حکمت یار کو اب کیا ملے گا؟

افغانستان میں سب سے پرانی پرتشدد مزاحمتی تحریکوں میں سے ایک گلبدین حکمتیار کی جماعت حزبِ اسلامی ہے۔ سال ہا سال کی مسلح کارروائیوں کے بعد اب ان کے اور افغان حکومت کے درمیان فاصلے سمٹ رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی جانب سے گذشتہ دنوں ان پر سے پابندیاں ہٹائے جانے اور اس سے قبل افغان حکومت کے ساتھ ان کے امن معاہدے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے کیا پاکستان کوئی فائدہ حاصل کرسکتا ہے؟

2016 قتل و غارت گری کے اعتبار سے افغانستان میں سب سے برے 365 دن ثابت ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس سب سے زیادہ افغان شہری ہلاک ہوئے ہیں۔موسم سرما میں بھی امریکی سفارتی اہلکاروں کے مطابق طالبان کی کارروائیوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ایسے میں آنے والا موسم بہار کم از کم میدان جنگ کی حد تک کسی کمی کا اشارہ ہرگز نہیں دے رہا ہے۔ نئی طالبان قیادت کے لیے میدان جنگ میں فتوحات ہی تنظیم پر گرفت مضبوط کرنے میں مدد دیتی ہے۔

ایسے میں افغان حکومت کے لیے گلبدین حکمت یار کے ساتھ معاہدہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت افغان طالبان کو بھی براہ راست بات چیت کی پیشکش کر رہی ہے لیکن طالبان آج بھی کابل میں حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے فیصلے پر اڑے ہوئے ہیں۔گلبدین حکمت یار میدان جنگ میں پہلے طالبان اور اب داعش کی وجہ سے اہمیت اور جنگجو کھو چکے ہیں۔

داعش افغانستان کے خصوصاً ان علاقوں میں سر اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے جہاں حکمت یار نے بھی قدم جمانے کی کوشش کی۔سابق افعان وزیر اعظم گلبدین حکمت یار روسیوں کے خلاف مزاحمتی تحریک میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور پاکستان کی آئی ایس آئی کی آنکھوں کا سب سے بڑا تارا تھے۔
اس کی وجہ ان کی تنظیم حزب اسلامی کا عسکری طور پر سب سے زیادہ موثر اور منظم گروپ ہونا تھا۔طالبان کے آغاز کے بعد سے حکمت یار کی اہمیت اگرچہ کم ہوگئی تھی لیکن عام افغان انھیں آج بھی پاکستان کے کافی قریب سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ پاکستان میں ہی کہیں روپوش ہیں اور یہ کوئی نیا کھیل شروع کیا جا رہا ہے۔

اس سارے منفی ماحول میں پاکستان اس پیش رفت کو کیا اپنے فائدے کے لیے استعمال کرسکتا ہے؟بہتر تو یہی ہوگا کہ پاکستان اس تمام معاملے سے الگ تھلگ رہے۔ پہلے ہی حکمت یار کے ساتھ میں پاکستان کا نام جڑا ہوا ہے اور دور رہ کر ہی وہ افغانوں کو اپنا مسئلہ خود حل کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ویسے بھی وہ سفارتی سطح پر افغانوں کی قیادت میں افغانوں پر مشتمل مصالحتی عمل کی تائید کرتا آ رہا ہے۔

پاکستان روایتی طور پر افغانستان میں وہاں کے پشتونوں کے ساتھ زیادہ منسلک رہا ہے۔ تاہم چند سال پہلے ایک بڑی پالیسی شفٹ کے تحت شمالی اتحاد کے گروپوں کے ساتھ بھی اس نے تعلق بڑھانا شروع کر دیا تھا۔ پاکستان میں بعض پشتون قوم پرست ان کی واپسی کو افغانستان میں پشتون سیاست کے لیے کم از کم اچھا شگون مان رہے ہیں۔افغان امور پر نظر رکھنے والے پاکستانی تجزیہ نگار عقیل یوسفزئی کہتے ہیں کہ اگر حکمت یار افغان معاشرے میں اپنی ماضی کی سیاسی اہمیت دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ سب سے لیے ایک ’وِن وِن‘ صورتحال ہوگی۔ان کی کابل آمد سے قبل ہی ان کے صدارت کے لیے کھڑے ہونے کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔

پاکستان کے لیے تو اگر حکمت یار مستقبل میں کوئی اہم کردار ادا کرتے ہیں وہ اچھے ہی ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ راولپنڈی کے دیکھے بھالے ہیں۔ پھر وہ انڈیا مخالف بھی ہیں جو پاکستان کے لیے سونے پر سہاگے کے مترادف ہے۔لیکن خود حکمت یار کے لیے سب سے بڑا چیلینج افغان عوام میں اپنا نام صاف کروانا ہے۔ انھیں احمد شاہ مسعود کے ساتھ مل کر کابل کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے الزام میں قصاب جیسے ناخوشگوار القابات سے نوازا گیا۔اس سے چھٹکارا وہ کیسے حاصل کر پائیں گے؟ یہی ان کے لیے پہلے اہم ترین چیلنجوں میں سے ایک ہوگا۔

اس خطے کے لوگوں نے کبھی اپنے کسی جرم کے لیے کبھی معافی تو نہیں مانگی لیکن یہ ایک بڑی آپشن بھی ان کے پاس موجود ہے۔وہ اپنی پوزیشن کابل کے باسیوں کے سامنے کھل کر بیان کریں اور کابل کی تباہی کی جزوی ذمہ داروں قبول کرتے ہوئے اعتماد میں لیں۔حکمت یار کی کابل میں آمد کے بعد ہی ان کے امکانات اور پاکستان کے لیے اس کے مضمرات کی اصل صورت سامنے آئے گی۔ فی الحال ان کا مرکزی افغان دھارا میں آنا کم از کم ڈاکٹر اشرف غنی کے لیے اچھی پبلسٹی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے