آزادانہ طرزِحکومت اورانتخاب کی آزادی

اسلام کی تاریخ خلافت سے کبھی خالی نہیں رہی۔ یہ درست ہے کہ اس کی ابتدائی تین سے چار دہائیاں مکمل خلافت کی تصویر پیش کرتی ہیں، اور اس کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے ختم ہونے تک، باوجود اس کےکہ ملوکیت نے ہی خلافت کاعبایا پہن لیا، اس ملوکیت نما خلافت نے ہر دور کی سلطنت اور شہنشاہی کو جوازِ حکومت عطاکی۔ یہ تقریباٰ تیرہ صدیوں کا دور ایسا گزرا ہے جس میں براہِ راست عوام کو کبھی بھی کسی بھی چناو میں شامل نہیں رکھا گیا۔بلکہ ان کو محض ایک عضوِ معطل کے طور پر استعمال کیاگیا۔

کبھی یہ چناو مجلسِ شوری کے زریعے قیام پذیر ہوا، کبھی پچھلے سلطان یا خلیفہ کی نامزدگی سے اور کبھی باہمی مشاورت سے، ان تمام فیصلوں میں زمینی سطح سے خالص جہموری طریقے سے چناو نہ کبھی ہوا اور نہ اس کی ضرورت محسوس کی گئی۔ یہ ایک عجیب سا نکتہ ہے کہ ان سارے ادوار میں عوام کو ہمیشہ حکومتِ وقت چاہے وہ غاصب ہی کی کیوں نہ ہو،کو اطاعت کرو ان کی جو تم میں صاحب امرہیں، کی تاویل دے کر سلایا جاتا رہا۔ یہ سلسلہ افریقہ، عرب، حتی کہ تمام اسلامی دنیا پر تب تک قائم رہا جب تک سلطنتِ عثمانیہ کی حکومت رہی۔

ہندوستان کامعاملہ اگرچہ تھوڑاسامختلف رہا۔ بغداد کی سلطنت سے سندِ خلافت البتہ ہندوستانی حکمران بھی حاصل کرتےرہے۔ مگر یہ سلسلہ کبھی ختم تو کبھی شروع ہوتارہا۔ مغلیہ دور، اٹھارہ سو ستاون کی جنگِ آزادی اور اس کے بعد اسلامی سلطنتوں کے حصے بغرے ہونے کے بعد جب پہلی بار ہندوستانی مسلمانوں کو چناو کا موقع دیا گیا تو یہ بات حیرت انگیز حد تک ناقابلِ یقین ہے کہ انھوں نے غیر علما کو اپنا قائد بناناپسند کیا۔ باقی اسلامی دنیا سے براہ راست تعلق نہ ہونے کے باوجود ہندوستانی مسلمان مدینہ، بغداد و کوفہ میں بننے والی حکومتوں کو دل و جان سے قبول کرتے رہے۔ لیکن انھی علماء کی زیلی شخصیات جو ہندوستان میں مقیم تھیں ان کو سیاسی طور پر مسترد کردیا۔

اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ہمیشہ سے مسلمانوں کو خاص کر نچلے طبقے کوسیاسی عمل سے دور رکھا گیا، اور علماء اور مولوی طبقے نے بھی مسلمانوں کو سیاست دانوں اور اونچے طبقے کی حکمرانی کو مختلف اسلامی تاویلات سے اُن پر مسلط ہی رکھنے کی کوشش کی۔ ایسے میں جب ہندوستان میں سیاسی،معاشی، اور سماجی سطح پر مسلمانوں کو شکایات ہوئیں تو اس روائتی طبقے نے ایک بار پھر اُسی صبر اور تحمل کی تلقین کی جو ازل سے کرتےآرہےتھے۔ نئے زمانے اور اس کے جدید تصورات سے خالی جب انھوں نے ملسمانوں کی حالتِ زار کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی تو سیاسی عمل سے خود کو خارج کروابیٹھے۔

اسے ہم ایک اور نکتہِ نظرسے دیکھتےہیں۔ ہمارے علماء نے جہموریت اور اس سے منسلک سارے نظام کو ہمیشہ اسلام سے متصادم بنا کر پیش کیا۔ بلکہ بعض اوقات اسے کفریہ نظام کا بھی نام دیا۔ ایسے میں جب اسی طبقے نے اسی کفریہ نظام سے عوام پر مسلط ہونے کی کوشش کی تو عوام نے ان کو مسترد کر دیا۔

ایک اور بنیادی وجہ برصغیر میں سیاسی اور جمہوری روائت ہے جس میں سیاسی عمل ہمیشہ ہی سیاست دانوں کے ہاتھوں پامال ہوتا رہا ہے۔ بدعنوانی، رشوت ستانی، اقتدارکی خاطر کشت و خون یہ وہ عوامل ہیں جو عوام مذہبی علماء سے توقع نہیں رکھتے۔ ان کے خیال میں اگر مذہبی عملاء کی کوئی عزت و توقیر ہےبھی تو وہ سیاسی عمل میں داخل ہونے سے ختم ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی مثال ڈاکٹرطاہرالقادری صاحب کی ہے۔ تو یہ سارے عوامل مل کر مذہبی علماء کو سیاسی عمل سے خارج کردیتےہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مذہبی علماء اپنے کردار اور اعمال سے خود کو اس قابل بنائیں کہ بنیادی سطح سے لوگوں کی ذہنیت کو تبدیل کیا جاسکے۔ اور ایسا تب تک ممکن نہیں جب تک اسلام کی ساری تاریخ کو سامنے رکھ کر لائحہِ عمل طے نہ کیا گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے