طالبان بیگم اور ٹوٹی کمر

طالبان کی طرح ہماری بیگم بھی تمام تر مدارات اورہماری مفت خدمات کے باوجود خانگی جارحیت سے کبھی باز نہیں آتیں۔ شادی کے15سالوں میں نہ توبیگم سے مزاکرات کامیا ب ہوئے اور نہ ہم بیگم سے کبھی جیت پائے۔ ہر بار نت نئے پینترے بدل کر وار کرنے کی صلاحیت تو جیسے بیگم نے کالعدم تنظیموں سے ہی حاصل کی ہے کیونکہ بیگم ہر سال روپ اور سلوگن بدل بدل کرچندہ مہم ایسے چلاتی ہیں جیسے کشمیر سے لے کر فلسطین تک سب اسی چندے سے فتح کر لیں گی۔

ہم نے ان سے متعدد بار کہا کہ بیگم پہلے اپنا گھر دیکھو پڑوسن کو اسکے شوہر کے ساتھ ابھی کچھ دن مزید ہنسی خوشی رہنے دو لیکن وہ اتنی بے قابو ہوگئیں ہیں کہ ہماری تو کیا ،پروان چڑھانے والی اپنی "ماں”کی بھی نہیں سنتیں۔

ہماری بیگم کی ہر ادا نرالی ہے، کبھی ہماری کسی خدمت یا فنڈز کی فراہمی پر وہ ہمیں ایسی شریف نظر سے دیکھتی ہیں کہ ہمارا دل ممنونیت کے جذبے سے سرشار ہوکر مزیدلمبی تان کر سونے کو چاہتا ہے اور کبھی وہ "نا ن اسٹیٹ ایکٹریس "کی طرح ہمیں باہرپڑوسی سے پٹوا کراندر کمرے میں گھس جاتیں ہیں اور ہم سارے محلے والوں کو وضاحتیں کرتے پھرتے ہیں ۔ کبھی کبھی تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم خود اندر سے بیگم سے ملے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے کسی بھی شوہر کش حملے کی ہمیں اطلاع نہیں ہوتی یا شائدجب ملتی ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

شروع شروع میں تو بیگم بیرونی امداد یعنی ہماری ساس اور سالوں کی خدمات لے کر ہمیں ڈرانے کا کام سرانجام دیتی تھیں۔ سمندر پار سے ہمارے سالے اور محلے میں رہائش پذیر ہماری ساس کبھی فون اور کبھی گھر کے دورے پر آکر ہمیں” ڈو مور” کا مشورہ نما حکم صادر کرتیں ۔ صاحبو! ہم اپنی ازلی بزدلی اور بے کاری کے باعث ان کی سن لیا کرتے تھے لیکن کیا پتہ تھا کہ ڈومور کا یہ حکم تو ایک دن بچے کی جان ہی لے لے گا۔

بیگم کی ایسی ہی حرکتوں کے باعث دل میں کئی بار خیال آیا کہ اپنے چوکیدار سے کہہ کر بیگم کو سبق سکھا یا جائے لیکن واہ رے نصیب، بیگم چونکہ ہمارے گھر میں موجود طاقت کے سرچشمہ یعنی چوکیدار کو پہچان چکی تھیں اس لیے انھوں نے پیشگی اسٹرائیک کرتے ہوئے چوکیدار کی بیوی کے ساتھ بیسی ڈال کر دوستی گانٹھ لی اوراب یہ حال ہے کہ چوکیدار، بیگم کی جگہ ہمیں ہی آنکھیں دکھاتا ہے، البتہ کبھی نظرانہ یا آزادانہ گھومنے پھرنے کی سہولت کے عوض چوکیدار کبھی کبھی عزت سے پیش تو آتا ہے لیکن بیگم کے کسی بھی حملے میں غیرجانبداری کا مظاہرہ کرتا ہے ۔

صاحبو! بیگم گھر کے ایک کونے سے چلتی ہوئی ہمارے چوکیدار کی نام نہاد حفاظتی باڑوں کو پار کرکے ہر بارشوہر کش حملہ کر کے فرار ہوجاتی ہیں اور ہمارا چوکیدار ہمارے بچے کچے ارمان اور حواس بحال کرتے ہوئے بیگم کے آئندہ حملے سے ڈراتے ہوئے نظرانے کی رقم اور گھر میں اپنے اختیارات میں توسیع کروا لیتا ہے۔ بیگم کے گھر اور باہر پے درپے حملوں کے باعث ہمارے پڑوسیوں نے بھی ہمارے چوکیدار کو ہی ہمارے گھر کا مائی باپ سمجھ لیا ہے اور حال یہ ہے کہ دنیا والے ہماری گھریلو سیاست سے لے تجارت ، اورثقافتی رابطوں سے لے کر ہمارے گھر میں واقع پانی کے کنویں تک کی رسائی کے لیے تمام معملات چوکیدار سے ہی طے کرتے ہیں اور ہم کو پوچھتے بھی نہیں ہیں۔

پانی سر سے اوپر ہوچکا تھا کیونکہ بیگم نے ہمارے پڑھانے سے قبل ہی ہمارے بچوں کو ایسا سبق پڑھا دیا ہے کہ وہ آتے جاتے ہم کو دیکھ کر گنگناتے کہ” اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو، اماں تمھیں سلام کہتیں ہیں” ۔اب آپ خود ہی بتائیں کہ ایسے حالات میں ایک شریف شوہر کیا کرتا ۔بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ چوکیدار سے رحم کی اپیل کی جائے کہ وہ بیگم کی کمر توڑدے تا کہ نہ رہے گی بیگم اور نہ ہونگے شوہرکش حملے۔

بس صاحب، یہی سوچ کر چوکیدار سے مذ اکرات کے متعدد دورکیے اور کامیابی کے بعد چوکیدار کو بیگم کی کمر توڑنے کے لیے مالی اور انتظامی اختیارات سونپ دیے۔ تھوڑی ہی دیرگزری تھی کہ پیارے چوکیدار نے بیگم کی کمر توڑنے کی خوشخبری دی جو چین کی نیند سونے کے لیے کافی تھی ،لیکن ابھی محو خواب ہوئے چند ساعتیں ہی گزریں تھیں اور کیف کا آیٹم سونگ بھی شروع نہیں ہوا تھا کہ بیگم ہر بار کی طرح تمام حفاظتی باڑوں کو پھلانگتی ہوئی کسی آفت ناگہانی کی طرح وارد ہوئیں اور ہمیں آڑے ہاتھوں لیا اور کسی نا کردہ گناہ کی ایسی سزا دی کہ نہ پوچھیں۔

صاحبو! وہ دن ہے اور آج کا دن ہم اسی سوچ میں غوطہ زن ہیں کہ چوکیدار نے کمر کس کی توڑی تھی، بیگم کی یا ہماری۔۔ ۔ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے