حیا کی قیمت

"امی ! میری کاپی اسکول میں رہ گئی ہے…اور کل ٹیسٹ ہے…میں کچھ ضروری کام اپنی دوست کی کاپی سے واٹس ایپ کرلوں…؟ ” یہ کہتے ہی ہماری دس سالہ صاحبزادی نے ہمارا فون استعمال کی غرض سے ہاتھ میں لے لیا. فوری طور پر تو اس جسارت پر غصہ آیا….کہ اس عمر کی پڑھائی بھی اب واٹس ایپ کی محتاج ہوگئی!…مگر پھر مجبوری سمجھ کر….ان کی دوست کے بارے میں سرسری معلومات لے کر نمبر ایڈ کرنے کی اجازت دے دی . اور ساتھ ہی کام ختم ہوتے ہی فون کا استعمال بھی ختم کرنے کی تاکید کردی. اینڈروئیڈ فون کے استعمال کے ساتھ ہی , احتیاط کے باوجود بھی, ضرورت کے بہانے انٹرنیٹ اور اس کے لوازمات….فیس بک, واٹس ایپ ای میل وغیرہ چیک کرنے کا مرض بھی لگ جاتا ہے. سو, اس مرض کے ہاتھوں , چند گھنٹوں بعد جب فون کھولا اور حسبِ معمول, فیملی گروپ کی اپ ڈیٹس چیک کرنا چاہِیں, تو خلافِ معمول, نوٹیفیکیشن رُکنے میں ہی نہ آئیں.ایک دم پریشانی سی ہوگئی, کہ آخر چند گھنٹوں میں دنیا میں آخر ایسی کیا تبدیلیاں رونما گئیں کہ پیغامات کی اطلاعی گھنٹیاں ختم ہونے میں ہی نہیں آرہیں. حالاں کہ ہمارے رابطے کے نمبرز بھی محدود ہیں اور گروپس بھی اِکادُکا.

پیغامات بھی اتنے دورانئیے میں گِنے چُنے ہی ہوتے ہیں. مگر آج پیغامات سینکڑوں تک پہنچ رہے تھے. بہر حال نوٹیفیکیشن کا ننھا ہنگامہ تھمنے پر غور کیا, تو ایک واٹس ایپ گروپ کا اضافہ دکھائی دیا, خوبصورت سی پروفائل تصویر کے ساتھ. سمجھ میں تو آہی گیا کہ یہ چند گھنٹے قبل کی سرگرمی کا نتیجہ ہے. مگر یہ حیرت ہوئی کہ ایک بچی کو ایڈ کرنے کی اجازت مانگی گئی تھی اور یہ چھ عدد کیسے وارِد ہوگئیں بِلا اجازت وہ بھی اجتماعی طور پر؟ تو انتہائی معصومانہ بلکہ قابلِِ رحم شکل بنا کر فرمایا گیا: "میری وہ دوست گروپ میں تھی تو اس نے مجھے بھی اسی گروپ میں ایڈ کردیا اور ہم سب دوستیں ہیں.” ہم اگر چہ ان کو نہیں جانتے تھے. مگر یہ سوچ کر کہ اتنی ننھی سی بچیاں ہی تو ہیں, وہ بھی اچھے اسکول سے ہیں, تو یقیناََ اچھے گھرانوں سے ہی ہوں گی. ہم نے اپنا اعتراض واپس لے لیا اور صرف وقتِ ضرورت استعمال کرنے کی اجازت دی. دل میں, خود بھی نظر رکھنے کا طے کرلیا. تحقیق کی غرض سے گروپ کھولا کہ آخر چھ بچیوں نے ایسی کیا باتیں کر لیں کہ تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی. ایک, دو, تین اور پھر انگلی کی تیزرفتار جنبش سے آخری میسج تک. چند ایک میسج پڑھے بھی, جو کہ عمومی سے تھے. آپس کی معمول کی سرگرمیوں سے متعلق. مگر ان میں قابلِ غور بات, بچیوں کی ذاتی تصاویر/سیلفیاں تھیں جو انہوں نے دوستی کے نام پر آپس میں شیئر کی تھیں. اس سے بھی زیادہ قابلِ فکر بات, تصویروں میں ان کے دِل رُبا انداز , جسم اور بالوں کے اسٹائل اور چہروں کے تاثرات تھے. اگر چہ یہ سب بہت ہی معصومیت کے ساتھ تھا .شائد اس لئیے کہ یہ عمریں بھی معصوم ہی تھیں, فقط دس گیارہ سال . جس میں بصارت تو خوب ہوتی ہے کہ ہم بھی اور ہم ہی سب سے اچھے لگیں. مگر بصیرت ندارد, کہ کیسے اور کِسے کِسے اچھے لگیں….؟

یہ بصیرت, جس کو ہماری ماؤں نے زندگی کے ایسے ہی معصوم ونازک دور میں, حیا کے عنوان سے نہ صرف ہماری سیرت وکردار کا حصہ بنایا تھا بلکہ مرتے دم تک اس کو فرضِ عین سمجھتے ہوۓ ادا بھی کیا. اسی کی برکت کہ, قرآن میں حیا کے احکام, روزِاول کی اثرانگیزی کے ساتھ ہمیشہ مُتنبہ کرتے ہوۓ محسوس ہوۓ.
حیاتِ انسانی کاچکّر, کہ آج یہ ننھی ننھی کونپلیں ہماری جگہ ہیں. چند سالوں ہی کی بات ہے, مگر بصارت اور بصیرت کے درمیان اتنی وسیع خلیج !!! سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہیں,جو چاہتے ہیں وہ بھی اور جو نہیں چاہتے وہ بھی. زمانے کی دوڑ میں وہ بصیرت ہی گم کر بیٹھے جو رب کی مطلوب چاہت اور عدم چاہت میں فرق کرسکے. حیا کے احکام اب بھی نظر سے گذرتے ہیں, نمازوں میں, قرآن پڑھتےہوۓ, دن رات موبائل/ فیس بُک گردانی میں. ان احکام کا حق ادا کرنا جس طرح ہماری ماؤں نے ہمیں سکھایا تھا, ہم اپنی اولاد کو سکھانے میں کتنا حقادا کر رہے ہیں؟ ہماری مصروفیات کا دائرہ اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ ننھے شگوفوں کو سایہ دار درخت بنانے کے لئیے مالی کا فرض ادا کرنا مشکل تر ہو گیا. معاشرے کے جنگل میں ان کونپلوں کو جھاڑجھنکار اور کانٹوں کے درمیان بڑھنے کے لئیے چھوڑدیا گیا ہے. اس جنگل میں سب زیادہ تکلیف دہ جھاڑ جھنکار,میڈیا اور انٹرنیٹ ہیں. تکلیف دہ راستے سے گزرتے ہوۓ کپڑے سمیٹ کر چلنے والے, زندگی کے ٹیڑھے میڑھے راستوں پر اطراف کے کانٹوں سے دامن بچانے کی فکر سے غافل ہورہے ہیں. ڈرامے, کارٹونز, اشتہارات اور اس دوڑ میں سب سے آگے انٹرنیٹ اور اس کے لوازمات, فیس بک واٹس ایپ, موبائل پیکیجز زندگی کی ترجیحات بن گئیں.

ایک وقت تھا کہ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کی حد تک بچے پھر بھی ذرا روک ٹوک میں نظر آتے تھے. گھر میں کمپیوٹر کے استعمال کے لئیے بہن بھائیوں کے اوقات مقرر ہوا کرتے تھے. مگر اب جب کہ ہر دوسری ماں اور باپ کے ہاتھوں میں دن رات سمارٹ فونز ہیں. والدین سے زیادہ بچے کس تیزی سے اس کے عادی ہورہے ہیں, والدین کو اس کا اندازہ پانی سر سے اونچا ہونے کے بعد ہی ہوتا ہے. پرانے وقتوں میں ٹی وی کمپیوٹر اور فون, کے لئیے گھر میں نمایاں مقام مقرر ہوتےتھے. اب ان تینوں کا مُرقع, سمارٹ فون ہر ایک کی فوری دسترس میں ہے. والدین کو اندازہ ہی نہیں کہ یہ فون, بچے اور بچیاں کتنا اور کیسے استعمال کررہے ہیں؟ اس کا ایک ثبوت تو بے انتہا تیزی سے بڑھتے ہوۓ آن لائن رابطے , دوسری جانب ان رابطوں کے ذریعے بچے, لائک, کمنٹ, شیئرنگ اور میسیجنگ کے ذریعے کیا کچھ کررہے ہیں؟ والدین اس بارے میں کتنا خیال کرتے ہیں؟

ایک اسلام پسند گھرانے کی ماں سے ان کے جواں سال بچے کے اخلاق باختہ میسیجز کی شکایت پر بچوں کے موبائل فونز چیک کرنے سے متعلق گفتگو ہوئی تو اپنے بچے کا نمبر اور میسیج ماننے کو تیار نہیں. بُرا مانتے ہوۓ فرمایا گیا, "ہم نے بڑی محنت سے اپنے بچوں کو اسلامی اسکول میں داخل کروایا ہے, ہمیں کیا ضرورت ہے اس کے فون چیک کرنے اور پریشان ہونے کی؟” والدہ صاحبہ یقین کرنے کو تیار ہی نہیں جب تک کہ انہیں واٹس ایپ اور سکرین شاٹ کا حوالہ نہ دیا گیا. لہٰذا, یا تو بچوں کی نام نہاد تربیت پر اعتبار کر لیا جاتا ہے یا پھر انہیں بولڈ اور بااعتماد گردان کر چشم پوشی اختیار کرلی جاتی ہے.

بچے تو ایک طرف, ننھی عمر سے خود کو منوانے کا شوق عموماََ بچیوں میں ہی زیادہ ہوتا ہے. عام معاشرے کی معصوم ننھی بچیاں, انڈین اداکاراؤں کے سے بے باک انداز میں, سمارٹ فونز کی اسکرینوں پر ایک جنبش سے کہاں سے کہاں شیئر ہوجاتی ہیں. کتنی ہی دوستوں کے بھائیوں اور باپوں کی نظر بازی کا سامان ہوجاتا ہے. مگر سفید پوش والدین ہیں کہ جذبۂ ایمانی میں خلل تک محسوس نہیں کرتے. ہر خوشی غمی کو تصویر بازی سے مشروط کر لیا گیا ہے. یہ تصویر بازی کی ہوس ہماری ننھی ترین بچیوں کی حیا کو کس باریک بینی سے بے حیائی میں تبدیل کررہی ہے. ہماری اس بےخبری کی قیمت کیا ہو گی ؟

حدیثِ نبوی (ص) ہے:
"حیا اور ایمان ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں, جب ان میں سے ایک اٹھا لیا جاۓ تو دوسرا خودبخود اٹھ جاتا ہے.” (مشکٰوۃ المصابیح)

آج اسی قیمت کی ادائیگی, ہمارے نوجوانوں کے ایمان کی صورت میں ہو رہی ہے. کیا حیا کی یہ قیمت, گھاٹے کا یہ سودا, ہمیں اپنیے بچّوں, بچیوں اور ان کی جنّتوں سے زیادہ عزیز ہے…؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے