گریہ و ماتم نہیں‘ جہد مسلسل

مجرم بھی وہی ہیں اور دشمن بھی وہی۔ ہم انہیں معاف کر بھی دیں تو وہ ہمیں معاف نہیں کریں گے۔ ایک جہد مسلسل ہی میں ہماری بقا ہے۔ ماضی کے ماتم میں نہیں‘ اس سے سبق سیکھنے میں۔ زخموں پر گریہ نہیں ‘ اس کے اندمال کی تدبیر میں۔

اللہ مہربان ہے اور وہ مواقع ارزاں کرتا ہے۔ اب یہ ابن آدم پہ ہے کہ وہ ان سے فائدہ اٹھاتا ہے یا نہیں۔ کراچی کا ناسور مندمل ہونے لگا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ضروری منصوبہ بندی کی جائے۔ ضروری فیصلے کر کے مستقبل کے لیے اقدامات کا آغاز کر دیا جائے۔ امکانات‘ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ ایک لہر کی طرح ہوتے ہیں کہ آپ ان پر سوار ہو جائیں یا اسے کھو دیں۔ اللہ کے آخری رسول ﷺ کا فرمان یہ ہے کہ زندگی ایک سواری ہے۔ آدمی اس پر سوار ہوتا ہے یا وہ اس پر سوار ہو جاتی ہے۔

دہشت گرد اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں۔ الطاف حسین نے اپنے خلاف گواہی دی اور گلا پھاڑ کر دی۔ ان کی طرف سے پیش کی جانے والی معذرت کی قطعاً کوئی حیثیت نہیں۔ یہ فقط فریب اور دھوکہ دہی کی واردات ہے۔ ان کے ہزاروں مقتول زندہ نہیں ہو سکتے۔ ان کے پالے ہوئے کچھ قاتل گرفتار ہیں‘ کچھ اب بھی آزاد۔ غیر ملکی ایجنسیوں سے ان کے روابط اب بھی استوار ہیں۔ بھارت ان کی پشت پر ہے اور غالباً برطانیہ بھی۔ کالا دھن سفید کرنے میں وہ بری ہو چکے، قتل کے مقدمے کو آگے بڑھانے پر کوئی آمادہ نہیں۔ سری لنکا اور بنکاک سے لے کر افریقہ کے دور دراز ممالک تک وہ پھیلے ہوئے ہیں۔ موقع ملے تو کسی وقت بھی قتل و غارت کا آغاز کر سکتے ہیں۔ سیّدنا فاروق اعظمؓ نے کہا تھا : مجرم پہ رحم کرنا‘ مظلوم کو سزا دینے کے مترادف ہے۔

وزارتِ داخلہ کے جاری کردہ ریڈ وارنٹ کا کوئی نتیجہ نکلے یا نہیں، حکومت پاکستان کو اپنی حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔ مجرموں کے لیے نرمی سے انکار مگر کراچی کے شہریوں کو ان کے تمام حقوق لوٹانے کا آغاز‘ عشروں سے جو چکی کے دو پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ سیاسی اور انتظامی اقدامات‘ جو اس شہر کا حق ہیں۔ دنیا کے بیشتر ملکوں سے جو بڑا ہے‘ ملک کی اقتصادی شہ رگ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دو کروڑ زندہ انسانوں کا مسکن ۔ کشمیر سے دوگنا۔
سندھ رینجرز کے سربراہ جنرل سعید نے کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کو بتایا کہ ان کے جانبازوں نے شہر کا امن بحال کر دیا ہے۔ بھتہ خوری‘ اغوا برائے تاوان اور تاک کر قتل کرنے کے واقعات میں بہت کمی آئی ہے۔ بجا ارشاد اور خاکی پوش اس پر پوری قوم کی طرف سے خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ شہر ان کا احسان مند رہے گا اور ملک بھی۔ مگر کیا یہ مسئلے کا حتمی حل ہے؟

خوف ایک ہتھیار ہے‘ ضرورت پڑنے پر سلیقہ مندی سے جو استعمال کیا جاتا ہے۔ مستقل طور پر اس کے بل پر کاروبار حکومت نہیں چلایا جا سکتا۔ بلکہ آئین کے تحت‘ اپنے اپنے دائرہ کار میں اداروں کی آزادی اور خودمختاری کے ساتھ۔

بہت سے قاتل مارے گئے مگر کراچی کی گلیوں میں جرائم اور بھی بڑھ گئے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ شہر کا پیکر علالت کا شکار ہے۔ اس کے مختلف اعضا اپنا فریضہ انجام نہیں دے رہے۔ پولیس بااختیار نہیں یا نالائق ہے۔ شہری حکومت تو واقعتاً بے بس ہے۔ چہ جائیکہ کہ آئین میں ترامیم کر کے مزید قوت بہم پہنچائی جاتی‘ پہلے سے طے شدہ اس کے حقوق بھی نوچ لئے گئے ہیں۔ بے بسی کے ساتھ اس کا منتخب میئر گلیوں‘ بازاروں میں کوڑے کے ڈھیروں سے الجھ رہا ہے۔ ایک ایسے شہر میں وسائل کی جس میں کوئی کمی نہیں اور جو پورے ملک کو پالنے میں مددگار ہے۔

آئی جی اے ڈی خواجہ نے فریاد کی ہے اور بالکل برمحل۔ ایک ایک کر کے 1995ء میں شہر کی حفاظت کرنے والے قتل کر دیئے گئے۔ پوری قوم تماشا دیکھتی رہی اور قاتل ایوانوں میں براجمان رہے۔ براجمان ہی کہاں رہے‘ دندناتے اور پورے ملک کو بلیک میل کرتے رہے۔ اخبار نویسوں نے ان کے قصیدے لکھے اور ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے بار بار ان سے گٹھ جوڑ کیا۔ بے چاری و بے کس عدلیہ تماشا دیکھتی رہی اور جمہوریت کے نام پر 72 ہزار معصوم شہری ہلاک کر دیئے گئے۔ خونِ خاک نشینان تھا رزقِ خاک ہوا۔

یاد ہے کہ کراچی کے ماہنامہ ہیرالڈ نے پولیس افسروں کے قتل کی نشان دہی کی اور نوائے وقت میں سید عباس اطہر مرحوم نے بھی۔ ایم کیو ایم کے صدر دفتر سے انہیں دھمکی موصول ہوئی۔ نواسوں کو قتل کرنے کی۔ یہ جنرل پرویز مشرف کا عہد تھا؛ اگرچہ اس سے پہلے 1997ء میں میاں محمد نوازشریف نے بھی 500 دہشت گردوں کو رہا کیا‘ 50 کروڑ روپے تاوان ادا کیا۔ پیپلز پارٹی تو خیر سے خود اس طرح کی کارروائیوں میں شامل تھی‘ اس کی پیپلز امن کمیٹی۔ غور فرمائیے‘ امن کمیٹی۔

بابا لاڈلا قتل ہو گئے‘ عذیر بلوچ گرفتار ہیں‘ الطاف حسین گنگرین اور جگر کے مرض میں مبتلا۔ سلیم شہزاد کینسر کا شکار۔ ان سب پہ اللہ رحم کرے مگر اس ملک پر بھی‘ اس کے مکینوں پر بھی ہمیں رحم کرنا چاہیے۔ ابھی تک الطاف حسین سے رابطہ رکھنے والے ایم کیو ایم پاکستان سے وزیراعظم کو کوئی پیمان نہ کرنا چاہیے۔ کراچی اور حیدرآباد کے معاملات، خَلق اگر انہیں سونپتی ہے تو اس کی مرضی۔ آئین جو اختیار انہیں دیتا ہے وہ انہیں ملنا چاہیے۔ سیاست کی انہیں پوری آزادی ہونی چاہیے۔اعتراض تو انتہاپسندی، ہڑتالوں اور دہشت گردی پہ ہے۔ کوڑے کے ڈھیر پیپلزپارٹی کے دور میں جمع ہوئے ‘ پانی کا مسئلہ اس کے عہد میں سنگین تر ہوا۔ سڑکیں اس دور میں تباہ ہوئیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سندھی جاگیردار اس شہر سے نفرت کرتے ہیں۔ کبھی اس کے مسائل حل نہ ہوں گے اور کبھی اس کی بے چینی تمام نہ ہو گی‘ مضبوط شہری حکومتیں اگر قائم نہیں ہوتیں۔ صرف کراچی اور سندھ کے دوسرے شہروں میں نہیں‘ ملک بھر میں۔ ایک دوسرا حل چھوٹے صوبوں کا قیام ہے، پوری دنیا کی طرح۔ مزید یہ کہ صوبائی دارالحکومتوں میں اختیارات اگر مرتکز رہیں گے تو اللہ کی مخلوق اسی طرح پستی رہے گی۔ صوبوں کا حق لوٹانے والے رضا ربانی کہاں ہیں؟ شہری حکومتوں کی محرومی پہ ان کا دل کیوں نہیں دکھتا۔ بلدیات کیوں یرغمال ہیں؟

اے ڈی خواجہ نے بتایا کہ سندھ پولیس میں 30 ہزار نئی بھرتیاں فوج کے تعاون سے ہوئیں اور ان کی تربیت بھی۔ وقت آ گیا ہے کہ بتدریج انہیں اختیارات بھی دیے جائیں۔ بالکل انہوں نے ٹھیک کہا کہ 1861ء کا ایکٹ ان کے ہاتھ میں تھما کر اکیسویں صدی کا نظام نہیں چلایا جا سکتا۔ کراچی تب مچھروں کی ایک بستی تھی۔ کھارادر اور میٹھادر سے کچھ ہندو مہاجن کشتیوں پر دساور کو مال بھیجا کرتے۔ لاہور کا گورنمنٹ کالج‘ پنجاب یونیورسٹی ‘ عجائب گھر ابھی تعمیر نہ ہوئے تھے۔لائل پور کی ابھی نیو تک نہیں رکھی گئی تھی۔ سرگودھا کا وجود ہی نہ تھا۔ پشاور سے کارواں وسطی ایشیا جایا کرتے۔ ملتان میں جسے مولتان کہا جاتا‘ سکھوں کے لگائے زخم مندمل ہو رہے تھے۔ یہ غیر ملکی آقائوں کا بنایا ہوا قانون تھا‘ رعایا کو خوف زدہ رکھنے کے لیے۔ ایک دوسرے نام سے 2002ء کا پولیس ایکٹ پختون خواہ میں نافذ ہو سکتا ہے تو پنجاب، سندھ اور بلوچستان ،کشمیر اور گلگت بلتستان میں کیوں نہیں۔کب تک پولیس حکمرانوں کی باندی رہے گی۔

سننے والے نہ سنیں تو ان کی مرضی، ملک نئے عمرانی معاہدے کے لیے بلک رہا ہے۔ جہاں تک اس شہر میں قیام امن کا تعلق ہے، 1992ء میں بھی ایک حد تک ہو گیا تھا اور 1995ء سے شروع ہونے والے آپریشن کے نتیجے میں جنوری1996ء میں تو پوری طرح۔ صرف پولیس اور آئی بی کے بل پر۔ صرف ایک ڈی آئی جی، وفاقی وزیر داخلہ اور سول خفیہ ایجنسی کی مدد سے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟

تفتیش کرنے والی پولیس (Prosecution) میں انقلابی تبدیلیاں درکار ہیں۔ عدالتوں کو موثر کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ حکومتیں اگر نہیں کرتیں تو عدلیہ کو خود بروئے کار آنا ہو گا‘ جس طرح جنونی ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ میں ۔

مجرم بھی وہی ہیں اور دشمن بھی وہی۔ ہم انہیں معاف کر بھی دیں تو وہ ہمیں معاف نہیں کریں گے۔ ایک جہد مسلسل ہی میں ہماری بقا ہے۔ ماضی کے ماتم میں نہیں‘ اس سے سبق سیکھنے میں۔ زخموں پر گریہ نہیں ‘ اس کے اندمال کی تدبیر میں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے