سوشل میڈیا کی صحافت

صحافت معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ کہلایا جاتا ہے مگر جب سے نئی ٹیکنالوجی میدان میں آئی ہے صحافت میں تیزی آئی ہے اور اس کے اقدار بھی تبدیل ہوگئے ہیں پرنٹ میڈیا کے بعد براڈکاسٹ میڈیا پھر الیکٹرانک میڈیا تک کا سفر ابھی اختتام پذیر نہیں ہوا تھا کہ 2004میں سوشل میڈیا کی ابتدا ء ہوگئی مگر2015میں اس میں مزید تیزی ہوگئی اوراس میں نئی نئی جہتیں متعارف ہوگئیں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوگئے، معلومات کا ایک نہ تھمنے کا طوفان آگیا لوگ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے بعد سوشل میڈیا کے ایڈیکٹ ہوگئے اور اس بات میں کوئی عار نہیں کہ اس نئی میڈیا کے آنے کے بعد ہر کوئی صحافی بن گیا ۔

فیس بک اور ٹوئیٹر سمیت لنکڈان ، انسٹاگرام اور دیگر سافٹ وئیر نے صحافت کی دنیا میں ایک انقلاب کا اغاز کردیا صحافت کے بارے میں عوام کی یہی رائے ہے کہ یہ معلومات حاصل کرنے کا واحد طریقہ ہے اسکے مقا صد میں عوام میں انصاف اور جمہوریت کے بارے میں شعور اجاگر کیا جانا شامل ہے۔مگر اب اگر دیکھا جائے تو صحافت میں ہر کوئی آگیا ہے ۔ اور یہ سب اس نئی ٹیکنالوجی کی بدولت ہے جس کے پاس سمارٹ فون اگیا وہ صحافی بن گیا ہے الیکٹرانک میڈیا میں اینکر پرسن کا نظریہ بنا اور ہر چینل پر تجزیہ نگار بیٹھ گئے جس کو تھوڑا بہت سیاسیات ،قانون ،معا شیات اور ثقافت کا بھر پور علم ہوا وہ بہترین صحافتی کے اقداروں میں شامل ہوگیا اور لوگوں پر اپنی علمیت کا دھاک بیٹھا دیا مگر جب فیس بک وٹس اپ گروپ کے ساتھ اشتراک کیا اور اپنی سروس مزید بہتر کرنے کے لئے کوشش کی تو لوگوں نے اسے ایک بہترین کاوش قرار دیا اور سب لوگ فیس بک کے بعد وٹس اپ پر بھی آگئے اور معلومات عامہ کو عام کرنے کے لئے اپنی طرف سے نئی صحافت کی ابتداء کردی ۔

وٹس اپ گروپس بن گئے جس میں ایک صحافی ایونٹ کو کور کرنے کے لئے جاتا ہے اور سیکنڈ میں تصویر ویڈیو سمیت گروپ میں ڈال کر سب صحافی دوستوں کے لئے راہ ہموا ر کردیتا ہے جس کے لئے انہیں فیلڈ میں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی اور فیس بک کی بدولت تو کام اور بھی آسان ہو گیا پشاور میں اس وقت وٹس اپ گروپس کی تعداد دو درجن سے زیادہ ہوگئی ہے جس میں چوبیس گھنٹے خبریں ہی خبریں ہوتی ہیں اس کے برعکس فیملی ، انٹرنیٹمینٹ ۔ کلاس روم ، یونیورسٹی فیلو گروپ بن گئے ہیں جس میں معلومات کے ساتھ ساتتھ ایک دوسرے کے ساتھ چیٹنگ ہوتی ہے موجودہ دور میں فیس بک نے لائیو جانے کا آپشن ایڈ کیا کیا صحافت مزید اسان ہوگئی اب صحافی ایونٹ میں جاکر لوگوں کے ساتھ براہ راست آن لائن ہونا شروع ہوگیا ہے ، اور جو صحافت کی پرانی قسمیں تھیں وہ کہیں پر گم ہوگئیں اب دیہاتوں میں کام کرنے والے صحافی جن کو عرف عام میں نمائندہ کہا جاتا ہے ان کوادارے کی جانب سے کوئی رقم نہیں ملتی وہ صرف اشتہارات میں کمیشن پر کام کرتے ہیں اگر ان سے کوئی خبر مس ہوجاتی ہے تو نمائندگان کا انچارج ان سے باز پرس کرتا ہے بڑے اخبارات کی نمائندگی کے لئے یہ نمائندگان ایک خاصی بڑی رقم ادا کرنے سے بھی نہیں ڈرتے ان کو نمائندگی سے کام ہوتا ہے کیونکہ اس کے بعد وہ علاقے کے بادشاہ بن جاتے ہیں اور پھر ضلعی انتظامیہ کے خلاف سکینڈل کی مد میں وہ اپنی بکری بناتے ہیں

شہروں میں کام کرنے والے صحافی اتنے طاقت ور نہیں ہوتے جتنے قصبوں اور گاؤں میں کام کرنے والے صحافی مضبوط ہوتے ہیں موجودہ دور میں سوشل میڈیا نے ان کا کام بہت زیادہ آسان کردیا ہے ، ہر دوسرے صحافی نے فیس بک پر اکاؤنٹ بنا کر اپنا پیج اپنی مرضی کے نام کے ساتھ بنا لیا ہے اور صحافت شروع کردی ہے، کچھ علاقوں میں اس قسم کی صحافت بہت زیادہ زور پکڑ گئی ہے جس میں میرا اپنا ضلع کرک شامل ہے جس میں بہت سے فیس بک پیجز ٹی وی چینلز کی طرح منٹوں میں رپورٹ بنا کر لوگوں کو معلومات فراہم کر رہے ہیں ، جو معلومات انہیں ٹی وی سکرین پر نظر اتی ہے اب انہیں فیس بک پیج پر وہی معلومات مل رہی ہے ، جس کے لئے انہیں اتنی زیادہ رقم کی بھی ضرورت نہیں ہے ایک سمارٹ فون اور ایکس ڈی ایس ایل آر کیمرہ لیا ، کچھ ایڈیٹنگ کے سافٹ وئیر ڈاؤن لوڈ کئے یو ٹیوب سے طریقہ سیکھ لیا اور صحافت شروع ہوگئی ،

یہ صرف کرک کی بات نہیں ہے پورے ملک میں علاقوں کے نام پر ویب ٹی وی کا آغاز ہوگیا ہے کویہ سوات ٹی وی ہے کوئی کرک ٹی وی ہے تو کوئی مرادن ٹی وی کے نام سے کام کر رہا ہے اور لوگوں کو اپنی معلومات پہنچائی جارہی ہے اس حوالے سے جب فیس بک پر سرچ کیا تو بہت سے چینل نظر آئے جن کے ایم ڈی، سی ای او۔ ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز، ڈائریکٹر نیوز شامل تھے اسی طرح جب دیکھا تو بہت سے فیس بک پیجز نے ویب ٹی وی بھی شروع کردی ہے جن کے لئے انہوں نے اپنے ڈومین لئے ہیں اور اس کے وہ سالانہ رقم ادا کرتے ہیں ، بہت سے فیس بک پیجز میں ہر ایک گھنٹے کے بعد نیوز بلیٹن چلتے ہیں جس میں علاقے کے ساتھ ساتھ ملکی اور بین الاقوامی خبریں وہ بھی ویڈیو کے ساتھ پیش کی جارہی ہیں کرنٹ آفئیر ز کے پروگرامات بھی کئے جارہے ہیں علاقائی سیاست جس میں ڈسکس ہوتی ہے۔

دو دوست بیٹھ گئے سمارٹ فون لگایا دس منٹ کی بات چیت کی اسے ایک مخصوص نام کے ساتھ جس طرح سلیم صافی کا جرگہ ہے شروع کردیا گیا ، فیڈ بیک کے لئے فون نمبرات پررابطہ اور وٹس اپ پر سٹیزن جرنلزم کی طرح لوگوں سے ویڈیو مانگی جاتی ہیں ۔ اس حوالے سے میری ایک دوست کے ساتھ بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اس نئی ٹیکنالوجی نے ان کا کام بہت آسان کردیا ہے، ان کو اب کسی بڑے اخبار کی ضرورت نہیں ۔ اس نے بتایا کہ وہ اخبار شروع کرنے کی پوزیشن میں تھا مگر انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے اتنے چکر لگائے اور اخبار کے جو نام ہم نے منتخب کئے تھے وہ سارے کے سارے رجسٹرڈ تھے پھر فیس بک پیج بنا یا اور اسی نام سے اپنے فیس بک پیج اور ویب ٹی وی کا آغاز کر لیا اور تب سے بہترین طریقے سے اپنا پیج چلا رہا ہوں

دوسری جانب یہ میڈیا لوگوں میں ایک تھرتھلی بھی مچا رہا ہے ان ویب ٹی وی پر انڈیا سے کرکٹ کا جنگی جنون ،عمران ریحام شادی ، عمران ریحام طلاق ،محترمہ زمانی سے ’’ اندر کی بات ’’ اگلوانے کے لیے انٹرویوزآ یان کی میک اپ زدہ پیشیاں ، نواز زرداری کرپشن کے گھسے پٹے افسانے، ، نندی پورمیں نیند کرتا میاں،کرپشن میٹرو ’’ ملن ’’ کے فوائد ،سندھ فیسٹیول پر تبرے ، میرا کی شادیاں جیسے عنوانات زیر بحث ہوتے ہیں جب اس پرآپ کلک کرتے ہیں تو کوئی نیوز نہیں ہوتی صرف لوگوں کو متوجہ کرنے کے لئے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں اب چونکہ موجودہ حکومت کے خاتمے کے دن قریب آگئے ہیں تو بہت سے صحافیوں نے مختلف ناموں سے ویب ٹی ویز کا آغاز کر لیا ہے جس پر وہ سیاست دانوں کی انٹرویوز لگائیں گے اور اس سے پیسے کمائیں گے کیونکہ یہ نئی میڈیا عوامی رائے ہموار کرنے کے لئے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے پہلے لوگ اپنے پیغامات پہنچانے کے لئے اخبارات کا سہار ا لیتے تھے مگر اب موجودہ دور میں سوشل میڈیا اور ویب سائٹس نے سب کام آسان کردیا ہے، ٹی وی چینلز پر مقامی سیاست دانوں کو اتنی توجہ کوئی نہیں دیتا یہی پیجز ان کا پیغام اسانی کے ساتھ آگے لے کر جائے گا ۔

یہ صحافت ایک طرف اسان ہے تو دوسری طرف اس صحافت میں کوئی ضابطہ اخلاق نہیں ہے کہیں بھی اور کسی کی بھی پگڑی اسانی کے ساتھ اچھالی جاسکتی ہے جس سے یہ صحافی مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں ۔، اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پرانی صحافت اب بھی چل رہی ہے اور لوگ اس پر یقین کرتے ہیں مگر نئی صحافت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا مگر اس صحافت کی بھی ٹریننگ ہونیء چاہیئے اور لوگوں کو خاص کر نمائندگان کو تربیت دینی چاہیئے کہ وہ کس طرح صحافت کرسکتے ہیں جس سے مستقبل میں ملک بھر میں بہترین صحافی پیدا ہوسکتے ہیں کیونکہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں اور صحافت کے پیجز دیکھ نیوز ویب سائٹس دیکھ کر آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پاکستان میں مین سٹریم میڈیا کے ساتھ یہ صحافت کسیے کام کرکے عوامی رائے ہموار کر رہی ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے