سرتاج عزیز: بحرہ ہند میں جوہری پھیلاؤ خطے کو مزید غیر مستحکم کررہا ہے.

کراچی: وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستان بحر ہند میں امن کو لاحق بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا، جہاں ہندوستان نے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی ابتدا کی ہے۔

انھوں نے ان خیالات کا اظہار میری ٹائم سیکیورٹی کے حوالے سے ہونے والی ایک کانفرنس میں کیا جس میں انھوں نے عسکریت، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاؤ، میزائل صلاحیتوں میں اضافے، غیر ملکی افواج کی طرف سے توانائی کے اخراج اور اس کے علاوہ قذاقی، غیر قانونی ماہی گیری، انسانی، منشیات اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ، سمندری آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کو سمندری امن کیلئے درپیش چیلنجز کا ذمہ دار قرار دیا۔

کانفرنس کا موضوع ‘بحر ہند کے خطے میں اسٹریٹجک آؤٹ لک، 2030 اور اس کے بعد — چیلنجوں اور حکمت عملی وضع کرنے کے حوالے سے بین الاقومی میری ٹائم کانفرنس’ تھا جس میں انھوں نے خبردار کیا کہ ‘اس رجحان میں آئندہ سالوں میں اضافہ ہوگا’۔

انھوں نے کہا کہ ‘ہم اپنے قومی مفاد سے بخوبی واقف ہیں اور اپنی صلاحیت کو مزید مضبوط کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں گے، ہم میری ٹائم سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں، ہمارے لیے، بحر ہند میں ہونے والی پیشرفت سے غافل رہنا ممکن نہیں’۔

خیال رہے کہ پاکستان نے گذشتہ ماہ آبدوز سے فائر کیے جانے والے اور جوہری ہتھیار سے لیس کروز میزائل ‘بابر تھری’ کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔

اس تجربے کے حوالے سے عسکری ماہرین کا کہنا تھا کہ بھارت کے بڑھتے ہوئے ‘بے قابو عزائم’ کی وجہ سے ایسا کرنا ضروری تھا۔

اس سے قبل ہندوستان نے گذشتہ سال اپنی جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوز آئی این ایس آریہانت سے جوہری مواد لے جانے والے بیلسٹک میزائل ‘کے فور’ کا تجربہ کیا تھا۔

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ بحرہ ہند میں جوہری پھیلاؤ خطے کو مزید غیر مستحکم کررہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے کہ خطہ پُر امن رہے کیونکہ اس کی 95 فیصد تجارت سمندر کے ذریعے ہوتی ہے اور اس کی 1000 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ہے، 300000 مربہ کلومیٹر کا اقتصادی زون، کراچی پورٹ اور حال ہی میں مکمل کیا جانا والا گہرے سمندر کا گوادر پورٹ بھی شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘سر کریک میں سرحدی حد بندی نہ ہونے کی وجہ سے میری ٹائم سیکیورٹی کو مشکلات کا سامنا ہے’، ‘ہمیں اپنے سمندری یا زمینی مفادات کا دفاع کرنے کیلئے ہمارے کھلے سمندر میں نیوی کی مناسب موجودگی کو یقینی بنانا ہوگا’۔

انھوں نے کہا کہ پاکستانی تشویش کی وجہ بھارتی نیوی میں ہونے والی توسیع ہے،’بحرہ ہند کے خطے کی سیکیورٹی اور پُر امن نیوی گیشن میں پاکستان بھی حصے دار ہے۔

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ‘ہم خطے کی اقتصادی صلاحیت سے بخوبی واقف ہیں، دنیا کا تیسرا بڑا سمندر، جو 30 ممالک کی ساحل کے ساتھ منسلک ہے، بحرہ ہند کو نا صرف ایشیا، خاص طور پر جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے بلکہ یہ آسٹریلیا اور یورپ کو بھی ملاتا ہے، تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان سیکیورٹی اور تحفظ کیلئے اس سے قبل مستقل رابطے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی’۔

انھوں نے دہرایا کہ دنیا کے 55 فیصد تیل اور 40 فیصد گیس کے ذخائر اس خطے میں موجود ہیں۔

اس سے قبل بحریہ یونیورسٹی میں ہونے والی تین روزہ ساتویں بین الاقوامی میری ٹائم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آزاد جموں اور کشمیر کے صدر سردار مسود خان نے کہا کہ جموں و کشمیر کا تنازع خطے کے معاشی اور دفاعی توازن پر اثر انداز ہورہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر اس تنازع کو پُر امن طریقے کشمیری عوام کی اُمنگوں کے مطابق حل نہیں کیا گیا تو یہ مسئلہ خطے میں بڑے تنازعات اور کشیدگی کی وجہ بن سکتا ہے، پاکستان کی دوطرفہ مذاکرات میں سنجیدگی کے باوجود بھارت کی ہٹ دھرمی کے باعث ان مذاکرات سے نتیجہ حاصل نہیں ہوپایا’۔

انھوں نے تجویز پیش کی کہ پاک چین اقتصادی راہداری سے فائدہ اٹھانے کیلئے پاکستان کو مزید دو ذیلی راہداریوں پر کام کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پہلا ذیلی روٹ پاکستان سے مغربی ایشیا اور افریقہ تک منسلک ہونا چاہیے اور مغربی ایشیا راہداری ایران کے ذریعے وسطی ایشیا اور ماسکو یا ایران کے ذریعے ترکی سے یورپ کو منسلک کرسکتی ہے جبکہ دوسری ذیلی راہداری عرب ممالک سے گزر کر افریقہ تک جاسکتی ہے’۔

اس موقع پر چیف آف نیول اسٹاف ایڈ مرل محمد ذکاء اللہ نے بحرہ ہند میں امن اور استحکام کے حوالے سے پاکستان نیوی کی جانب سے کی جانے والی کوششوں پر روشنی ڈالی۔

انھوں نے کہا کہ سی پیک اور گوادر پورٹ کی وجہ سے ملک کے ساحلی علاقوں میں میری ٹائم کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوجائے گا، اور اس کے ساتھ ہی میری ٹائم سیکیورٹی کے حوالے سے پاکستان نیوی کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جائیں گی’۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹاسک فورس 88 کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے