یوم یکجہتی یا لامتناہی سراب؟

ویسے تو غلامی میں ہر دن بدترین ہی ہوتا ہے مگر فروری کچھ زیادہ ہی بدترین ہو گیا ، جس ماہ میں اہل کشمیر کو وہ زخم ملا جسے صدیاں نہیں بھر سکتیں۔فرزند کشمیر محمد مقبول بٹ شہید کو اس ماہ میں بھارت نے تہاڑ جیل میں تختہ دار پر چڑھا دیا ،جرم آزادی سے ازلی محبت تھا ، جس جرم میں انبیاءو مصلحین اکثر پابند سلاسل رہ چکے اور دار پہ جھول چکے ہیں۔

11فروری1984ءکا وہ سورج اہل کشمیر کے لیے کسی سیاہ شب کی مانند تھا جسے گرہن لگ چکا تھا۔ مگر اس کے بعد اجالا کروٹ لینے لگا اور شہید کشمیر کے افکار اہل کشمیر کی رگ رگ میں بسنے لگے۔ 1989ءمیں تحریک آزادی کشمیر کی آڑ میں جب کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع ہوئی تو اہل کشمیر کو جیسے کسی نے سوتے میں جگا دیا اور جوق در جوق اس مسلح تحریک کا حصہ بننے لگے۔

ہزاروں ماﺅں نے اپنے لخت جگر مادر وطن کی آزادی کے لئے آگ و خون کی اس ہولی میں دھکیل دیے جس کی باگ ڈور کسی تیسرے اور ادھ چھپے دشمن کے ہاتھ میں تھی۔ اور یوں دھرتی کشمیر آہستہ آہستہ خون ناحق سے رنگین ہوتی گئی ، جہلم لاشوں سے بھر گیا اور خون سے لال ہو گیا۔ نوے میں جب تحریک اہم دور سے دور سے گزر رہی تھی تو جماعت اسلامی پاکستان نے5 فروری 1990کو یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا ، اس وقت پنجاب میں نواز شریف وزیر اعلیٰ تھے انہوں نے بھی اس کی حمایت کر دی اور مرکزی حکومت پاکستان نے پانچ فروری کو کشمیر ڈے قرار دے کر چھٹی کا اعلان کر دیا اور پاکستان کے مختلف شہروں میں مسلسل تب سے ہر سال ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور کسی حکومت نے اس کو تبدیل نہیں کیا۔

شملہ معائدے کے بعد کشمیر کا معاملہ پاکستان کی طرف سے سرد پڑ گیا اور پاکستان کے حکمران یہ جانتے تھے کہ کشمیری وقت کے ساتھ ساتھ ان سے متنفر ہو جائیں گے۔ ”کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے“ اور ”کشمیر بنے گا پاکستان “ جیسے نعرے لگا کر مذہب کے چونے سے پہلے ہی سادہ مزاج کشمیریوں کو بے وقوف بنایا جا رہا تھا۔ تاریخ کو ملیا میٹ کر کے اور ثقافت کو ختم کر کے سادہ لوح لوگوں کو قائداعظم سے منسوب ایک غیر حقیقی فرمان کی بنیاد پر بھڑکایا جا رہا تھا۔ ستم ظریفی کہ اہل کشمیر بہت حد تک اس جھانسے میں آ چکے تھے۔

شملہ معائدے کے بعد پالیسی سازوں کے پاس کوئی اور وجوہ بابت کشمیر نہ بنیں تو انہوں نے کشمیر میں زیر زمین آپریشن ٹوپیک شروع کیا اور دوسری طرف پاکستانی عوام کو یہ نعرہ دیا کہ پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر ہے اور اس دن ہم کشمیریوں سے محبت کا اظہار کریں گے۔ یہاں کے فیصلہ ساز بین الاقوامی طور پر اس آپریشن سے دست بردار تھے کہ یہ تحریک خالصتا کشمیریوں کی ہے مگر دوسری طرف پورے پاکستان سے لوگوں کو بھیج بھیج کر کشمیریوں کی پر امن تحریک کو مسلح تحریک میں بدلا گیا تھا۔

پاکستانی قوم ابھی تک اپنے حکمرانوں سے ناآشنا ہے ، وہ ان سیاسی چکروں کو پچھلے ۸۶ سالوں سے نہیں سمجھ سکی ہے ، وہ ابھی تک کشمیر کو پاکستان کا نظریاتی و آئینی حصہ ہی سمجھ رہے ہیں، وہ کشمیر کی تاریخ ، سیاست ، معیشت ، معاشرت سے واقف ہی نہیں ہیں۔ اس لئے پاکستانی عوام کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔

آج کراچی کی سڑکوں پر چلتے مجھے بینر نظر آئے تو مجھ سے رہا نہ گیا کہ میں سوال کروں کہ ایک طرف تو تم اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بات کرتے ہو کہ کشمیر کا فیصلہ خود کشمیری کریں گے اور دوسری طرف آپ کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دے کر اسی سوال کی نفی کر رہے ہو۔ کراچی کی سڑکوں پر جگہ جگہ کشمیر بنے گا پاکستان اور کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے کے نعرے درج ہیں اور بینر لگے ہوئے ہیں۔

یہ بینر نہ صرف یہاں کے حکمرانوں کی آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ اہل کشمیر کے لیے یہ پہلو بھی پیش کرتے ہیں کہ ان جذباتی نعروں سے آپ کو اس طلسم میں لے جایا جا رہا ہے جہاں صرف اور صرف انتہا پسندانہ سوچ ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں پاکستانی حکمرانوں کا یہ نعرہ ”کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے“ اور پھر ”پاکستان کی تکمیل الحاق کشمیر سے ہو گی“ قائداعظم کے افکار سے بھی صریحا َانکار ہے ۔ ریکارڈ کی درستی کے لیے قائداعظم کی دورہ سری نگر کے دوران کشمیریوں‌سے کی گئی گفتگو پڑھ لیجیے تو صورت حال واضح ہو جائے گی.

اب یکجہتی کشمیر ایک ڈرامے سے زیادہ کچھ نہیں ہے جس میں بے چارے ایک تماش بین کی حیثیت سے نعرے لگا رہے ہیں اور سٹیج پر کھڑے اداکار ‘اداکاری کر رہے ہیں۔ یہ وہ گرداب ہے جس میں اہل کشمیر گزشتہ سات دہائیوں سے پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمیں پاکستان کے عوام سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور ہم ان کے جذبات کی قدر کرتے ہیں ۔ مگر اس ڈرامے کے پیچھے چھپے افراد کو ہم قطعا نہیں مانتے۔

یکجہتی کشمیر کیوں منائی جاتی ہے ؟؟

۱) ۔۔ شہید کشمیر مقبول بٹ کی برسی کو ایک بڑے شور میں چھپایا جا سکے۔

۲) کشمیری عوام کو یہ باور کروایا جا سکے کہ ہم کشمیر کے ساتھ ہیں

۳) بین الاقوامی دنیاکو یہ کہا جا سکے کہ ہم مسئلہ کشمیر کا تصفیہ تو چاہتے ہیں مگر ہمیں اپنی عوام کے جمہوری حق کو جو کہ ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کے نعرے میں پنہاں ہے نہیں چھین سکے۔

یہاں کے عاقبت بااندیش فیصلہ سازوں نے ماضی میں ہر لمحہ یہی کوشش کی ہے کہ کشمیر تقسیم ہوجائے ، وہ اسے زمین کا تنازعہ بنا کر اہل کشمیر کے جان و مال سے کھیلنے کی سعی کرتے رہے ۔ اگر پاکستان کی حکموت کو کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کرنا ہی ہے تو اہل کشمیر کو ان کا جمہوری حق دیا جائے ورنہ یہ رسمیں دنیا کو دکھانے کے لئے بہت ہو چکی ہیں۔ چھٹی منانے ، پکنک کرنے ، نعرے لگانے ، اور اپنے بچوں کو تفریح فراہم کرنے کا کوئی اور بہترین طریقہ ڈھونڈیں‌ .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے