جنبش دینا سیاسی لیڈران کو گوارہ نہیں ہوا ،غرضیکہ سیاسی قائدین نے اپنی سیاست کو پروان چڑھانے کی تگ و دو کی اور جہاد کشمیر کے حامیوں نے سیاسی ڈرامہ رچایا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے نام پر سیمینار کر کے ،بڑے بڑے جلسے جلوس نکال کراور آزادی کے نام پر نوجوانوں کا خون بہا کرکیا بھارت سے آزادی حاصل کی جاسکتی ہے ؟میری ذاتی رائے کے مطابق جب تک حکومتی منافقانہ روش قائم ہے اور جب تک نام نہاد جہادی طبقہ موجود ہے تب تک تو یہ ممکن نہیں ،نام نہاد جہادیوں کے بارے میں تو سیمنار ہی میں موجود دفاعی تجزیہ نگار جنرل(ر) امجد شعیب نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ نا م نہاد جہادی طبقہ مسئلہ کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہا ہے ۔

جہاد کا اعلان ریاست کرتی ہے اور جہاد کے لیئے بھی ایک مناسب حکمت عملی درکار ہوتی ہے ،مسئلہ کشمیر کے لیئے بھی ایک مناسب حکومتی حکمت عملی درکار ہے مگر جہاں حکومتیں اپنے دل میں مقتولوں سے زیادہ قاتلوں کے لیئے نرم گوشہ رکھتی ہوں وہاں کیا حکمت عملی بنے گی آزادی کشمیر کے لیئے ۔۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ یہاں تحریک آزادی کشمیر کے نام پر صرف پیسے بٹورنے کا دھندہ کیا جاتا ہے اور کشمیریوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے ،حکومتیں آتی ہیں کشمیریوں سے ہمدردی کا دعویٰ کرتی ہیں اور بھارت سے کشمیر کی آزادی کے بیانات سینہ تان کر دیئے جاتے ہیں مگر جب بھارت مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کر رہا ہوتا ہے تو ہمارے لیڈران کشمیریوں کے حق میں اور بھارت کے خلاف بیان دینے کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں کہ بیان دیا تو کیا ردعمل ہو گا ،بیان دیا جائے یا نہ دیا جائے ۔۔تُف ہے ایسی ہمدردی پر۔

موجودہ حکومت کی ہی اگر مثال لی جائے تو وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب جو خود بھی کشمیری ہیں اس لیئے کشمیریوں کے لیئے بہت درد بھی رکھتے ہیں مگر کشمیر سے زیادہ ان کی ہمدردیاں نریندر مودی کے ساتھ نظر آتی ہیں ،کبھی تو روس کے شہر اوفا میں نریندر مودی اور میاں صاحب کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ سے کشمیر کا نام ہی حذف کر دیا جاتا ہے تو کبھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں میاں صاحب کلبھوشن یادو کا نام لینے سے گریز کرتے ہیں۔

یہ کیسی ہمدردی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوتے ہیں اور ہماری حکومت ہندوستان سے تجارت کی خواہاں ہوتی ہیں،بھارت صریحاََ کئیں بار یہ کہہ چکا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان صرف دہشت گردی کا مسئلہ ہے ،کشمیر پر بھارت بات کرنے کے لیئے تیار ہی نہیں پھر بھی حکومت بھارت کے خلاف بات کرنے سے گریز کرتی ہے،وہاں بیلٹ گن اور چھرے مقدر بنتے ہیں اور یہاں انسانی ہمدزدی کے جذبوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے ہندوستانی قیدیوں کو رہا کیا جاتاہے۔

آخر یہ کونسی حکومتی حکمت عملی ہے،یہ کیسی ہمدردی ہے کشمیریوں کے ساتھ کہ وہاں پاکستان کانام لے کر جوان شہید ہوتے ہیں اور یہاں بھارتی فلموں کی نمائش پر لگی پابندی بھی قائم نہیں رہنے دی جاتی،ان حالات و واقعات کو دیکھ کر تو ہر ذی شعورانسان اسی نتیجے پر پہنچتاہے کہ حکومت کو ہندوستان سے عشق زیادہ اور کشمیریوں سے ہمدردی کم ہے۔

ٓٓٓآج کشمیری نوجوان نسل کے ذہن میں حکومت کی کشمیر پالیسی کو لے کر خدشات پیدا ہو رہے ہیں،نوجوان نسل تحریک آزادی کشمیر کو ایک ڈھونگ سمجھنے پر مجبور ہے ،کشمیری نوجوان نسل پر یہ حقیقت بھی عیاں ہو چکی ہے کہ یوم یکجہتی کشمیر کے نام پر بھی کشمیریوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے ،یوم یکجہتی کشمیر کے اشتہارات تک ریاست کے اخباروں کو نہیں دیے جاتے ،بھارتی ظلم وستم کے ستائے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین کو یکجہتی کے نام ایک کو چینی اور ایک کلو چاول دیکر یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے اور سب سے بڑی یکجہتی انسانوں ہاتھوں کی زنجیر بنا کر اور اسکی تصویریں بنا کر کی جاتی ہے۔
کوئی بھی تحریک اس وقت تک منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکتی جب تک اس کے ساتھ مخلص ہو کر نہ چلا جائے ،دنیا میں جتنی بھی تحریکیں چلی اور کامیابی سے ہمکنار ہوئی انکی قیادت مخلص لوگوں کے ہاتھ میں تھی۔بدقسمتی یہ ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کبھی جہادی تنظیموں کے ہتھے چڑھ جاتی ہے اور کبھی . . .

ہماری سیاسی قیادت بھی ایک حد سے آگے نہیں جاسکتی،ہم جنگ نہیں چاہتے مگر یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ہم پر کوئی جنگ مسلط کرے اور ہم خاموشی سے بیٹھے رہیں،مسئلہ کشمیر سے پورے جنوبی ایشاء کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے ،ضرورت اس ام کی ہے کہ عا لمی قوانین کے پاکستانی ماہرین،جو ہماری وزارت خارجہ کے غلامانہ ماحول کے اسیر نہ ہوں کروڑوں انسانوں کی سلامتی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس مسئلہ کو فوری طور پر ایجنڈے پر لانے کی سفارشات کریں اور حکومت پاکستان کو منافقانہ روش حتم کرکے خالصتاََ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیئے زور دیں ،اورَ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر اپنی مجرمانہ خاموشی کو توڑے اور اپنا کردار ادا کرے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے لوگوں کی بے یقینی کی زندگی میں کو بدلا جاسکے اور اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق مسئلے کا حل نکالا جا سکے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے