فاٹا اصلاحات،ابھی یا کبھی نہیں !!

ویسے تو وفاقی درالحکومت کا موسم سرد اور یخ بستہ ہے تاہم ان دنوں اسلام آباد فاٹا اصلاحات کے حوالے سے سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہے اور سیاسی درجہ حرارت کی تپش لہو کو گرما دینے کے لئے کافی ہے ۔گزشتہ ہفتے بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پختونخوا میپ) کی جانب سے ایک جرگے کا انعقاد کیاگیا جس کا مقصد قبائلی علاقوں کا صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام روکناتھا ، جرگے میں پختونخوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے ایک بار پھر فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے قبائلی علاقوں میں عوامی ریفرینڈم کا مطالبہ کیا۔انہوں نے فاٹا کے حوالے سے حکومتی کمیٹی کی سفارشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا میں اصلاحات وہاں کے عوام کی مرضی سے ہونی چاہئیں،جرگے میں فاٹا سے تعلق رکھنے والے دیگر رہنماوں نے بھی شرکت کی جن کا مطالبہ تھا کہ فاٹا کے فنڈز کو وہاں کے نمائندوں کے ہاتھوں خرچ کیا جائے ۔

فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے دوسرے بڑے مخالف جمیعت علما اسلام ف کے امیر مولانا فضل الرحمان ہیں۔فاٹا کے حوالے سے ان کا موقف وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہاہے۔پہلے وہ خیبرپختونخوا میں فاٹا کے انضمام ،الگ صوبہ یا کسی اور حل کے مخالف نہیں تھے تاہم اب وہ بھی محمود خان اچکزئی صاحب کی طرح قبائلی علاقوں میں اصلاحات کے حوالے سے ریفرینڈم کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح کی اصلاحات سے پہلے فاٹا کے رہائشیوں کو ان کے بنیادی حقوق دئیے جائیں اور وفاق کی جانب سے فاٹا کے لئے ایک مخصوص پیکج کا اعلان کیا جائے جس میں تعلیم ، صحت اور انفراسٹرکچر کی ضروریات پوری کی جائیں ۔سب سے پہلے تو مولانا صاحب کو فاٹا اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ تفصیل سے پڑھنی چاہئیے ۔اس رپورٹ میں وہ تمام مطالبات کئے گئے ہیں جو مولانا صاحب قبائلی عوام کی ترقی کے لئے ضروری سمجھتے ہیں ۔

یہ دونوں حضرات فاٹا کے خیبرپختونخو امیں انضمام کے سب سے زیادہ مخالف ہیں اور ہر فورم پر اس کے خلاف اپنی پوری قوت سے آواز اٹھا رہے ہیں۔دونوں سیاسی رہنما وفاقی حکومت کا حصہ بھی ہیں جبکہ اچکزئی صاحب کے بھائی محمد خان اچکزئی تو بلوچستان کے گورنر بھی ہیں تاہم دونوں حضرات اس وقت خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے جب وفاقی حکومت فاٹا اصلاحات کمیٹی تشکیل دے رہی تھی تاہم اس وقت دونوں سیاسی رہنما نے مصلحت کی دبیزچادر اوڑھ رکھی تھی ۔ چلیں مولانا فضل الرحمان کی مخالفت کی تو پھر بھی سمجھ آتی ہے کیونکہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کی صورت میں قبائلی علاقوں میں دیگر سیاسی جماعتوں کوبھی کام کرنے کابھرپور موقع ملے گاجس کے نتیجے میں جے یو آئی کے سیاسی اثرورسوخ میں کمی ہو سکتی ہے تاہم اچکزئی صاحب کی مخالفت سمجھ سے بالاتر ہے ۔وہ نہ تو قبائلی عوام کے نمائندہ ہیں ، نہ وہاں سے ان کی پارٹی کو کوئی قابل ذکر کامیابی ملی ہے تاہم وہ پھر بھی قبائلی عوام کو ایف سی آر جیسے ظالمانہ نظام کے ذریعے غلام رکھنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

دوسری جانب رواں ماہ کی چھ تاریخ کو کنونشن سنٹر اسلام آباد میں فاٹا کو خیبرپختونخو امیں ضم کرنے کے حق میں حقوق قبائل کے نام سے ایک بڑے کنونشن کا انعقاد کیا گیا جس کے روح رواں قبائلی علاقے سے مسلم لیگ ن کے رکن شہاب الدین خان اورقومی اسمبلی میں قبائلی اراکین کے پارلیمانی لیڈر الحاج شاہ جی گل آفریدی سمیت دیگراراکین تھے۔کنونشن میں فاٹا سے تعلق رکھنے والے طلبہ وطالبات سمیت زندگی کے دیگر شعبوں کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی جن میں ڈاکٹرز ، انجینئرز اور اساتذہ سمیت دیگر شعبوں کے ماہرین شامل تھے ۔منتظمین کے مطابق کنونشن میں دس ہزار سے زائد قبائلیوں نے فاٹا کو خیبرپختونخو امیں ضم کرنے کی حمایت کی ۔حقوق قبائل کنونشن کے ایک روز بعدوزیراعظم میاں نواز شریف کی صدارت میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا ۔ توقع کی جا رہی تھی کہ کابینہ کے اجلاس میں فاٹا اصلاحات کمیٹی کی سفارشات منظور کی جائیں گی تاہم اس وقت قبائلی علاقوں سے مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی شہاب الدین خان سمیت دیگر اراکین کوحیرت ہوئی جب کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں فاٹا اصلاحات کمیٹی کی سفارشات سرے سے شامل ہی نہیں کی گئیں حالانکہ اس سے پہلے اطلاعات تھیں کہ فاٹا کے انضمام کا معاملہ کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے اور اسی بات کا گلہ شہاب الدین خان نے بھی کیا کہ پہلے اعلی قیادت کی جانب سے انہیں گرین سگنل دیا گیا کہ اسلام آباد میں فاٹا اصلاحات کمیٹی کی سفارشات کے حق میں ایک بڑے شو کا انعقاد کیا جائے تاہم کابینہ اجلاس میں فاٹا سفارشات زیر غور نہ لاکر ان کی پیٹ میں چھر ا گھونپا گیا۔

شہا ب الدین خان نے حنیف الرحمان کے ساتھ خیبرنیوز کے پروگرام ویوو پوائنٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ وہ فاٹا اصلاحات کے معاملے پراسمبلی سے استعفی دینے کیلئے بھی تیار ہیں اور اگر سیاست چھوڑ نی پڑی تو اس کے لئے بھی تیار ہیں ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ فاٹا اصلاحات اور قبائلی علاقے صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے لئے اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے ۔

صوبہ خیبرپختونخوا کی حکمران جماعت تحریک انصاف ،عوامی نیشنل پارٹی ، قومی وطن پارٹی اورجماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی قائدین فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کے حق میں ہیں تاہم ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کے ذریعے ڈبل گیم کھیل رہی ہے کیونکہ سال 2018ء کے عام انتخابات میں میاں نواز شریف سمیت مسلم لیگ ن کے دیگر قائدین قبائلی عوام کو یہ باور کراتے ہوئے پائے جائیں گے کہ مسلم لیگ ن تو فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے حق میں تھی اور یہاں تک کہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں بنائی گئی فاٹا کمیٹی نے اصلاحات کو حتمی شکل بھی دے دی تھی تاہم پختونوں کے اپنے لیڈر (مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی )فاٹا کے انضمام کے حق میں نہیں تھے اس لئے وفاقی حکومت اس معاملے میں کچھ کرنے سے قاصر رہی اور اب انشاء اللہ2018ء کے انتخابات جیتنے کے بعد لازمی طور پر فاٹا اصلاحات پر عمل درآمد کیا جائے گا۔میرے خیال میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف 2018ء کے الیکشن میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لئے یہ ڈبل گیم کھیلنا چاہتے ہیں تاہم اُن کا یہ کھیل قبائلی علاقوں میں مسلم لیگ ن کے خلاف بھی جاسکتا ہے کیونکہ قبائلی نوجوان اب کافی حد تک اپنے دوست دشمن کو پہچان چکے ہیں اور اپنے حقوق کے حصول تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے