برطانیہ: ملازمتوں میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب کا بدترین مظاہرہ

بی بی سی کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلمان نام والے کسی شخص کے مقابلے میں برطانوی نام کے نوکری کے امیدوار کو تین گنا زیادہ انٹرویوز کے لیے بلایا جاتا ہے۔ان سائڈ آؤٹ نے ایک ہی طرح کی علمی لیاقت اور تجربے والے دو سی وی ایڈم اور محمد کے نام سے 100 کمپنیوں کو روانہ کیا جنھوں نے نوکریوں کے لیے اشتہار دے رکھا تھا۔

ایڈم کو 12 جگہوں سے انٹرویو کی پیش کش کی گئی جبکہ محمد کو صرف چار جگہ سے بلایا گيا۔ہر چند کہ یہ تجربہ چھوٹے پیمانے پر کیا گیا تھا لیکن یہ پہلے کی جانے والی علمی تحقیق کے نتائج سے بہت مماثل ہے۔ان تحقیقات میں یہ پایا گيا ہے کہ برطانیہ کے مسلمانوں کی مینیجر اور پیشہ ورانہ شعبوں میں دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے مقابلے میں نمائندگی کم ہے۔

ان دونوں نقلی ناموں سے لندن میں ایڈورٹائزنگ اور سیلز کے بزنس مینیجر کے طور پر 100 کمپنیوں میں درخواست دی گئی تھی۔ ڈھائی مہینے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ایڈم کو محمد کے مقابلے تین گنا زیادہ جگہوں سے بلاوا آيا۔ان دونوں کے سی وی یعنی احوال و کوائف کو چار جاب کی سائٹوں پر بھی ڈالا گیا جہاں سے پانچ کمپنیوں نے ایڈم سے رجوع کیا جبکہ محمد سے صرف دو کمپنیوں نے رابطہ کیا۔برسٹل یونیورسٹی کے پروفیسر تقی محمود نے بی بی سی کے تجربے کا تجزیہ کیا۔

انھوں نے کہا: مسلم نام والے سی وی کو تین میں سے ایک معاملے میں ہی خاطر میں لایا جاتا ہے۔ میرے خیال سے تین میں سے دو ہونا چاہیے تھا لیکن یہ لندن جیسے شہر کے لیے بہت برا ہے جو ٹیلنٹ کا بھوکا ہے۔

برسٹل یونیورسٹی میں ہونے والے ایک مطالعے میں پایا گیا کہ ایک مسلمان کے مقابلے میں سفید فام مسیحیوں کو انٹرویو کے لیے بلائے جانے کا 76 فیصد زیادہ امکان ہے۔برطانیہ کی مسلم کونسل کا کہنا ہے کہ سنہ 2011 کی آخری مردم شماری کے مطابق لندن کے 82 لاکھ باشندوں میں مسلمانوں کی تعداد دس لاکھ سے ذرا زیادہ ہے لیکن نصف سے زیادہ کنبے غربت میں زندگی گزار رہے ہیں اور یہ شرح کسی دوسرے مذہبی فرقے سے زیادہ ہے۔ پروفیسر محمود نے کہا کہ جب وہ نوجوان تھے تو انھیں کام کی جگہ پر نام بدلنے کی تجویز دی گئی تھی۔

انھوں نے کہا: ‘طالب علم کی حیثیت سے جب میں نے کام کیا تو میرے مالک نے میرا نام دیکھتے ہی کہا ‘یہ نہیں چلے گا۔ تم خود کو ٹیری مائلز یا اسی طرح کچھ اور کہو۔ اور مجھے یہ اچھا نہیں لگا۔’ انھوں نے کہا: ‘میں اپنی مرضی سے اپنا نام نہیں بدلوں گا اور میں نے اپنی بچیوں کا بھی پاکستانی یا مسلمانوں والا نام رکھا ہے حالانکہ میں سوچتا ہوں کہ جب وہ ملازمت کی تلاش میں جائیں گی تو ہو سکتا ہے کہ یہ ان کے لیے نقصان دہ ہو۔’ مسلمانوں کے خلاف اس قسم کے تعصبات سنہ 2009 میں روزگار اور پینشن کے شعبے میں ہونے والے ایک سروے میں بھی پایا گيا، جبکہ سنہ 2015 کی ایک رپورٹ میں خیراتی ادارے ڈیموس نے کہا ہے کہ مسلمانوں کا تناسب مینیجر اور پیشہ ورانہ آسامیوں پر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے مقابلے میں کم ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے