روایتی عسکری گروہوں کا چیلنج

جماعت الدعوۃ کے رہنماؤں کے خلاف حالیہ کارروائی کی کئی توجیحات بیان کی جا رہی ہیں ۔کچھ کا خیال ہے کہ ایسا ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پابندیوں کے ڈر سے کیا گیا ہے ۔کچھ لوگ اسے چینی دباؤکا نتیجہ قرار دیتے ہیں ۔بہت کم ایسے ہیں جو اسے پاکستان کے اندرونی حالات کے تناظر میں دیکھتے ہیں ۔

حالیہ مہینوں میں داخلی سلامتی سے متعلق ہونے والے مباحث بالخصوص پنجاب میں کالعدم تنظیموں ،مدارس اور شہروں میں عسکری نیٹ ورکس کے گرد گھومتے نظرآتے ہیں۔اس ضمن میں جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ یہ کہ ریاست روایتی عسکری گروہوں بشمول جماعت الدعوۃکے ساتھ کیسے نمٹے؟ ان گروہوں نے ریاست کے اندر ایک بڑا ڈھانچہ بنا لیا ہے ۔پاکستان مخالف گروہوں کے برعکس ،یہ روایتی گروہ ہر جگہ نظر آتے ہیں اور یہ سیاسی کے ساتھ فلاحی سرگرمیاں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔یہ گروہ پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں بھی ملوث نہیں ہیں اور یہ آہستہ آہستہ پاکستان میں انتہائی دائیں بازو کی سیاست میں بھی سر گرم ہو رہے ہیں ۔

بہرحال سیکورٹی اداروں کو ان گروہوں کے ممبران کے بارے میں تشویش ضرور ہے جن پر کئی دہشت گرد گروہوں بشمول دولت اسلامیہ ،القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کی نظریں ہیں تاکہ وہ ان کے ممبران کو اپنے ساتھ ملا سکیں ۔یہ روایتی عسکری گروہ علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان کے لئے سفارتی دباؤ کا باعث بھی بنتے ہیں ۔جماعت الدعوۃ ایسے گروہوں میں سر فہرست ہے ۔سیکورٹی اداروں کی مشکل یہ ہے کہ دنیا یہ سمجھتی ہے کہ ایسے گروہ ریاست کے کچھ اداروں کے مکمل کنٹرول میں ہیں ۔دنیا کے لئے یہ باور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ایسے گروہ آزادانہ طور پر بھی سرگرم ہو سکتے ہیں خاص طور پر جب وہ ریاست کے نظریاتی اور قومی بیانئے کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں اورخود کو ریاستی مفادات کا محافظ گردانتے ہیں ۔

ریاست کا دوسرا بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ کیسے ان گروہوں کو بے اثر کرے جنہیں ایک دور میں اس نے اپنے جغرافیائی اور تزویراتی مقاصد کے لئے استعمال کیا ہو ۔شورش کے بعد سب سے اہم بات ایسے راستے کی تلاش ہے جس کے ذریعے ایسے گروہوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے ۔تاہم بہت سے ماہرین اور پاکستان کی سول سوسائٹی کے اکثر لوگ یقین رکھتے ہیں کہ ایسے گروہوں کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جانا چاہئے اور پاکستان کو ہر صورت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق کارروائی کرنی چاہئے ۔

وہ کون سے طریقے ہیں جن کے ذریعے ایسے گروہوں کو مکمل طور پرقانون کے دائرے میں لایا جاسکتا ہے؟ ریاست ان کے اثاثوں کو ضبط کر لے ان کے فلاحی منصوبے اور تنظیمی آپریشن بند کر دے۔ ان کی قیادت کے خلاف انسداد دہشت گردی کے مختلف قوانین کے تحت عدالتوں میں مقدمات دائر کرے اور اگر ضرورت پڑے تو سخت اقدام کرتے ہوئے ان کی شہریت معطل کر دے ۔مگر کیا یہ سب کچھ اس خطرے کو ختم کر دے گا ؟ کیا ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ ایسے گروہ ،ان کی درمیانی اور نچلی قیادت معاشرے کے اندر کس حد تک سرایت کر چکے ہیں اور ان کی تعداد کتنی ہے ۔وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں اور وہ کس قسم کا رد عمل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

اس سلسلے میں ہم حرکت الجہاد الاسلامی جو کہ خود کو ہر مسلم ریاست کی سیکنڈ ڈیفنس لائن قرار دیتی تھی، کی مثال دے سکتے ہیں ۔ایک وقت میں یہ پاکستان کا سب سے بڑا جہادی گروہ تھاجو بھارتی مقبوضہ کشمیر اور افغانستان میں سرگرم تھا۔پھر یہ اندرونی خلفشار کا شکار ہو کر القاعدہ اور افغان طالبان کا طفیلی بن گیا۔اس کا بانی سیف اللہ اختر گزشتہ ہفتے اس وقت مارا گیا جب وہ افغان سیکورٹی فورسز کے خلاف لڑ رہا تھا ۔یہ بات حیران کن ہے کہ اپنے وقت کا بڑا جہادی رہنما کی وفات پر کسی بڑے میڈیا یا پھر عسکری میڈیا نے کوئی خاص تذکرہ بھی نہیں کیا ۔

پہلا پاکستانی گروہ جس نے اپنی سرزمین پر حملوں کا آغاز کیا تھا وہ حرکت الجہاد الاسلامی ہی تھا ۔2007 میں لال مسجد کے محاصرے سے پہلے حرکت الجہاد اسلامی اور لشکر جھنگوی کے دھڑے ہی پاکستان میں ہونے والے زیادہ تر حملوں کے پیچھے تھے جو کہ 2002اور 2006 کے درمیان ہوئے ۔پاکستانی ریاست نے 2003 میں فیصلہ کیا کہ وہ حرکت الجہاد الاسلامی کو ختم کر دے ۔اگرچہ ایک چھوٹے سے گروہ حرکت الجہاد الاسلامی کو ختم کرنے میں نو سال کا عرصہ لگا ۔اس دوران ا س نے ملک کو دہشت گرد حملوں کے ذریعے بھاری نقصان دیا بلکہ ا س نے تربیت یافتہ عسکریت پسند بھی دوسرے گروہوں کو فراہم کئے ۔یہ بعد ازاں پنجابی طالبان گروہوں کی تخلیق کی وجہ بھی بن گئے جس میں دوسروں کے ساتھ حرکت الجہاد الاسلامی سے الگ ہونے والے گروہ بھی شامل تھے ۔حرکت الجہاد الاسلامی کے عسکریت پسند القاعدہ اور تحریک طالبان کا حصہ بھی بنے ۔

جو لوگ ان عمومی گروہوں کی واپسی کے مخالف ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ ان کو شہ دینے کے مترادف ہے اور جب ان پر دباؤکا خاتمہ ہو جائے گا تو یہ ایک بار پھر اپنے شدت پسند اور پر ُتشدد ایجنڈے کے طرف لوٹ جائیں گے ۔انہیں اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ یہ پاکستانی معاشرے میں نفرت انگیز بیانئے کو فروغ دینا جاری رکھیں گے ۔جبکہ کچھ لوگ ایسے اقدامات کے پیچھےریاستی اداروں کے ایسے عزائم کو بھی دیکھتے ہیں جن میں وہ اپنے لوگوں کو بچانا چاہتے ہیں ۔

تاہم سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ان کی بحالی کے حوالے سے کون سے آپشن موجود ہیں ۔کچھ لوگ اس سلسلے میں سعودی عرب اور کچھ مغربی ماڈلز کو دیکھتے ہیں جو زیادہ تر انفرادی بحالیکے گرد گھومتے ہیں ۔پاکستان میں بھی جو افراد جیلوں کے اندر ہیں ان کی بحالی کے حوالے سے ایسے ماڈلز موجود ہیں جن کے مؤثر ہونے کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے ۔مگر روایتی عسکری گروہوں کی بحالی ایک قطعی مختلف کام ہے جس سے عہدہ برا ہونے کے لئے زمینی حقائق بھی دیکھنے ہوں گے ۔کچھ روایتی گروہ بشمول جماعت الدعوۃ پہلے ہی انتہائی دائیں بازو کی شناخت رکھتے ہیں اور اگر وہ سیاست میں سرگرم ہوتے ہیں تو اس سے انہیں اپنے شدت پسندانہ رجحانات کا اثر زائل کرنے میں مدد ملے گی ۔یناً روایتی گروہوں کے لئے بحالی کا طریقہ بہت مؤثر ثابت ہوسکتا ہے اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن میں دوسروں کے مقابلے میں بحالی کے رجحانات بہت زیادہ ہیں.

کیا ریاست تشدد کو بالکل رد کرتے ہوئے بحالی کا کوئی فریم ورک بنا سکتی ہے ۔کیا ریاستی ادارے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کچھ کر سکتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پچھلی کچھ دہائیوں میں جو شدت پسند بیانئے پروان چڑھے ان کا توڑ کیا جائے وگرنہ یہ بیانئے ان روایتی گروہوں کے ممبران کی مین سٹریم میں واپسی اور بحالی میں رکاوٹ ثابت ہوں گے ۔روایتی گروہوں کو پاکستان مخالف دہشت گرد گروہوں سے الگ کرنا بھی ایک چیلنج ہو گا ۔
ایسا لگتا ہے کہ ریاست ان روایتی عسکری گروہوں کے مستقبل کے بارے میں سوچ بچار کر رہی ہےلیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ سوچ کا یہ عمل کہاں جا رہا ہے ۔

(بشکریہ ڈان ، ترجمہ ،سجاداظہر )

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے