کیا تبلیغ فرض ہے؟

[pullquote]کیا تبلیغ فرض ہے؟:[/pullquote]

[pullquote]سوال: تبلیغِ دین اس زمانہ میں واجب ہے یا کچھ اور؟[/pullquote]
جواب: اً: تبلیغِ دین ہر زمانہ میں فرض ہے، اس زمانہ میں بھی فرض ہے لیکن فرض علی الکفایہ ہے۔ جہاں جتنی ضرورت ہو اسی قدر اس کی اہمیت ہوگی۔ اور جس جس میں جیسی اہلیت ہو اُس کے حق میں اُسی قدر ذمہ داری ہوگی۔ امربالمعروف او رنہی عن المنکر کی صراحت قرآن کریم میں ہے سب سے بڑا معروف ایمان ہے اور سب سے بڑا منکر کفر ہے۔ ہر مومن اپنی اپنی حیثیت کے موافق مکلّف ہے کہ خدائے پاک کے نازل فرمائے ہوئے دین کو حضرت رسولِ مقبول ۖ کی ہدایت کے موافق پہنچاتا رہے۔

[pullquote]کیا تبلیغی جماعت سے جُڑنا ضروری ہے؟[/pullquote]

سوال: جماعت کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ کیا اس کام میں جڑنے کے علاوہ بھی اصلاح اور ایک مخصوص ذمہ داری بحیثیت حضورۖ کے ایک مسلمان امتی ہونے کے ادا ہوسکتی ہے۔ ایک مسلمان کے ذمہ کیا ہے؟ وہ کیسے اپنی زندگی کا رُخ صحیح کرے اور ساری انسانیت کے لیے فکرمند کیونکر ہو؟

جواب: جماعت بہت مبارک کام کررہی ہے۔ اس میں جتنا وقت بھی لگایا جاسکے ضرور لگانا چاہیے اس سے اپنی اور امت کی اصلاح کی فکر پیدا ہوتی ہے، او راپنے نفس کی اصلاح کے لیے کسی شیخ کامل محقق کے ساتھ اصلاحی تعلق رکھنا چاہیے۔

[pullquote]تبلیغ کا طریقہ:[/pullquote]

سوال: تبلیغ کا صحیح طریقہ کیا ہے؟

جواب: جو لوگ براہِ راست تبلیغ کا طریقہ نہیں جانتے ہیں، اُن کے لیے بہتر صورت یہ ہے کہ دہلی نظام الدین میں تبلیغ کا مرکز ہے وہاں چلے جائیں اور وہاں کی ہدایت کے موافق کام میں لگ جائیں۔

[pullquote]کیا نماز کی دعوت اور سنت کی تلقین ہی تبلیغ ہے؟[/pullquote]

سوال: تبلیغ کے کیا معنی ہیں اور اس کا دائرہ کار کیا ہے؟ کیا نماز کی دعوت اور سنت کی تلقین ہی تبلیغ ہے؟ اگر کوئی شخص معاشرے کو سنوارنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے تو لگ کہتے ہیں کہ یہ اقتدار کے لیے ایسا کرتا ہے اور کہتے ہیں کہ سنت پر عمل کریں تو دنیا قدموں میں خودبخود آجائے گی۔ حالانکہ مقصد اصلاح معاشرہ ہے اور معاشرے کو ان برائیوں سے بچانا مقصود ہے جو اسے دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ پوچھنا یہ ہے اس شخص یا جماعت کا یہ فعل کس حد تک اسلام کے مطابق ہے کیا یہ تبلیغ کی مد میں شامل ہے؟

جواب: معاشرہ افراد سے تشکیل پاتا ہے، افراد کی اصلاح ہوگی تو معاشرے کی اصلاح ہوگی، اور جب تک افراد کی اصلاح نہیں ہوتی اصلاح معاشرہ کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ پس جو حضرات بھی افرادسازی کا کام کررہے ہیں وہ دعوت و تبلیغ کا کام کررہے ہیں۔

تبلیغ کا دائرہ کار تو پورے دین پر حاوی ہے، مگر نماز دین کا اولین ستون ہے۔ جب تک نماز کی دعوت نہیں چلے گی اور لوگ نماز پر نہیں آئیں گے نہ ان میں دین آئے گا او رنہ ان کی اصلاح ہوگی اور ہر کام میں سنت نبوی کو اپنانے کی دعوت، درحقیقت پورے دین کی دعوت ہے، کیونکہ سنت ہی دین کی شاہراہ ہے۔ اس لیے بلاشبہ نماز اور سنت کی دعوت ہی دین کی تبلیغ ہے۔

[pullquote]دعا میں شامل ہونے کیلئے سفرکرنا[/pullquote]

سوال: تبلیغ دونوں نے مستورات کے تبلیغ میں جانے کے لیے خاص اصول و شرائط رکھے ہیں، ان اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے عورتوں کا تبلیغی جماعت کے اجتماعات میں وعظ ہوتا ہے اور اختتام پر بلند آواز سے دعا ہوتی ہے۔ ایک دعا مانگتا ہے اور باقی سب آمین کہتے ہیں، اس پر بڑے بڑے مصارف کرکے دور دراز سے لوگ سفر کرکے شریک ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کو اجتماع کا اصل مقصد سمجھتے ہیں۔ اگرکوئی اس میں شریک نہ ہو اور اٹھ کر چلاجائے تو تصور کیا جاتا ہے کہ اس نے اجتماع میں شرکت ہی نہیں کی۔ بندہ بھی اس میں شریک ہونے کا بڑا آرزومند ہوتا ہے اور تلاوت قرآن سے اس کو زیادہ باعث ثواب سمجھتا ہے۔ کیا یہ نظریہ درست ہے یا نہیں؟

جواب: تبلیغی جماعت کے اجتماعات بڑے مفید ہوتے ہیں اور ان میں شرکت باعث اجروثواب یہ۔ اختتام اجتماع پر جو دعا ہوتی ہے وہ موثر اور رقت انگیز ہوتی ہے۔ اجتماع اور اس دعا میں شرکت کے لیے سفر باعث اجر ہوگا۔ انشاء اﷲ۔ قرآن کریم کی تلاوت اپنی جگہ بہت اہم وار باعث ثواب ہے دونوں کا تقابل نہ کیا جائے۔ بلکہ تلاوت بھی کی جائے اور اجتماع میں شرکت بھی کی جائے۔

[pullquote]تبلیغ کا ثواب:[/pullquote]


سوال: کہا جاتا ہے کہ تبلیغ میں نکل کر عمل کرنے سے ایک کو ساٹھ لاکھ نیکیاں ملیں گی او رایک ساعت تبلیغ میں نکلنا ستّر(٧٠) سال گھر بیٹھے عبادت کرنے سے بھی افضل ہے اور ان کی دعائیں پیغمبروں کی دعائیں جیسی قبول ہوتی ہیں اور ایک روپیہ اس راہ سے خرچ کرنے سے سات لاکھ روپیہ اس راہ میں خرچ کرنے کی مقدار ثواب ملتا ہے۔ آیا یہ مفہوم بعینہ حدیث سے ثابت ہے اور بات کہاں تک صحیح ہے۔ اگر حدیث میں ہے تو کیا وہ حدیث صحیح بھی ہے؟

جواب:ً: خروج فی سبیل اﷲ میں ہر نیکی سات لاکھ نیکی کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ حدیث شریف الترغیب والترہیب میں حافظ عبدالعظیم منذری نے بیان کی ہے۔ اور اس کو معتبر و معتمد قرار دیا ہے۔ خروج فی سبیل اﷲ سے عامةً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے مراد فنافی سبیل اﷲ ہے۔ لیکن یہ لفظ خروج فی سبیل اﷲ بہت عام ہے۔ دین کی ہر جدوجہد کے لیے نکلنا خروج فی سبیل اﷲ ہے۔ مثلاً علم دین سیکھنے کے لیے، وعظ کے لیے، اصلاحِ نفس کی خاطر کسی بزرگ کی خدمت میں جانے کے لیے، تبلغ کے واسطے جماعت بناکر نکلنے کے لیے، کہیں فساد ہوگیا ہو تو مظلوموں کی امداد کے لیے، اہل باطل کے فتنہ سے مسلمانوں کی حفاظت کی خاطر مناظرہ کرنے کے لیے یہ سب خروج فی سبیل اﷲ ہے، حتیٰ کہ امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں جمعہ کے واسطے جانے کو بھی خروج فی سبیل اﷲ تجویز فرمایا ہے۔ جیساکہ (جلد١ صفحہ ١٢٤) میں ہے اپنے گھر بیٹھ کر دعا اور عبادت کرنے اور خدا کی راہ میں نکل کر دعا اور عبادت کرنے میں بھی بڑا فرق ہے اور یہ ظاہر ہے کہ حضرات انبیائ کی بعثت کا مقصود اسی دین حق کی تبلیغ و اشاعت ہے، لہٰذا جس کی زندگی اس راہ سے زیادہ قریب ہوگی اس کو اسی قدر انبیائ سے دعا و عبادت میں زیادہ قرب ہوگا۔

[pullquote]تبلیغ میں ہرنمازکاثواب :[/pullquote]

سوال: موجودہ تبلیغی جماعت میں بارہا سنا گیا ہے کہ اس جماعت میں نکلنے سے جو عمل کیا جاتا ہے وہ سات لاکھ گنا زیادہ ہوتا ہے یعنی ایک عمل گھر پر کیا گیا مثلاً ایک نماز گھر پر ادا کی گئی تو ایک ہی نماز کے اجر کا استحقاق ہے۔ اور اگر وہی نماز تبلیغی جماعت میں نکل کر ادا کی جائے تو سات لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے اور اس کی کیا اصل ہے۔ اور جو فضائل احادیث شریف میں مجاہدین کے سلسلہ میں وارد ہیں، کیا تبلیغی جماعت میں کام کرنے والوں کو وہ فضائل حصل ہوں گے۔

جواب: قرآن پاک کی تلاوت، درودشریف، کلمہ طیّبہ کی فضیلت تو اس قدر عام ہے کہ اس میں کلام کرنے کی گنجائش ہی نہیں، لیکن ان چیزوں کے لیے دوسرا وقت نکالا جاسکتا ہے۔ اگرکوئی حافظ ہے تو وہ ایک گوشہ میں بیٹھنے کا محتاج ہی نہیں۔ درودشریف کلمہ طیبہ بہرحال ہر شخص چلتے پھرتے بھی پڑھ سکتا ہے۔ اس لیے اگر اس معین وقت میں کتاب سُنے جس سے دینی معلومات میں اضافہ ہو اور نامِ مبارک سُنتے وقت درودشریف بھی پڑھتا رہے اور دوسرے وقت مسجد میں یا مکان میں دوسری چیز بھی پڑھتا رہے تو دونوں کا فائدہ مستقل ہوگا۔

[pullquote]عورتوں کا تبلیغی جماعتوں میں جانا [/pullquote]

سوال: عورتوں کا تبلیغی جماعتوں میں جانا کیسا ہے؟

جواب: تبلیغ والوں نے مستورات کے تبلیغ میں جانے کے لیے خاص اصول و شرائط رکھے ہیں۔ ان اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے عورتوں کا تبلیغی جماعت میں جانا بہت ہی ضروری ہے، اس سے دین کی فکر اپنے اندر بھی پیدا ہوگی اور امت میں دین والے اعمال زندہ ہوں گے۔

سوال: (١) عورتوں کو تبلیغ کے لیے سفر کرنا کیسا ہے؟ کیا حضورۖ نے فرمایا کہ عورتیں تبلیغ کیا کریں اور ازواجِ مطہرات میں سے کسی کو تبلیغ کے لیے بھیجا ہے؟

(٢) کچھ عورتوں کا تنہا دنیاوی یا دینی کسی کام کی وجہ سے ایک ساتھ مل کر سفر کرنا کیسا یہ؟ جیساکہ عورتیں عموماً اجتماع میں باہر جاتی ہیں۔ اگر خدانخواستہ اس سفر میں کسی گناہ کو جیساکہ غیرمحرم پر نظر پڑنا وغیرہ مرتکب ہوتی ہیں، پھر اس کی ذمہ داری کس پر ہے؟

(٣) کچھ عورتیں اپنے مردوں کی ناراضگی کی وجہ سے منع کرنے کے باوجود تبلیغ میں جاتی ہیں ان کو کس طرح روکا جائے؟ شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب(١):تبلیغ یا کسی بھی مقصد کے لیے عورت کو شرعی سفر کی اجازت نہیں جب تک شوہر یا محرم ساتھ نہ ہو، بلاسفر کے ان کا اجتماع ثابت ہے، حضرت نبی اکرمۖ نے خود اُن کو کسی مکان میں اجتماع کے لیے فرمایا ہے۔

(٢) مسافتِ سفر٤٨میل سے کم میں جانے کی گنجائش ہے لیکن پوری احتیاط کے ساتھ، کوئی قبیح واقعہ پیش آنے کا اندیشہ نہ ہو، نظر کی حفاظت لازم ہے، مکان میں بھی باہر بھی۔ چچازاد، خالہ زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد بھائی، دیور، بہنوئی وغیرہ بھی سب نامحرم ہیں، اُن سے بھی پردہ لازم ہے، جو عموماً مکانات میں نہیں ہوتا اور اہل خاندان اس کو برداشت کرتے ہیں بلکہ اُن سے پردہ کو معیوب اور تنگ نظری سمجھتے ہیں اور نظر سے آگے بڑھ کر اُن سے ہنسی مذاق، بے تکلفی، تنہائی کی باتیں ہوکر خراب نتائج بھی پیدا ہوتے ہیں۔ بقولِ اکبر مرحوم
آج کل پردہ دری کا یہ نتیجہ نکلا
جس کو سمجھے تھے کہ بیٹا ہے، بھتیجا نکلا

(٣) عورتوں میں تبلیغ کی بے حد ضرورت ہے۔ اگر اپنے مکان پر اُن کو دین سکھانے اور کتاب سنانے کا انتظام کردیں تو بہتر ہے۔ یا پھر اپنے ہی شہر میں ہفتہ میں ایک دن اُن کے اجتماع کا مقرر کردیا جائے، یہاں سب پردہ کے ساتھ جمع ہوجایا کریں۔ اگر کہیں سفر ہی کرنا ہو تو شوہر یا کسی محرم کے ساتھ جانے کا انتظام کیا جائے تاکہ دینی نقصان بھی نہ ہو، فتنہ سے بھی امن رہے، عورتوں ی تربیت کا مقصد بھی حاصل ہوجائے۔

نوٹ:دعوت وتبلیغ کے حولے سے حضرت مولانامفتی محمودالحسن گنگوہی (صدرمفتی دارالعلوم دیوبند)کی کتاب”فتاویٰ محمودیہ”اورشہیداسلام حضرت مولانامحمدیوسف لدھیانوی کی کتاب ”آپ کے مسائل اوران کاحل”سے چندمنتخب فتاویٰ جات عوام کی راہ نمائی کی غرض سے مختصراًپیش کیے جارہے ہیں۔اہل علم اصل کتابوں کی طرف مراجعت فرماسکتے ہیں۔اس فتنے وفسادکے دورمیں عوام کے لیے بھی زیادہ درست طرزعمل یہی ہے کہ وہ اس عظیم کام کے حوالے سے بھی مفتیان کرام سے راہ نمائی حاصل کیے بغیراپنی سمجھ سے کوئی کام نہ کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے