این ڈوراماڈل اورمسئلہ کشمیر

فرانس اور سپین کی سرحد پر واقع یہ ایک ریاست این ڈورا(Andorra) اقوام متحدہ کا ممبر بن سکتی ہے تو 85000 مربع میل پر پھیلی ریاست جموں کشمیر یا اس کا آزاد کردہ حصہ کیوں آزاد نہیں رہ سکتا ۔ یہ تو بعد کی بات ہے کہ آپ آزاد کشمیر جس کا رقبہ 4000 مربع میل ہے، کو ایک آزاد ریاست کا درجہ دے کر اسے تسلیم کریں یا اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ میں دیے جانے یا اسے پوری ریاست کی نمائندہ حکومت کے طور تسلیم کیے جانے کا اعلان کر کے رضا کارانہ طور

این ڈورا 1278ء سے آزاد و خود مختار چلا آ رہا ہے ۔ اس کی آبادی پچاسی ہزار ہے
این ڈورا 1278ء سے آزاد و خود مختار چلا آ رہا ہے ۔ اس کی آبادی پچاسی ہزار ہے

 

اپنی انتظامی ذمہ داریاں اقوام متحدہ کو منتقل کرنے کا اعلان کردیں تو آپ نہیں سمجھتے کہ بھارت پر بین الاقوامی دباو بڑھے گا. پاکستان کو دباو اور اضافی دفاعی اخراجات اور دہشت گرد تنظیموں سے بھی نجات ملے گی۔ حکومت آزاد کشمیر صرف سیاحت کے فروغ اور سفید سونا یعنی دریاؤں سے پن بجلی پیدا کر کے اپنے اخراجات چلا سکتی ہے ۔ چین کے ساتھ معاہدوں میں پورے جموں کشمیر کی نمائندگی کے لیے آزاد کشمیر کی حکومت کو نمائندگی کا حق ملنے سے بھارت کی سازشیں دم توڑ جائیں گی۔

 

یاد رہے این ڈورا 1278ء سے آزاد و خود مختار چلا آ رہا ہے ۔ اس کی آبادی پچاسی ہزار ہے اور آمدن کا واحد ذریعہ سیاحت ہے ُ ۔ امریکہ میں قائم کشمیر اسٹڈی گروپ نے این ڈورا ماڈل کو اپنی تجاویز میں شامل کیا تھا اور میں نے اس پر ہونے والی بحث میں حصہ بھی لیا تھا ۔ دیگر ماڈلز اور تجاویز کو بھی زیر بحث لایا جا سکتا ہے ، ہمیں اپنے حصہ کا کام کرنا چاہیے۔ کشمیری قیادت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ سوچوں کے سرکاری بند ڈبوں سے باہر نکل کر مسئلہ کے قابل عمل اور قابل قبول حل کی بات کریں ۔ بہت سی تجاویز میں کچھ کا انتخاب کر کے اس پر مکالمہ اور بحث مباحثہ کریں ۔ سوشل میڈیا کی سہولت سے استفادہ کریں ۔

 

ذرا سوچیں 1947ء میں چند ٹوپی مار بندوقوں کی جنگ کے بعد اقوام متحدہ نے بھارت کی شکایت کا فوری نوٹس لیا ، جنگ بندی کا حکم جاری ہوا ، کمیشن بنایا ، تحقیقات کے لیے کمیشن بنا تو شکایت کنندہ خود ہی پھنس گیا ، اس لیے کہ اس وقت لیگ آف نیشنز کی ناکامی کے بعد اقوام متحدہ کے سامنے فلسطین کے بعد یہ یعنی کشمیر کا دوسرا بڑا مسئلہ آیا۔ دنیا نے انصاف کیا اور 13 اگست 1948ء کی قرارداد میں بھارت و پاکستان کو کشمیر سے فوجیں نکالنے اور کشمیریوں کو غیر محدود و غیر مشروط حق خود ارادیت دینے کا فیصلہ کیا

کشمیری قیادت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ مسئلہ کے قابل عمل اور قابل قبول حل کی بات کریں
کشمیری قیادت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ مسئلہ کے قابل عمل اور قابل قبول حل کی بات کریں

۔پھر جب لگا کہ اس قرار داد کی رو سے کشمیر ی خود مختاری کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں تو دونوں حکومتوں نے باہمی بات چیت کر کے ۵ جنوری 1949 کو ایک نئی قرار داد لائی ۔اس طرح حق خود ارادیت محدود ہونے کے ساتھ ساتھ مسئلے کا عنوان ہی بدل گیا۔

 

اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان نے ایسا کیوں کیا ، سمجھ نہیں آیا۔ پھر عالمی سیاست دو قوتوں کے درمیان پھنستے چلی گئی مسئلہ کشمیر بھی ۔روس بھارت کی پشت پر کھڑا ہو گیا اور قراردادیں ویٹو کرنا شروع کر دیں۔ میڈم آل برائٹ تو سر ظفراللہ کے عشق میں گرفتار ہونے لگیں اور اپنے والد کی کتاب ”Dangers in Kashmir” میں بیان کردہ خطرات کو بھی نظر انداز کر دیا۔

 

برطانوی راج کے تربیت یافتہ دیسی بابو لوگوں نے اقوام متحدہ کے کمیشن کو کراچی ، دہلی اور نیو یارک کے اتنے چکروں پر چکر لگوائے کہ وہ خود ہی چکرا گئے۔بھارت و پاکستان کی افسر شاہی کی چالاکیاں جب انہیں سمجھ آئیں تو انہوں نے کمیشن کا کام بند ہی کر دیا. اگر آپ کو موقع ملے تو اس سے متعلق ڈکسن کی آخری رپورٹ ضرور پڑھیے گا ۔گزارش یہ ہے کہ اب کچھ نیا سوچیے ، کشمیری اس بے چہرہ جنگ میں اپنی تیسری نسل بھی قربان کر چکے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے