پی۔ایس ایل ۔۔۔ پاکستانی کرکٹ کی نشاۃ ثانیہ

پاکستانی عوام کی کرکٹ سے دلچسپی اور محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ یہ کھیل پاکستان میں کھیل کی حد سے آگے بڑھ کر نوجوانوں میں جنون کی شکل اختیار کرگیاہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کے سیاسی اور جغرافیائی حالات کے پیشِ نظر یہاں پر کھیلوں کے میدان تقریبا ویران ہوتے چلے گئے۔دیگر اداروں کی نااہلی کا سایہ کھیل کے اداروں پر بھی منڈلانے لگا۔ اور رفتہ رفتہ پاکستان دیگر کھیلوں کے علاوہ اپنے قومی کھیل ہاکی اور سکوائش کی بین الاقوامی شہرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ایسے حالات میں کرکٹ کے میدانوں کو بھی جیسے کسی کی نظر لگ گئی۔ اور کچھ اپنوں کی کوتاہیوں اور کچھ غیروں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے با لاخر کرکٹ کے میدان بھی سنسان ہونے لگے ۔

بین الاقوامی کرکٹ جیسے پاکستان سے روٹھ سی گئی۔ اور یوں پاکستانی شائقین عرصہ دراز سے متحدہ عرب امارات کے میدانوں میں اپنے سپر سٹارز کو دیکھنے پر اکتفا کرنے لگے ۔ لیکن دسرے کھیلوں سے مختلف کرکٹ بورڈ نے ایک نئے عزم اور نئے حوصلے کے ساتھ مسٹر نجم سیٹھی کی قیادت میں پاکستانی میدانوں کو ایک بار پھر آباد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔بے جا نہ ہوگا اگر یہ کہا جائے کہ اس کارِ گِراں کا بوجھ نجم سیٹھی نے اپنے کندھوں پر لے لیا۔ اور آج انکی ہمت اور عزم و حوصلے۔ کو ایسے موقع پر جبکہ پی۔ ایس۔ایل اپنے دوسرے سال میں بڑی کامیابی کے ساتھ داخل ہوچکا ہے۔کو خراجِ تحسین پیش نہ کرنا قرین انصاف نہ ہوگا۔اس سفر کے آغاز میں اندیشے بھی تھے اور تحفظات بھی۔۔ مایوسی اور ناکامی کا ڈر بھی تھا اور راستے کی مشکلات کا ادراک بھی ۔۔ لیکن کہتے ہیں کہ جب انسان کی نیت صاف اور عزم پختہ ہو تو منزل کو پا لینا آسان ہوجاتا ہے ۔ 

آج پاکستان کرکٹ بورڈ اور خصوصا محترم نجم سیٹھی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ دیارِ غیر میں ایک ایسے ایونٹ کا آغاز کرانا اور پھر اُسے کامیاب بنانا ۔۔ یقیناًآسان نہیں۔یہ اس محنت کی کامیابی ہے۔ کہ دبئی کے میدانوں میں اپنی ٹیموں کو سپورٹ کرنے کے لئے صحافت، فلم اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے افراد اپنی عوام کے بیچ پائے گئے۔ پشاور زلمئے کے حوصلے بڑھانے میدان میں محترم سلیم صافی نظرآئے ۔ اور لاہور قلندر کی سپورٹ میں جناب حامد میر اور رانا جواد لوگوں کے درمیان موجود تھے۔ اپنے عوام میں خوشیاں بانٹنے علی ظفر ، شہزاد رائے اورفہد مصطفے جیسے ہر دلعزیز فنکار بھی پی۔ ایس ۔ایل کی افتتاحی تقریب میں موجود تھے۔ 

ابھی یہ ٹورنامنٹ کامیابی سے دبئی اور شارجہ کے میدانوں میں شروع ہوچکا ہے ۔ جسکا فائنل لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں کھیلا جائیگا۔ جو کہ انشاء اللہ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے بند دروازوں کو کھولنے میں سنگ میل کا کردار ادا کرے گا۔ اسکے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانیوں کے لئے بھی یہ پاکستان کرکٹ بورڈ اور نجم سیٹھی کا ایک لاجواب تحفہ ہے۔ یہاں پر کھیل کے ساتھ ساتھ میں پشاور زلمئے کے چئیرمین جناب جاوید آفریدی کے اس مستحسن اقدام کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جب اس نے اپنے زلمئے کی کٹ ان ویلنگ پروگرام کو کسی بڑے ہوٹل یا پُر تکلف مقام پر کرنے کی بجائے شوکت خانم میموریل ہسپتال میں منعقد کردیا۔ 

اور اس سے آگے اسکی انسان دوستی اور کرکٹ کو محبت اور وطن دوستی کے جذبے کو اُجا گر کرنے کے لئے استعمال کرنے کی سوچ کو یقیناًہر محبِ وطن پاکستانی عزت اور احترام کی نظر سے دیکھے گا۔کیونکہ پچھلے سال آرمی پبلک سکول کے بچوں کی طرح جناب جاوید آفریدی نے اس سال شوکت خانم کے کینسر میں مبتلاء بچوں کو دبئی لا کر انکے چہروں پر خوشیان بکھیرنے کی کوشش کی ہے۔ 

یقیناًجاوید آفریدی کا یہ اقدام پی۔ ایس۔ ایل کی دوسری ٹیموں کے لئے قابلِ تقلید اور قابلِ رشک ہونا چاہئے۔ کہ ہم کیسے کھیل کے میدانوں میں رہ کر اپنے ملک و قوم کے مایوس اور تکلیف زدہ طبقے کو زندگی کی خوشیوں میں شامل کرسکتے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کے سُونے میدان ایک بار پھر آباد ہونگے۔ کرکٹ بورڈ کی یہ جدوجہد اور محترم نجم سیٹھی کی یہ شبانہ روز کاوشیں ضرور رنگ لائیں گی۔انشاء اللہ یہ ٹورنامنٹ پاکستانی کرکٹ اور پاکستانی شائقین کا ایک مثبت پیغام دنیا کو دیگا۔ یہ ہماری امن پسندی اور کرکٹ سے محبت اور کرکٹ کے میدانوں کو آباد دیکھنے کی خواہش کا ایک بہتر ذریعہ ثابت ہوگا۔پشاور زلمئے، لاہور قلندر، کراچی کنگز، کوئٹہ گلیڈیٹر اور اسلام آباد یونائیٹڈ پاکستانی کرکٹ کی نشاۃ ثانیہ کے معمار ثابت ہونگے۔ اور توقع یہ ہے کہ اگلے سال اس تعداد میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوگا۔ اور انشاء اللہ اگلے سال کا پورا پی۔ایس۔ایل پاکستان کے سر سبز و شاداب میدانوں کو رونق بخشے گا۔ یہی پاکستان کرکٹ بورڈ اور محترم نجم سیٹحی کا خواب اور یہی پاکستان کے عوام کی آرزو ہے۔لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے ابھی بے انتہاء محنت اور جدو جہد کرنا باقی ہے۔ٓ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے