قوم، مذہب اور وطن

[pullquote]علامہ اقبال اور مو لانا حسین احمد مدنی کا اختلاف نظریاتی تھا یا لفظی؟
[/pullquote]

یہ سوال اگر چہ ہماری تاریخ سے متعلق ہے لیکن اس کی ایک معنویت عصری بھی ہے۔ ہم معاشرتی سطح پر ایک تقسیم کا شکار ہیں جسے ہم اپنی دانست میں نظریاتی کہتے ہیں۔ اسی بنیاد پر ہم لوگوںکی حب الوطنی کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم نظری سطح پر جغرافیے کو وطن کی اساس نہیں مانتے لیکن عملاً اسی کو بنیاد مان کر لوگوں کی حب الوطنی کا فیصلہ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالقادر خان کی ایک مختصر مگر بہت اہم اور فاضلانہ کتاب میرے سامنے ہے۔ ڈاکٹرصاحب سرگودھا یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد ہیں۔ کتاب کا عنوان ہے: ”مسئلہ قومیت اور معرکہ دین و وطن‘‘۔ یہ اجتماعی شناخت کے باب میں ابن خلدون، سر سید احمد خان، مو لانا حسین احمد مدنی اور علامہ اقبال کے افکار کا مطالعہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال یہ ہے کہ دورِ حاضر میں جو علمِ سیاسیات وجود میں آیا، اس کے زیر اثر کچھ اصطلاحیں وضع کی گئیں۔ یہ اصطلاحیں جب ترجمے کے مراحل سے گزر کر ہماری سیاسی لغت کا حصہ بنیں تو ان سے ابہام پیدا ہوا۔ ہمارے ہاں ‘نیشن‘ کا ترجمہ ‘قوم‘ کیا گیا جو مصنف کے نزدیک درست نہیں۔ مغرب میں جنم لینے والے علمِ سیاسیات میں ‘نیشن‘ کا جو مفہوم بیان ہوا ہے، وہ ‘قوم‘ کے اس مفہوم سے مختلف ہے جو عربی لغت اور قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔

مو لانا حسین احمد مدنی جب یہ کہتے ہیں کہ ”موجودہ زمانے میں قومیں اوطان سے بنتی ہیں، نسل یا مذہب سے نہیں بنتیں‘‘ تو قوم کا وہ مفہوم ان کے پش نظر ہے جو قرآن میں بیان ہوا اور عربی لغت میں بھی۔ علامہ اقبال جب ان پر نقد کرتے ہیں تو ان کے پیش نظر جدید علمِ سیاسیات کی اصطلاح ‘نیشن‘ ہے جس کا رائج ترجمہ قوم ہے۔ مولانا کے پیش نظر ‘نیشن‘ کا متبادل یا مترادف ایک دوسرا لفظ ہے اور وہ ہے’ملت‘۔ علامہ اقبال کی تنقید میں قوم کو ملت کے مفہوم میں لیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ”سرود بر منبر کہ ملت از وطن است‘‘۔ گویا مولانا نے وہ بات کہی ہی نہیں جس پر اقبال تنقید کر رہے ہیں۔

کہتے ہیں: ”میں نے اپنی تقریر میں لفظ ‘قومیت‘کہا ہے، ملت نہیں کہا۔ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ملت کے معنی ‘شریعت‘ یا ‘دین‘ کے ہیں اور قوم کے معنی عورتوں اور مردوںکی جماعت کے ہیں۔۔۔۔‘‘۔ ایک اور مقام پر انہوں نے لکھا: ”قوم کا لفظ ایسی جماعت پر اطلاق کیا جاتا ہے جس میں کوئی وجہ جامعیت کی موجود ہو۔ خواہ وہ مذہبیت ہو یا وطنیت ہو یا نسل یا زبان یا پیشہ یا رنگت یا کوئی صفتِ مادی یا معنوی وغیرہ۔۔۔۔‘‘۔ علامہ اقبال بھی یہی بات لکھ رہے ہیں: ”قوم رجال کی جماعت کا نام ہے اور یہ جماعت بہ اعتبارِ قبیلہ، نسل، رنگ، زبان، وطن اور اخلاق، ہزار جگہ اور ہزار رنگ میں پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن ملت جماعتوںکو تراش کر ایک نیا اور مشترک گروہ بنائے گی۔گویا ملت یا امت جاذب ہے اقوام کی، خود ان میں جذب نہیں ہو سکتی‘‘۔

ڈاکٹر عبدالقادر خان نے ان میں تطبیق پیداکی ہے۔ میں اسے انہی کے الفاظ میں نقل کر رہا ہوں۔ وہ پہلے ایک سوال اٹھاتے اور پھر اس کا جواب دیتے ہیں:
” پہلا سوال: قوم کیاہے؟ مادی حوالے سے لوگوں کے کسی گروہ کی ایسی بریکٹ جس سے باہر کے لوگوں کو ان کی شناخت میں آسانی ہو۔ مثلاً افغان قوم۔ مولانا حسین احمد مدنی بلکہ خود اقبال بھی اس حوالے سے اہلِ ہند کو ایک قوم سمجھتے تھے۔

[pullquote]دوسرا سوال: نیشن کیا ہے؟ [/pullquote]

لوگوں کا ایک گروہ جس میں یہ احساس پایا جائے کہ ہم ایک ہیں اور جو باتیں ہمیں ایک بناتی ہیں،انہی کے حوالے سے ہم دوسروں سے مختلف اور ممتاز ہیں۔

تیسرا سوال: نیشن ایک روحانی اتحاد ہے یا فکری اور عملی؟ اقبال کے خیال میں نیشن ملت کا مترادف ہے، لہٰذا ایک روحانی اتحاد ہے اور یہ روحانی اتحاد انہی لوگوں کے مابین فروغ پا سکتا ہے جو ایک روحانی جذبے میں ایک دوسرے کے شریک ہوں۔ مثلاً مسلمان۔ مو لانا حسین احمد مدنی کے نزدیک نیشن ملت کے ہم معنی نہیں ہے۔ یہ ایک روحانی نہیں بلکہ فکری، عملی اور سیاسی اتحاد ہے،لہٰذا یہ ان لوگوں میں بھی فروغ پا سکتا ہے جوکسی روحانی جذبے کی زنجیر سے آپس میں بندھے ہوئے نہ ہوں۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے مل کر ایک نیشن بن جانا ممکن ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے وسیع تر مفادات کے نقطہ نظر سے مفید تر ہے۔
چوتھا سوال: ملت کیاہے؟ ایک دین وآئین اورشرع و منہاج کو ماننے والے لوگ ایک ملت ہیں۔ اقبال اور مولانا مدنی اس پر متفق ہیں۔
پانچواں سوال: کیا مسلمان اپنی سیاسی اور وطنی ضرویات کے لیے اپنی ملی شناخت (بہ الفاظِ دیگردین و آئین) سے دست بردار ہوسکتا ہے یا اسے ایسا کرنا چاہیے؟ مولانا مدنی اور اقبال دونوں اس امر پر متفق ہیںکہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔

چھٹا سوال: مسلمانوں کو اپنی جداگانہ ملی شناخت پر زور دینا چاہیے یا ایک وسیع تر ہندوستانی قومیت میں جذب اور مدغم ہو جانا چاہیے؟ دونوں زعما اس پر متفق ہیں کہ مسلمانوںکو اپنی جداگانہ ملی شناخت پر زور دینا چاہیے۔ اقبال کا خیال ہے کہ ان کو ایک الگ ہند اسلامی قومی شناخت قائم کر نی چاہیے۔ مولانا مدنی کا خیال ہے کہ انہیں ہندوئوںکے ساتھ مل کر ہندوستانی قومیت میں اکثریت کے شریکِ کارکے طور پر کام کرنا چاہیے‘‘۔

ڈاکٹر صاحب نے چند اور سوالات بھی اٹھائے ہیں۔کالم کی وسعت اجازت دیتی تو میں وہ بھی نقل کرتا۔ ڈاکٹر صاحب نے سر سید احمد خان کے تصورِ قومیت پر بھی لکھا اور یہ بتایا ہے کہ وہ بھی مسلمانوں اورہندوئوں کو ایک قوم ہی کہتے تھے۔ ہم مصنف کے نتائج ِ فکر سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ یہ اس موضوع پر ایک فکر انگیزکتاب ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ لفظی نزاع کو کیسے عدم احتیاط یا کسی تعصب کے باعث ایک نظریاتی اختلاف سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر گروہ وجود میں آتے اور برسوں برسرِ پیکار رہتے ہیں۔

میرا کہنا ہے کہ یہ مولانا مدنی ہوں، مولانا آزاد ہوں یا اقبال و قائد اعظم ہوں، یہ سب ہمارے بزرگ تھے جنہوں نے اجتماعی مفاد میں اخلاص کے ساتھ اختلاف کیا۔ یہ اختلاف نظری کم اور زیادہ تر حکمتِ عملی کے باب میں تھا۔ مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے اقبال اور قائداعظم کی حکمتِ عملی سے اتفاق کیا۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ ان سے اختلاف رکھنے والے ہمارے اکابر کی فہرست سے خارج ہو جائیں۔ اگر دین کی تفہیم اور اس کے اطلاق میں اختلاف کرنے والا، اتفاق اور عدم اتفاق سے قطع نظر، یکساں طور پر احترام کے مستحق ہیں تو سیاسی مسائل میں اختلاف کرنے والے کیوں احترام کے مستحق نہیں ہو سکتے؟
مجھے کبھی کبھی یہ گمان بھی ہوتا ہے کہ خلطِ مبحث کے سبب، پاکستان میں قائد اعظم کی روایت کے وارث، عملاً مولانا مدنی کے تصورِ قومیت کے علم برادر ہیں اور مولانا مدنی کے نام لیوا اقبال کے تصور پر کھڑے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے