وزیراعظم آزاد کشمیرکی خدمت میں

راجہ فاروق حیدر کے مخالفین بھی برملا یہ کہتے تھے کہ وہ جرات مند، عملی اقدامات کرنے والے اور ایسے راہنما ہیں جن کے دامن پر کسی طرح کی مالی بددیانتی کا کوئی دھبہ نہیں۔ دو ہزار دس میں ان کو بطور وزیراعظم چند ماہ کام کرنے کا موقع ملا۔ نادیدہ قوتیں فاروق حیدر کی بجائے اس وقت عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کی پشت پر مضبوطی سے کھڑی تھیں۔ ایسا عادل جسکے عدل نہیں بداعتدالیوں اور ظلم وجبر کے قِصے زبانِ زدِعام تھے۔ جو شُترِ بے مہار بن کے نظامِ عدل کو تہہ و بالا کر رہاتھا۔ فرعون کیلئے موسیٰ کی مِثل فاروق حیدر چیف جسٹس ریاض اختر کے لئے آسمانی آفت بن کے نازل ہوئے اور آزاد کشمیر کے لوگوں کو "بونے عادل” سے چھٹکارا دلا کے رخصت ہو گئے۔جناب فاروق حیدرکا یہ جرات مندانہ کارنامہ تادیر یاد رکھا جائے گا۔

مسلم لیگ ن کو آزاد کشمیر میں توقع سے زیادہ نشستیں ملنے کی ایک بڑی وجہ وفاق میں میاں نوازشریف کی حکومت کی موجودگی ہے’ مگر فاروق حیدر کی جرات مندی اور دیانت داری نے بھی اہم کردار ادا کیا۔انتخابات کے دوران لوگ سمجھتے تھے کہ میاں نواز شریف ‘ فاروق حیدر کی بجائے کسی اور کو وزارتِ عظمیٰ کا قلمدان سونپیں گے اس وقت بھی لکھاتھا کہ "بولتا پاکستان ” اِس قدر بھی اہم نہیں کہ میاں صاحب ایساغیردانش مندانہ فیصلہ کریں۔

آج بھی کہتا ہوں کہ فاروق حیدر کیخلاف سازش کِرمانی کرے یا آزاد کشمیر کا کوئی چوہدری یا پِیر انکی دال نہیں گلے گی۔مگر خوگرِحمد سے تھوڑا سا گِلہ بھی سن لے کے مِصداق راجہ فاروق حیدر خان آپ سے اِن سطور میں کچھ گزارشات کرنی ہیں۔ امید ہے ہمارا کہا نِقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت نہیں ہوگا۔راجہ صاحب دیانتداری قابل توصیف عمل ہے اِس پر کوئی سمجھوتہ نہ کیجئے گا مگر حضور والا اِس وصف کو اگر بیج کانام دیا جائے تو کارکردگی اور منصفانہ معاشرے کے قیام کو تناور درخت و فصل قراردیا جائے گا۔ راجہ صاحب اِسی بیج کی قدر کی جاتی ہے جِس سے کوئی لہلہاتی فصل تیار ہوسکے۔ بصورت دیگر دانہ تو زمیں میں ہی کہیں گم ہو جاتا ہے۔ اِس قلم کار کا خیال تھا کہ حکومت کی سو دِنوں کی کارکردگی سے متعلق آپ قومی ذرائع ابلاغ کے زریعے لوگوں کو آگاہ کریں گے۔ مگرمولاناروم نے کہا تھا”
ایں خیال است و محال است وجنوں

( یہ خیال تو محض پاگل پن اورناممکن ہے )۔یک صد کی بجائے دوصد سے زائد دن گزرگے آپ نے عوام کو اپنی حکومتی کارکردگی سے آگاہ نہیں کیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کارکردگی دکھانے کوکچھ بھی نہیں اور آپ بھی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر چل رہے ہیں۔امید ہے حِزب اختلاف کے دِنوں اور انتخابات کے موقع پر کئے گئے اعلانات آپ بھولے نہیں ہونگے۔آپ نے تو کہاتھاتحریکِ آزادی کشمیر آپ کی ترجیح اول ہو گی۔ آپ نے جائزہ لیا کہ پچھلی حکومتوں کے بر عکس تحریک آزادی کشمیر کیلئے آپ نے کیا اقدامات کئے جِس سے عام آدمی محسوس کرسکے کہ یہ ہے آزادی کے بیس کیمپ کی حکومت جِس نے اقتدار میں آتے ہی انقلابی تبدیلیاں عمل میں لائیں۔ ؟؟

مگر سچ تو یہ ہے کہ آپ کے ممدوح وزیراعظم پاکستان مظفرآباد میں کشمیر کونسل کے اجلاس کے موقع پر منہ میں گنگنیاں ڈالے بیٹھے رہے اور ایک لفظ تک زباں پر نہ لائے۔ پانچ فروری کو کڑکتی دھوپ میں موصوف خرابیء موسم کا بہانہ بنا کر آزادکشمیر نہ گئے۔ اور جناب آپ تو برطانیہ تھے آپ کے قائمقام وزیراعظم تو دور کِسی ادنیٰ وزیر کو اسلام آباد میں کشمیر کے حوالے سے امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کی منعقدہ کل جماعتی کانفرنس میں شِرکت کی توفیق نہ ہوئی۔

درحقیقت آپ کے لوگوں کے لئے کشمیر کے لوگوں سے زیادہ کِرمانی کی خوشنودی حاصل کرناضروری تھا۔ اور آپ کی غیر موجودگی میں یار لوگوں کو کِرمانی کی وفاداریوں کے اظہارکاخوب موقع مِلا۔آپ نے ایکٹ انیصد چوہترکے خاتمے کا اعلان کیا تھا، ہم خاتمے کے حق میں تو نہیں مگر اس میں تبدیلیوں کی تو اشدضرورت ہے۔ہماری یاداشت اگر کمزور نہیں تو وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے دو ماہ بعد بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی پرزور بات بھی آپ ہی نے کی تھی۔ اب مئی میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ہے دیکھتے ہیں کہ یہ بیل منڈھے چڑھتی ہے یا نہیں ؟ ۔

وزارت امورکشمیر کو بند اور پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کی بارہ نِشستوں کے خاتمے کا ببانگِ دھل اعلان بھی تو تحریک آزادی کشمیر کے راہنما راجہ حیدرخان کے فرذندِارجمند نے نہیں کیا تھا؟ ترجیحات میں تحریک آزادی کے بعد اچھی اور مُنصِفانہ حکومت کا قیام بھی آپ ہی کا دعویٰ تھا۔

عوام کی اکثریت کی طرح ہم بھی سلطان راہی کی طرح بڑکیں مارنے والے نہیں ایک جرات مند اور عامِل فاروق حیدر کو جانتے تھے۔ جِس نے منگلاڈیم کی رائلٹی بھی وفاق سے حاصل کرنا تھی مگر آنکھیں دلیر فاروق حیدر کے دیدار کو ترس گئیں۔عمر، عِلم اور تجربے میں آپ ہم سے بہت آگے ہیں مگر جان کی پاؤں اماں تو گزارش ہے کہ حضور ان چھ ماہ کی فردِاعمال سے عیاں ہوتا ہے کہ جس نظام کی تبدیلی کی عمارت آپ نے تعمیر کرنا تھی اس کی تو خِشت اول بھی کہیں نصب نہ ہو سکی۔

حِزبِ اختلاف کی مسند پر تو وہ براجمان ہوئے جن کی خاتون ممبر کے لئے حکومتی بنچوں سے ووٹ ڈالے گے۔اس لئے دوستانہ حِزب اختلاف والے حکومت کی گردن کیوں ناپیں گے؟وہ جو اسمبلی میں نہ ہونے کے باوجود حِزبِ اختلاف کی ایک توانا قوت ہوتے تھے اقتدار کی غلام گردشوں نے انکا گلا بھی دبا دیا اب کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اﷲ ۔

پبلک سروس کمیشن کے ممبران کے بدلے جانے سے اصلاح احوال تو ممکن نہیں اور یہ بات ہم نہیں کر رہے بلکہ آپ کی حکومت کے سینئر وزیر صاحب نے سماجی رابطے کے اپنے اکاؤنٹ پر اس کا رونا رویا۔سماجی رابطے کے اکاؤنٹ پر زیرک چوہدری صاحب نے ایک تیر سے دو شکار کئے۔ اپنے حلقے کے پڑھے لکھے نوجوانوں پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ پبلک سروس کمیشن کے بوسیدہ نظام کے آگے بے بس ہیں اور ان کو ملازمتیں دلوانے کے سِلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پبلک سروس کمیشن کو بھی دباؤ میں لا کر تحریری امتحان میں 401نمبر حاصل کرنے والے امیدوار کی بجائے387 والے کو انٹرویو میں 14نمبرات دلوا کر بھرتی کروا لیا۔

پبلک سروس کمیش کے خلاف عذر داری کے لئے بہترین فورم عدالتِ عالیہ تھی کہ جہاں معاملہ لے جایا جاتا اور پھر جج عدالت عالیہ پر مشتمل کمیشن اس عذرداری پر فیصلہ کرتا مگر راتوں رات اس تجویز کو بدل دیا گیا۔اب تھانیدار اپنے خلاف شکایت کی انکوائری بھی خود ہی کرے گا ۔ راجہ صاحب بد سے بدنام برُا کے مصداق ایک خاص قبیلے کے افراد کو نوازے جانے سے متعلق سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر جو زبان آپ کے خلاف استعمال ہو رہی ہم اس کا عشرِعشیر بھی یہاں نقل کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ طارق شُعلہ کی بطور سیکریٹری حکومت تقرری اور اپنی بہن محترمہ نورین عارف کو اہم وزارت دے کر آپ نے سماجی صفحات کو اپنے خلاف پرُ کروادیا۔

جناب وزیر اعظم آپ نے اہلیت (Merit)پر نظام کار چلانے کی بات کی تھی مگر حقائق اس کے برعکس نظر آرہے ہیں۔ اہلیان میرپور نے منگلاڈیم کی تعمیر ہو یا اب اپ ریزنگ ، ہر موقع پر قربانیاں دیں۔ پاکستان کے زرِمبادلہ میں ایک بڑا حصہ میرپوریوں کا ہے( اس سے متعلق ایک مکمل کالم کی الگ سے ضرورت ہے ) چوہدری سعید نے ایک بڑے سیاسی بُرج کو شکست دی تھی ، اس لحاظ سے بھی میرپور کے حصے کوئی اہم وزارت آنی چاہیئے تھی۔ مگر کِرمانی کی پسندیدہ خاتون کے تجویز کنندہ بننے کی سزا کے طور پر آپ نے چوہدری سعید کو پہلے مرحلے میں وزیر کے قابل ہی نہ سمجھا اور دوسرے مرحلے میں نمائشی محکموں کا وزیر بنادیا۔ جناب اہلیت کی بات کی جائے تو آپ کی محترمہ بہن کو بڑی سے بڑی وزارت سماجی بہبود کی دی جاسکتی تھی۔ صنعتوں کی وزارت کے لئے تواہل ترین فرد چوہدری سعید ہی ہیں۔

آخری نہیں مگر آخر میں گزارش ہے کہ ادارہِ ترقیات میرپور میں لوگوں کے اربوں ڈوب رہے ہیں ، کئی ماہ سے کوئی کام سرانجام نہیں پارہا ایسے معاملات زندہ لوگوں کی دھرتی راولاکوٹ والوں کو درپیش ہوتے تو کیا آپ کا رویہ ایسا ہی ہوتا؟

جنابِ فاروق حیدر بڑے ادب سے گزارش ہے کہ جس تیزی سے برف پگھلتی ہے اسی طرح وقت بھی تیزی سے پِھسل رہا ہے۔ ہزاروں لاکھوں لوگ رِزق خاک ہو گے جن کا کوئی نام لیوا نہیں۔ تاریخ میں وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو اپنے کہے کی لاج رکھیں۔ آپ تو فاروق بھی ہیں اور حیدر بھی ۔ تاریخ اسلام کی دوتابندہ شخصیات جناب فاروقِ عادل کی طرح مُنصف اور حیدر کرار کی طرح دلیر حکمران بن کر اپنی دنیا وآخرت سنوار لیجئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے