ایران کے ایٹمی تجربات اوردنیا کی تشویش

ایران یعنی فارس دنیا کا ایسا ملک ہے جس نے ہزاروں سال تک دنیا میں اپنی بالادستی کے لیے طویل ترین جنگیں لڑیں۔روم اور فارس کے نام سے تاریخ میں یاد رکھی جانے والی دو سپرطاقتوں میں سے فارس کا مرکزی خطہ ایران ہی تھا۔یہی دو طاقتیں تھیں جو دنیا میں ہزاروں سال تک زیرِبحث رہیں۔یہ دوطاقتیں اسلام کی آمد کے بعدبظاہرشکست وریخت ہوگئیں،لیکن ان میں سے فارس یعنی ایران نے قبولیت اسلام کے بعددنیا میں نہ صرف اپناوجودبرقراررکھا،بلکہ تاریخ میں کسی نہ کسی صورت خود کو زندہ رکھنے کے لیے طرح طرح کی کوششیں بھی جاری رکھیں۔

آج ایران ہی دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جو ہر وقت کسی نہ کسی صورت دنیا میں زیرِ بحث رہتا ہے۔حال ہی میں ایران نے بیلسٹک اور جدید ٹیکنالوجی کے حامل میزائلوں کےتجربات کیے ہیں۔جس کے بعد دنیا میں ایک مرتبہ پھرہرجگہ ایران موضوعِ سخن بنا ہواہے۔ان میزائل تجربات کے بعد دنیا بھر میں ایران کے زیربحث آنے کی اصل وجہ ایران کامتنازع ایٹمی پروگرام ہے۔

ایران کے اس متنازع ایٹمی پروگرام کی تاریخ1957 سے شروع ہوتی ہے۔جب پہلی مرتبہ ایران نے امریکا کے تعاون سے پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا۔1967ء میں ایران نے تہران نیوکلئیرسنٹر کی بنیاد رکھی۔1968میں ایران نے ایٹمی ہتھیاروں کی دیکھ بھا ل اور دنیا میں پرامن ایٹمی توانائی کوفروغ دینے والی NPTنامی تنظیم کے ساتھ معاہدہ کیا۔اس سے پہلے ایران نے عالمی ادارہ برائے نیوکلئیر توانائی((IAEAکے ساتھ بھی ایگرمنٹ سائن کیا۔امریکا،فرانس،روس،جرمنی اورسوئزلینڈ سمیت بین الاقوامی طاقتوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام کی اُ س وقت نہ صرف کھل کر حمایت کی،بلکہ بلین ڈالرز کی انویسمنٹ بھی کی۔1979ء کے ایرانی انقلاب تک ایران کا ایٹمی پروگرام بڑی تیزی سے چلتا رہا۔چنانچہ سی آئی اے نے اس وقت اپنی رپورٹ میں کہا اگر1980 تک ایرانی بادشاہ محمدرضا شاہ پہلوی زندہ رہا اور بھارت کی طرح دیگر ملک اسلحہ سازی میں آگے بڑھتے رہے تو کوئی شک نہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیاروں میں ان پر سبقت لے جائے۔لیکن ایرانی انقلاب کے بعد ایران کا ایٹمی پروگرام اچانک رُک گیا۔بین الاقوامی کمپنیوں نے ایران کے جوہری پلانٹوں پر کام کرنا بند کردیا۔1990ء میں ایران کے ساتھ مل کر کام کرنے والی روس کی ایک ایٹمی تنظیم نے ایک مرتبہ پھر ایران کے ساتھ ایٹمی پروگرام میں تعاون کرنے کا معاہدہ کیا۔

چنانچہ ایران نے روسی ایٹمی سائنسدانوں سے بھرپوراستفادہ کیا۔روس کی پانچ ایٹمی تنظیمیں بشمول روس کی وفاقی حکومت کے ماتحت کام کرنے والی Roscosmosنامی سپیس سائنس کی تنظیم نے ایران کو میزائل اور دیگر ایٹمی ٹیکنالوجی میں بھرپور تعاون فراہم کیا۔اس دوران روس کی طرح فرانس،ارجنٹائن اور چین بھی ایران کو جوہری توانائی کے لیے مدد دیتے رہے۔لیکن پھر ارجنٹائن اور چین پر امریکا نے دباؤ ڈالا جس پر ارجنٹائن نے ایران سے18ملین ڈالر کا معاہد ختم کردیا۔1992ء میں ایران نے پہلی مرتبہ دنیا میں ایٹمی توانائی کی دیکھ بھال کرنے والی بین الاقومی تنظیم((IAEAکو اپنے ایٹمی پروگرام کا وزٹ کروایا۔اس تنظیم نے اپنی رپورٹ میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو پرامن قراردیا۔

لیکن پھر 2003ء میں پہلی مرتبہ اس تنظیم نے ایران کے ایٹمی پروگرام پرتحفظات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے مکمل طورپر اپنے ایٹمی پروگرام کو ظاہر نہیں کیا۔ایران پرامن ایٹمی پروگرام کی آڑ میں خطرناک ایٹمی ہتھیار بنارہاہے۔ایران نے اس کی تردید کی۔بعدازاں اقوام متحدہ نے ایران کو ہرقسم کا ایٹمی پروگرام معطل کرنے کا حکم دیدیا۔یاد رہے ایران کے ایٹمی پروگرام پر اقوام متحدہ اب تک آٹھ کے قریب بڑی قراردادیں پاس کرچکا ہے۔جن میں ایران کو ایٹمی پروگرام معطل کرنے سمیت دیگر ملکوں کو ایران کے ساتھ کسی بھی قسم کے میزائل یا ایٹمی ٹیکنالوجی وغیرہ میں تعاون سے روکا گیا،تجارتی پابندیاں اس کے علاوہ لگائی گئیں۔2015 میں ایران کے ساتھ امریکا کی جوہری ڈیل میں بھی ایران پرپابندی لگائی گئی کہ وہ ایٹمی ہتھیار کے حامل میزائل تجربات نہیں کرے گا۔

دیکھا جائے تو2003ء سے2015 تک کا عرصہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے انتہائی اہم اور متنازع رہاہے۔جس میں ایک طرف ایران پر مختلف پابندیاں لگائی جاتی رہیں ،دوسری طرف ایران عالمی ادارہ برائے نیوکلئیر توانائی((IAEAسمیت بین الاقوامی طاقتوں کو پرامن ایٹمی پروگرام کے لیے قائل کرتارہا۔اس دوران درجنوں مذاکرتی ملاقاتوں میں ایران نے دنیا کو باور کروایا کہ وہ” پرامن” ایٹمی پروگرام پرکام کررہاہے۔لیکن ماہرین کے مطابق اس کےباوجود ایران ایٹمی ہتھیار لے جانے والے بیلسٹک میزائلوں پر کام کرتا رہا۔جس کااندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جولائی 2015 میں اقوام متحدہ کی ایران کے ساتھ جوہری ڈیل ہونے کے بعد ایران نے پے درپے میزائل تجربات کیے۔جن میں1700 سے 2000 کلومیٹر تک مارکرنے والے میزائل بھی ہیں اورایٹمی ہتھیار لے جانے والے بلیسٹک میزائل بھی ہیں۔

ان میزائلوں میں 3500کلومیڑ تک مارکرنے والا”شہاب5″نامی میزائل بھی شامل ہے،بین الاقوامی سائنسدانوں کے مطابق اس پر ایران کام مکمل کرچکا ہے۔یاد رہے کہ3500کلومیٹر کی رینج کا مطلب ہے کہ چین،روس،مصر سمیت یورپ اور افریقہ کا بیشتر حصہ ایران کے ایٹمی حملے کی زد میں ہے۔دوسری طرف حیرت انگیز طور پرایران ماضی کی طرح آج بھی یہ دعوی کررہاہے کہ بلیسٹک میزائل سمیت ایران کے دیگر میزائل ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کے حامل نہیں ہیں،بلکہ یہ صرف اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے محض ٹیکنالوجی کا حصول ہیں۔اس پر ایک امریکی سائنسدان نے غالبا 2006ء میں ایران پر پھبتی کستے ہوئے کہا تھا کہ اگر بلیسٹک میزائل ایٹمی ہتھیار کے حامل نہیں تو کیا پھربندروں کے حامل ہیں۔

بہرحال حقیقت یہ ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام تقریبا مکمل ہوچکاہے اور ایران چھوٹے بڑے پیمانے پرایٹمی ہتھیار لے جانے والے سکڈ میزائلوں سمیت بلیسٹک میزائل ٹیکنالوجی پر بھی مکمل عبور حاصل کرچکا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کا مقصد پرامن ہے یا نہیں ؟۔ حتمی طورپراس بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔لیکن سائنسدانوں کی آراء اوردنیا بھر بالخصوص مشرق وسطیٰ میں ایران کی دیگر ملکوں کے ساتھ چپقلش کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جاسکتاہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام اور بلیسٹک میزائلوں کے تجربات سے مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کاامن انتہائی خطرے سے دوچارہوگیاہے۔ایک طرف ایران ہے دوسری طرف امریکا،اسرائیل اور دیگر خلیجی ممالک ۔ان میں سے ہرکوئی نہ صرف ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے بلکہ خلیجی ممالک ایران کےساتھ دفاعی طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اسلحے کے بیوپاریوں سے بڑے پیمانے پر اسلحہ خریدنے میں بھی مصروف ہیں۔

اسلحہ کی اس خوفناک دوڑ سے انسانیت واقعی تباہی کے دہانے پر جاپہنچی ہے۔پھر ایران کے امریکا کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات نے مشرق وسطیٰ کے امن کو مزید متزلزل کردیاہے۔دیکھا جائے توایران اور امریکا کے تعلقات میں تناؤ کی اصل وجہ ایران کا ایٹمی پروگرام نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے باہمی مفادات کامختلف ہوناہے۔کیوں کہ ایک طرف ایران مشرق وسطیٰ میں بالادستی چاہتا ہے تودوسری طرف امریکا مشرق وسطیٰ کے وسائل پر چودھراہٹ کا دعویدارہے۔جب کہ دنیا جانتی ہے کہ یہ امریکا ہی تھا جس نے نہ صرف ایران کے ایٹمی پروگرام کو شروع کرواکر اس میں بھرپور مدد کی ،بلکہ” امریکا عراق جنگ "میں امریکا نے ایران کو عراق میں کھلے عام مداخلت کا موقع بھی دیا

۔بہرحال ایران نے ٹرمپ کے آنے کے بعد بلیسٹک میزائل(ballistic missile) کے تجربات سے اس تناؤ کو مزید گہر ا کردیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے ان میزائل تجربات کے بعدایران پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔دوسری طرف سعودی عرب اور دبئی کے بادشاہوں سے ٹرمپ نے ایک گھنٹے تک طویل ٹیلیفونک گفتگو کی۔ جس میں باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے کے علاوہ ایران کو مشرق وسطیٰ میں باز رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ادھر گوادر پورٹ کے مقابلے میں بھارت اور افغانستان کے ساتھ ایران کی چاہ بہار پورٹ کے قیام او ر بھارت کے ساتھ دفاعی معاہدوں سے پاکستان کے ساتھ ایران کے تعلقات کو بھی شبہ کی نظر سے دیکھا جانے لگاہے۔جب کہ شام اور عراق میں ایران کی بالادستی پر بھی ٹرمپ نے کھل کر بولنا شروع کردیاہے۔

یہ وہ حقائق ہیں جن سے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ایران کے ایٹمی میزائل تجربات سے دنیا کس قدر تشویش ناک صورت حال میں مبتلاہوگئی ہے۔دنیا کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے نہ صرف ایٹمی طاقتوں کو بلکہ ایران اورشمالی کوریا سمیت دنیا کے دیگر ملکوں کوبھی اسلحے کی قاتلانہ دوڑ میں شامل ہونے سے باز رہنا ہوگا اور اقوام متحدہ سمیت عالمی طاقتوں کو مفادات سے ہٹ کرجان لیوا ہتھیاروں کی روک تھام کوروکنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے