نواز شریف کی داستان حیات اور ہماری سیاسی تاریخ

حکومتِ پنجاب کے احکامات کے تحت ڈی جی پبلک لائبریریز پنجاب نے پنجاب کی تمام سرکاری لائبریریوں اور تعلیمی اداروں کے لئے مصنف طارق احمد خان کی وزیر اعظم پاکستان پر لکھی جانے والی کتاب میاں محمد نواز شریف داستانِ حیات نامی کتاب کو خریدنے کے لئے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔

کتاب سے ہمارے حکمرانوں کی محبت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ صرف اُسی کتاب سے دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں جس میں ان کی تصاویر اور اُن کی ستائش توصیف و اکرام موجود ہو۔ ماضی میں مغلیہ بادشاہ توصیف و اکرام کے لئے سونے جواہرات دربار میں خو شامد کرنے والے درباریوں کی جانب اُچھال دیا کرتے تھے۔ آج جمہوری ادوار میں یہ کام حکومتِ پنجاب ڈی جی لائبریریز کے ذریعہ کرتی ہے۔

اس خبر سے جب میرے دوست اور نامور صحافی عون ساہی نے مجھے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ کے ذریعے آگاہ کیا تو میں نے اسلام آباد کے بڑے بُک سٹور کے مالک اور ہمارے دوست یوسف کو فون کیا اور کتاب کی بابت پوچھا۔ ارادہ یہ تھا کہ کتاب پڑھی جائے اور پھر اس پر تبصرہ کیا جائے۔ تو وہ میری سادگی پر ہنسے۔ کہنے لگے جس طرح ڈمی اخبارات مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتے اسی طرح اس نو عیت کی کتب مصنف اور ناشران کی ملی بھگت کے نتیجے میں براہ راست کتب خانوں میں پہنچا دی جاتی ہیں۔

ہماری تاریخ میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل صدر ایوب سے لے کر جنرل مشرف تک حکمران ریاستی وسائل سے کتاب کے ذریعے اپنی ذاتی تشہیر اور تاریخ میں زندہ رہنے کی سعی لا حاصل کرتے رہے ہیں۔ لیکن وقت نے ثابت کیا حکمرانوں کی قصیدہ گوئی پر مبنی کتابیں تاریخ کے کوڑے دان میں ہی اپنی جگہ بنا سکیں۔

اس سے قطع نظرجدید سیاسی تاریخ میں گاندھی سے لے کر منڈیلا تک نے اپنی سیاسی جد و جہد اور سیاسی فلسفہ کو کتاب کے ذریعہ عوام تک پہنچایا۔ ان راہنماؤ ں کی کتابیں جہاں سیاسی کارکنوں اور عوام کے لئے سیاسی بیداری اور اُس وقت کی سیاست کو درپیش چیلینجز سے نمٹنے کی حکمتِ عملی کا بہترین اظہار ہوتی تھیں، وہیں ان راہنماؤں کی کتابیں اُن اقوام کی تاریخ کا معتبر حوالہ بھی ہیں۔

چین کے عوام کی بے مثال تاریخی جد وجہد لانگ مارچ کی تیاری سے پہلے چیئرمین ماؤزے تنگ نے سیاسی اور فوجی حکمتِ عملی پر مشتمل کتاب لکھی جو آج دنیا کی تمام فوجی تربیت گاہوں کے نصاب کا حصہ ہے۔ اسی طرح انقلاب روس سے قبل ٹرائیکی لینن کی کتابیں عملی جدو جہد اور سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔

اور پھر زندان میں ذوالفقار علی بھٹو جیل انتظامیہ کو چکمہ دے کر پھانسی کے پھندے پر جھولنے سے قبل شہرۂ آفاق کتاب ” اگر مجھے قتل کیا گیا ” تحریر کر گئے۔مولانا مو دودی زمانۂ اسیری میں قرآن مجید کی تفسیر کے دیباچہ میں صدر ایوب کے شکر گزار ہوئے ہیں جن کی حکومت نے اُنہیں پابند سلاسل کیا اور مولانا مو دودی کو کتاب لکھنے کی فرصت نصیب ہوئی۔ غفار خان ، جاوید ہاشمی سے لے کر متعدد سیاسی راہنماؤں نے شاہکار کتب لکھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی کتاب "دُخترِ مشرق” جنرل ضیاء آمریت میں اُن کی سیاسی جدوجہد کااحاطہ کرتی ہے۔لیکن میں بھی کن سیاسی راہنماؤں کا موازنہ اپنے موجودہ سیاسی حکمرانوں سے کرنے لگا۔

موجودہ حکمران تاریخ میں زندہ رہنے کو ترجیح دینے کے بجائے بڑے بڑے محلات میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اور ان کے حوالے کتابوں کے بجائے بیرون ملک بے نامی آف شور کمپنیوں کے کھاتوں میں ملتے ہیں۔ جو حکمران کاسہ لیس صحافیوں کو دانشور سمجھیں اور یہ شعور نہ رکھتے ہوں کہ دانشور حکمرانوں کے دروازوں پر نہیں جاتے بلکہ حکمران دانشوروں کی محفل میں شریک ہوتے ہیں۔ وہ حکمران یہ شعور کہاں سے لائیں کہ دنیا کی دولت سے عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے والی کتابیں لکھوائی نہیں جا سکتیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے