ہندو بنیا،پاکستانی مسلم اوریاجوج ماجوج

”بغل میں چھری اورمنہ میں رام رام “کا محاورہ اور ”ہندو بنیے“ کے الفاظ ایسے معروف ترین شاہکار جملے ہیں جو ملک پاکستان کا ہر بچہ امی ابو ،ماما،پاپاکے بعد بولنے کی کوشش کرتا ہے ۔ان الفاظ کی زبان سے ادائیگی کے اجر عظیم سے میں تو نا واقف ہوں مگر مذہبی طبقے کے جوش وولولہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان الفاظ کو اعلیٰ وارفع مقام حاصل ہے مجھے خود یہ علم نہیں کہ میں نے پہلی بار یہ متبرک جملے کب اور کیوں سنے تھے ۔

جب سے ہوش سنبھالہ تو ان جملوں کی زور وشور سے گونج سنی ۔شاید یہ گونج بڑی بہن اور بھائی کی درس کتابوں میں درج تھی جو روزانہ ہوم ورک کی تیاری کے دوران مجھ سمیت سب گھر والوں کو سناتے رہتے تھے۔ اس دور میں پرائمری کی سطح پر تحریری امتحان نہیں ہوتے تھے ۔زبانی امتحان کے باعث ”رٹہ “کی لت عروج پر تھی۔زبانی امتحان لینے والا اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر (اے ای او) ایک نقطے کی غلطی پر ہاں ،ہو ں کر کے طالبعلم پر بھر پور اثر انداز ہوتا تھا۔

درسی کتب میں جابجا بغل میں چھری والا محاورہ ہندوازم بلکہ ہندو بنیے سے جوڑ رکھا ہے۔ بچپن میں جب بھی یہ محاور پڑھا تو ہندو بنیے کو دیکھنے کا اشتیاق ہوا مگرملک خدادادپاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کسی ہندو کا نام و نشان تک نہ ملا ۔جب گاوں سے نکل کر شہر کارخ کیا تو پتہ چلا کہ شہر میں کبھی بہت ہندو آبادتھے بلکہ آدھے سے زیادہ شہر آج بھی ہندو وں اور سکھوں کی ملکیت ہے۔ انقلاب کے سال ان کو یہاں کے بہادروغیور عوام نے مار بھگایا اور اب وہی بہادر و غیور ان کی زمینوں پر قابض ہیں ۔

مکار ہندو بنیے کو پہلی بار ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھا گیا ۔بچپن کا زمانہ تھا اور ہم کر کٹ کے شہدائی ۔پاک بھارت کر کٹ میچ کے دوران میر ی نظر ٹنڈ ولکر کے رنز اگلتے بلے کے بجائے اس کی بغلوں پر ہی مرکوز رہتی کہ ابھی اس کی بغل سے چھری نیچے گرے گی ۔ ٹیسٹ کر کٹ کے دوران راہول ڈریوڈ کو بھی اس نظرسے دیکھتا رہا مگر میری تمام کوششیں ہربار ناکام سے دوچار ہوتی رہیں ۔

چند برس قبل اپنی زندگی میں پہلی بار ایک سکھ سے مصافحہ کیا ۔ایک ایسا انسان جن نے پیداہوتے ہی کافر کافر شیعہ کافر کے نعرے سنے ہوں اور وہ ایک سکھ سے ہاتھ ملائے تو اس کا ردعمل کیسا ہو سکتا ہے ۔بس میری بھی اس وقت یہ کیفیت تھی لیکن اس کے ساتھ ہی میں اس وقت حیرت کے سمندر میں غرق ہو گیا جب مجھے یہ پتہ چلا کہ پگڑی باندھے سکھ کیساتھ آنے والا مسلم نوجوان اس کا سگابھتیجا ہے اور یہ بوڑھا سکھ پچھلے کئی دنوں سے اپنے اسی مسلم بھتیجے کا مہمان ہے اور یہ ہر دو تین سال بعد اپنے بھائی بھتیجوں اور دیگر رشتہ داروں کو ملنے جموں سے مظفر آباد آتا ہے بلکہ یوں کہتے ہیں کہ وطن کی مٹی کھینچ کر لاتی ہے۔

حیرت انگیز انکشاف کومزید کھرچا تو گنڈا سنگھ سے الگ محاورہ وجود میں آیا۔جب 1947میں قبائلی لشکر نے کشمیر پر حملہ کیا تو بوڑھا سردار اس وقت کم سن بچہ تھا اور جان بچاکر بھاگنے والوں کے ساتھ سر ی نگر اور بعد ازاں جموں تک چلا گیا ۔کئی لوگ مارے بھی گئے لیکن مظفرآباد میں رہ جانے والے بھائی نے جان کی امان کیلئے اسلام کا راستہ چنا ۔ادھر سردارجی جموں میں جوان ہوئے، شادی کی ،بچے ہوئے مگر اپنوں کی تلاش جاری رکھی، آخر کاروہ اپنے بھائی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

ایک ایسا ہی حیرت انگیز انکشاف مجھے وفاقی اردو ریو نیورسٹی کر اچی میں ہو ا ۔ چلاس سے تعلق رکھنے والا میر ایک دوست امتیاز بھٹو میر ے ہمراہ راہ چلتے ہو ئے ایک لڑ کے سے ملا ، مقامی زبان میں دعا سلا م کر نے کے بعد ہم چل دیے تھو ڑا آگے جا کر امتیا ز بھٹونے گالی دے کر کہا کہ یہ میر ا کزن تھا اور یہ کافر ہے۔ یہ الفاظ سنتے ہی میں نے حیر ت سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے میر ی حیرانگی دور کر نے کیلئے کہاکہ یہ شیعہ ہے اور میں شیعہ نہیں ۔ ہم آپس میں ما موں زاد اور پھوپھی زاد بھائی ہیں ۔ میرے مز ید سوالات پر بتایا کہ پہلے وقتو ں میں شیعہ سنی کا کو ئی تنازعہ نہیں تھا ۔ آپس میں رشتہ داریاں ہو تیں تھی یہ تنا ز عہ ضیاءالحق کے دور میں شروع ہو ا ۔ جب چلاس کے لوگوں کو جہاد کے نام پر جمع کر کے استوارمیں شیعہ مسلمانوں کا قتل عام کر ایا گیا اس کے بعد سے خو نی رشتے بھی کا فر بن گئے ہیں۔

خیر بات ہند و بننے سے بڑھ کر کہا ں سے کہاں نکل گئی ۔بچین سے لے کر آج تک ہندو بنیے کو دیکھنے کا شو ق رہا ۔ یہ آرزو گز شتہ برس لاہور آمد کے موقع پر ختم ہو ئی ۔ ویسے کراچی ”میں مجھے کسی نے بتا یا تھا کہ ریلو ے لا ئنوں کے ارد گر د جھگیوں میں رہنے والے ہندو اور عیسائی ہی ہیں مگر انہیں دیکھ کر میری تشنگی کی تسکین نہیں ہو ئی ۔ ایک تو یہ انداز ہ ہی نہیں ہو تا تھا کہ یہ ہندو ہے یا مسیحی ۔ دو سرا وہ عام سے انسان تھے ۔ ان میں مکاری تھی اور نہ ہی کسی کی بغل میں چھڑی تھی ۔ خواتین پو پھٹتے ہی بھیک مانگنے نکل جا تی تھی اور سارا دن کراچی کی ما رکیٹوں سے ایک ،دو روپے جمع کر کے سر شام واپس جھگیوں میں چلی جا تی تھیں ۔

گز شتہ بر س جب کشمیر سے لاہور آیا تو میر ے محسن نے پہلی ملا قات ہی ایک ہندو سے کر ادی بلکہ یوں کہے کہ میر امحسن مجھے ہند و کے حوالے کر کے خو د چلا گیا ۔ رات کا سفر کر کے صبح جب لاہور پہنچا تو میر امحسن مجھے ہاسٹل میں ٹھہر ا کر کام پر چل دیا اور جاتے ہوئے مجھے تا کید کی کہ دن کو ایک نو جوان تمہیں لینے آئے گا اس کے ساتھ دفتر جا کر انٹرویو دینا ۔سفر کی تھکاوٹ اور نیند پوری کر کے جب دن کو بیدار ہو ا تو اپنے محسن کو یاد کر ایا کہ اب میں ہر طرح سے تیا ر ہوں ۔میرے محسن نے کہا کہ بس تھو ڑی دیر میں ایک لڑ کا آئے گا اس کے ساتھ چلے جا نا وہ دن اور آج کا دن لاہور میں جہاں کہیں جا نا ہو وہی ہند و بنیا میر اہمسفرہو تا ہے ۔

ملک خداداد پاکستان کی سرکاری پالیسی کے تحت نصاب تعلیم میں یہ بات شامل ہے یہ کہ ہندو ہمارا ازلی وابدی دشمن ہے اور اس دشمنی کو جذبات کا تڑکا لگانے کے لیے ”ہندوبنیے“ اور ”بغل میں چھری اور منہ میں رام رام “کی گردان رٹائی جاتی ہے ’الامے‘(علم و عقل سے خالی انسان)اس پالیسی کے حق میں طرح طرح کی تاویلیں پیش کرتے ہیں ۔قرآن مجید میں یہود وانصاریٰ کا ذکر ہے کہ یہ تمہارے دوست نہیں ہوسکتے مگر ہندو سے دشمنی اور نفرت سمجھ سے بالا ہے۔

پنجاب سے شائع ہونے والی درسی کتب میں مکار ہندو بنیے کے بعد سب سے زیادہ کشمیر کے حوالے سے ہونے والے معاہدہ امر تسر کا ذکر ملتا ہے ۔پہلی کلاس سے لیکر ایم اے تک مسئلہ کشمیر پر مضمون کا متن ایک جیسا ہی ہے ۔

ملک خدادار پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر و فاٹا میں بھی یہی سر کاری مسئلہ کشمیر ذہنوں میں ٹھونساجاتا ہے ۔مضمون کے آغازمیں معاہد ہ امر تسر میں کشمیریوں کی خرید وفروخت کا بڑا چرچہ کیا جاتا ہے مگر لاہور سے شائع ہونے والی ان درسی کتب میں معاہدہ امر تسر کی تاریخ کیساتھ ساتھ معاہدہ لاہور میں ہونے والی پنجابیوں کی خرید وفروخت سے مکمل لا علم رکھا جاتا ہے ۔بد ترین تاریخی تخریب کاری کرنے والے” ہندو بنیے “ہیں یا مسلمان؟ ابھی تک اس پر تحقیقات جاری ہے۔

بھارت میں پانچ لاکھ مسلم خواتین ہندو وں کے عقد میں ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں ہندو لڑکیوں سے مسلمانوں نے نکاح کر کے دائرہ اسلام میں لایا ہے ۔بھارت کا مسلمان داڑھی بھی رکھتا ہے،نماز پر بھی پابندی نہیں ۔ دارالاسلام کی دوسر ی طرف چین میں مسلمان بد ترین ریاستی ظلم و جبر کا شکار ہیں ۔مسلمانوں کے داڑھی رکھنے، نماز،روزے پر بھی پابندی عائد ہے ۔مگر کیا مجال مذہبی ”الامے “چین کیخلاف ایک لفظ بھی زبان پر لائیں۔ان کا دانا پانی تو بھارت، اسرائیل اور امریکہ کو گالیاں دینے سے جڑا ہے یا پھر امریکی ڈالر سے جہادی بنانے اور پھر ڈالروں سے ان جہادیوں کو ختم کرنے کا فریضہ بھی سر انجام دیا جاتا ہے ۔

بعض ”الامے “مذہبی روایات کے مطابق چین کو یاجوج ماجوج کی نسل قرار دے رہے ہیں مگر ان کئ خلاف ”جہاد” کرنے سے فی الحال انکار ی ہیں ۔کیونکہ ابھی تک بیجنگ اور اسلام آباد کے تعلقات خوشگوار ہیں اور یاجوج ماجوج کی نسل زیر زمین ٹنل نکال کر ہائیڈوپاور پراجیکٹ اور پہاڑوں میں سرنگیں کر کے سڑکوں کی تعمیر جار ی رکھے ہوئے ہے۔جب تک چین کے ساتھ معاشی مفادات جڑے ہیں تب تک یاجوج ماجوج کی نسل قابل احترام ہے اور جب یہ معاشی مفادات اختلافات میں بدلیں گے تو یہی یاجوج ماجوج قابل گردن زنی قرار پائیں گے۔

شاید آنے والی صدی میں پنجاب سے شائع ہونے والی درسی کتب میں”بغل میں چھری اور منہ میں رام رام “۔”ہندو بنیے “کی جگہ یاجوج ماجوج نے لی ہوگی۔لیکن معاہدہ لاہور میں ہونے والی خرید و فروخت کوتاریخی اوراق سے اوجھل ہی رکھا جائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے