آپریشن جبرالٹرکے مُحرکات اورمسئلہ کشمیر

جو لوگ تاریخ کے واقعات کو ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے کے محرکات اور ایک دوسرے سے جڑی کڑیوں کی صورت میں دیکھتے ہیں ان کے نزدیک ۱۹۵۳ میں سرینگر میں منتخب وزیر اعظم کشمیر کی برطرفی اور گرفتاری ، اس کے نتیجے میں ایک سول ایجیٹیشن اور پھر 1962 میں بھارت و چین کے درمیان جنگ، 1963 میں سرینگر میں موئے مقدس کی چوری اور رد عمل میں ایک ایسی بھرپور ایجیٹیشن کہ شیخ عبداللہ کو رہا کرنے ، اور پھر انہیں پاکستان بھیجنے ، پاکستان میں ایوب خان کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کا اعلان اور نہرو ایوب کا اسی سال کے آکر میں دہلی میں ملاقات کا اعلان۔ ابھی اعلامیہ کی سیاہی بھی خشک نہ ہو پائی تھی کہ پنڈت نہرو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گے۔ شیخ عبدالہ کا مظفرآباد میں ہی دورہ کی منسوخی اور ذولفقار علی بھٹو مرحوم کے ہمراہ دہلی واپس روانگی تا کہ نہرو کی ٓآخری رسومات میں شریک ہو سکیں۔ ۱۹۶۴/۱۹۶۵ سے بالخصوص جموں کشمیر میں جو کچھ ہو رہا تھاآگے چل کر وہی پاک بھارت جنگ کا سبب بنا ۔اور یہی جنگ آگے چل کر پاکستان کو دو لخت کرنے کی وجہ بھی بنی۔

راقم نے بھارتی حکومت کی جانب سے ۲۰۱۵ میں پہلی بار پینسٹھ کی جنگ کو جشن فتح کے طور منانے کے اعلان پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ایسا کرنے سے اشتعال jb 1پھیلے گا، اس فیصلے کے پس پردہ کیا مقاصد ہیں؟ مودی سرکار کس کو کیا کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟ یہ آنے والا وقت واضح کر دے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ پینسٹھ کی جنگ میں جموں کشمیر کے عوام سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور ان کا تو بہت کچھ بدل گیا ؟ اشتعال انگیزی کا ماحول بنانے کی بجائے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ماضی کے ایسے المیوں سے سبق سیکھا جاتا ، دور بینی سے ان بنیادی وجوہات کا تجزیہ کیا جاتا کہ جن کی وجہ سے جنگ ہوئی ۔ حالات واقعات کی کڑیوں کو جوڑ کر جاننے کی کوشش کی جاتی کہ دونوں زمانوں کے و اقعات میں کتنی مشابہت ہے ؟

آپریشن جبرالٹر کی بابت ’’ بی بی سی کا کہنا ہے کہ جبرالٹر آپریشن کا مقصد پاکستان کی فوج کو مجاہدین کے بھیس میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں چوری چھپے بھیج کر وہاں بڑے پیمانے پر شورش برپا کرنا تھا ۔ منصوبہ کے مطابق یہ کمانڈوز مقامی کشمیریوں کی مدد و اعانت کے ساتھ وادی کے مختلف علاقوں میں چھاپہ مار جنگ لڑتے ہوے ۹ اگست کو jb2سرینگر میں جمع ہوتے اس روز شیخ عبداﷲ کی سن ۱۹۵۳ ؁ء میں گرفتاری کی سالگرہ کے موقع پر محاذ راے شماری نے عام ہڑتال کا اعلان کر رکھا تھااور ایک بڑے اجتماع کا اہتمام کیا گیاتھا، منصوبہ کے تحت اسی جلسہ سے کمانڈوز حملہ کرتے اور یوں ہندوستان کی حکمرانی کے خلاف بغاوت کا بھر پور آغاز ہو جا تا۔ ‘‘ (بحوالہ بی بی سی ۱۶ /اگست ۲۰۰۵)۔‘‘

بی بی سی کی یہ رپورٹ اپنی جگہ بہت اہم ہے ۔ اب ہوا یہ کہ جنگ کے خاتمے پر پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں طرح طرح کی افواہیں پھیلائی گئیں۔ زبان زد عام یہ جملہ عام ہوا کہ کشمیریوں نے غداری کی ہمارے گوریلوں کو پکڑوایا.

۱ ۔ کشمیریوں کو بزدل اور بھارتی جاسوس ثابت کرنے کیلئے اس وقت میں ڈائجسٹوں اور رسائل میں من گھڑت کہانیاں آپ بیتیاں اور افسانے لکھے گے۔ بھلا ہوآپریشن جبرالٹر کے ایک اہم کردار اور فیلڈ کمانڈر بریگیڈیر فاروق کا (جو ڈاکٹر فاروق حیدر مرحوم اور مقبول بٹ شہید کے مشترکہ دوست بھی تھے ) جنہوں نے اردو ڈائجسٹ میں اپنی آپ بیتی لکھی او ر لکھا کہ اتنی بڑی تعداد کشمیر کے اندر زندہ رہ ہی نہیں سکتی تھی اگر مقامی آبادی تعاون نہ کرتی؟ (بریگیڈیر فاروق کے والد بریگیڈیر گلزارآزاد کشمیر میں رہے ہیں)

قسط وار مضامین میں سے ایک قسط میں مدینہ مارکیٹ مظفر آباد میں شالبافی کی تجارت سے وابستہ تاجر ستار کاکا مرحوم ، مقبول نائیک اور ان کے ساتھ کام کرنے والے بہت سے نامی گرامی کشمیری کرداروں کا ذکر کیا۔کشمیریوں کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے والوں نے یہ سوچنا گوارا ہی نہ کیا کہ سرینگر میں بٹ مالو مکمل طور جلا دیا گیاآخر کیوں؟

دراصل آپریشن لانچ کرنے والے اپنی ناکامی کو چھپانے کیلیے اس قسم کاپراپیگنڈا کرا رہے تھے۔ معاہدہ تاشقند کے تھوڑی ہی مدت بعد مقبول بٹ اور ان کے ساتھییوں کا مقبوضہ کشمیر جانا کیوں ضروری سمجھا گیا ؟کشمیر کی مکمل آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کو اس کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ بہت سے دیگر ایسے واقعات ہیں جن پر Introspection کیا جانا چاہیے ۔ اور jb3ایسا کرنے میں تاریخ کے صفحات پر نظر ڈالنا بے فایدہ ماضی کھنگالنے کے زمرے میں نہیں آتا۔

لگ بھگ ۲۶ سال پرانی بات ہے آزاد کشمیر کے صدر سردار عبدالقیوم خان صاحب مرحوم نے دوران میٹنگ کسی بات پر اپنے رد عمل میں مجھ سے مخاطب ہوتے ہوے کہا کہ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ ’’آپ لوگ ‘‘ نادانستگی میں بہت کچھ غلط کر رہے ہو۔ اور کہا کہ میری بات سمجھنے اور جاننے کیلیے میری کتاب آپریشن جبرالٹر پڑھ لو اور ساتھ ہی اپنے سیکرٹری فاروق خان صاحب کو مجھے کتاب دینے کا کہا ۔ (فاروق صاحب بہ قید حیات ہیں وہ اس واقع کی تصدیق یا تردید کر سکتے ہیں) ایوان صدر سے رخصتی کے وقت میں کتاب jb 4لینا بھول گیا سو وہ میں نہ پڑھ سکا۔ سردار صاحب نے اپنی کتاب میں اس آپریشن کی بابت کیا لکھا مجھے علم نہیں اگر کسی دوست ساتھی کے پاس وہ کتاب ہو تو اس کے اقتباسات Shareکرے۔

الطاف حسن قریشی صاحب نے اردو ڈاءجسٹ میں بہت سی کہانیاں چھاپیں ،اس طرح آپریشن جبرالٹر اپنے اندر بے شمار کہانیاں لیے ہوءے ہے ۔ بھارت و پاکستان کی حکومتوں نے اپنی اپنی جگہ اس آپریشن میں کشمیریوں کے کردار پر متضاد حاشیہ آراءی کی۔ مظفر آباد میں مقیم مہاجر کشمیری ملازمین جو اعلی سرکاری عہدوں پر فائز تھے ، کی لسٹیں بنائی گئیں اور ان پر نگرانی کا عمل شروع کر دیا گیا ۔

یہ بھی لکھا گیا کہ آزاد کشمیر میں ایک اسرائیل آباد ہے ۔ بھارت نے کہا کہ پاکستان کو کشمیریوں کا تعاون نہیں ملا، کشمیری اس کے ساتھ نہیں بلکہ ہندوستان کے ساتھ ہیں۔ پاکستان کے بعض لوگوں نے آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب یہ بتایا کہ وادی کے کشمیریوں نے سرے سے تعاون نہیں کیا اور آزاد کشمیر سے گئے ہوئے مجاہدین کو پکڑوایا۔ دونوں ہی باتیں درست نہیں۔

سب سے پہلے بھارت کو کچھ واقعات یاد دلانا چاہتا ہوں تا کہ وہ جشن فتح منانے کی بجائے خود بینی سے کام لے۔ * ۹ اگست ۱۹۵۳ ؁ء کو جموں کشمیر کے پہلے وزیر اعظم کو برطرف کرنے انہیں اور ان کے سینکڑوں ساتھیوں کو جیل میں ڈالنے ، کشمیر میں سیاست کے حقیقی و داخلی (Indigenous character) پر شب خون مارنے کشمیری لیڈر شپ اور عوام کے ساتھ اعتماد کے رشتے کو ہمیشہ ہمیشہ دفن کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔

یہ بات ضرور مد نظر رکھی جانی چاہیے کہ بھارت و پاکستان نے ۱۹۴۸ سے ۱۹۵۳ کے درمیان کشمیر کے حل کیلیے رائے شماری کو ہی بنیاد بنائے رکھا ، دونوں UNCIP کی قرار دادوں کے آپریشنل حصہ (جس میں دونوں سے جموں کشمیر سے فوجیں نکالنے کو کہا گیا تھا۔) پر اختلاف ہو جانے کی وجہ سے بات چیت کرتے رہے، کمیشن کے ممبران کو کراچی و دہلی کے دورے کرنے کیلیے تمام تر سہولیات فراہم کرتے رہے جبکہ گراونڈ سچویشن بدل رہی تھی شیخ عبداﷲ وزیر اعظم بننے کے بعد ریاست جموں کشمیر کو ہر پہلو سے ایک با اختیار حکومت اور آزاد ریاست بنانے کی بات کرنے لگے۔ رائے شماری کے مطالبہ کی بجائے وہ ایک ٓآزاد ریاست کی سطح تک کے انتطامی اور حکومتی اختیار طلب کرنے لگے ۔ وہ چاہتے تھے کہ ریاست بھارت و پا کستان کے درمیان بفر زون بنے ۔ درون خانہ ان کی بات پاکستان سے چل نکلی تھی۔

پنڈت نہرو جی کو اپنے جگری دوست شیخ عبدالہ کی یہ ادا پسند نہ آئی ، * مئی ۱۹۵۸ ؁ء میں شیخ عبدالہ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کشمیر سازش کیس کا مقدمہ درج کیا گیا اور مقدمے کی وجوہات میں استغاثہ نے یہی الزام لگایا تھا ۔اضافہ میں انہوں نے اسے اینگلو امریکن سازش قرار دیا۔ برطانیہ میں مقیم میرپور آزاد کشمیر کے چند لوگوں نے مل کر ایک لیگل ڈیفنس کمیٹی بھی بنائی ، غالباً گلاسکو والے رحیم صاحب اس کے محرک یا نگران تھے۔ اور ریاست جموں کشمیر کے عوام نے جس ناراضگی اور رد عمل کا اظہار کیا اسے دلی سرکار نے خاطر میں نہ لایا، جموں کشمیر کے عوام کے جذبات و احساسات کی توہین کی جبکہ حکومت پاکستان نے جموں کشمیر میں پیدا ہوئی صورتحال سے بھر پور فائدہ اٹھانے اور ان کشمیریوں کے دل جیتنے کی کوشش کی جو ان سے ناراض چلے آ رہے تھے۔

آپریشن جبرالٹر کے مصنف جنرل اختر ملک اپنی اعلی ملٹری قیادت کو یہ باور کرانے میں بڑی حد تک کامیاب رہے کہ وادی کشمیر میں حالات شورش کیلیے سازگار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور سیکرٹری خارجہ عزیز احمد دونوں نے صدر ایوب اور جنرل موسی کو یہ باور کرایا تھا کہ امریکیوں نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ہندوستان بین الاقوامی سرحد پار نہیں کرے گا ۔امریکی صدر آیزن ہاور نے کشمیر کے ضمن میں امریکہ کو الگ تھلگ رکھنے کی جو پالیسی بنائی تھی ، صدر کنیڈی کے دور میں تبدیل ہوئی اور امریکہ jb5نے بھارت و پاکستان کو بات چیت کرنے کا مشورہ دینے اور مفاہمتی کردار ادا کرنے کی بھی پیشکش کر دی تھی۔ ۱۹۵۹ ؁ء میں چین نے جب تبت کو چین میں ضم کر لیا تودیگر محرکات کے علاوہ بین الاقوامی سیاست متحرک ہو گئی۔

بھارت و پاکستان نے حکومت برطانیہ و امریکہ کی خواہش پر باہمی بات چیت کا آغاز کیا تا کہ شیخ عبداﷲ کی گرفتاری کے بعد جموں کشمیر میں جو صورتحال بگڑی ہے اور اس وجہ سے پاک بھارت تعلقات میں جو کشیدگی آئی ہے اسے کم کیا جا سکے ۔اور تنازعہ کشمیر کا کوی عملی حل تلاش کیا جا سکے۔ بھارتی حکومت شیخ عبداﷲ پر قایم کیے گے مقدمے کے فیصلے کا انتطار کرنا چاہتی تھی تا کہ وہ دنیا کے سامنے پاکستانی مداخلت کا ثبوت عدالتی فیصلہ کی شکل میں رکھے ، جب کہ پاکستان کی حکومت شیخ عبداللہ کی قید سے پیدا ہونے والی صورتحال عوامی رد عمل اور عوامی بے چینی سے فایدہ اٹھانا چاہتا تھا ، کشمیر میں بھارتی حکومت کی پیدا کردہ صورت حال پاکستان کیلئے نہایت موزوں تھی۔

سرینگر میں بخشی سرکار کی غنڈہ گردی ظلم و جبر جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کر رہی تھی، غلام قادر گاندھربلی نے انسانیت سوز تشدد کر کے کشمیر سازش کیس کے بنیادی اہم ملزم (میرے انکل) پیر مقبول گیلانی کے خلاف ان کے اپنے انتہائی قریبی عزیزوں کو وعدہ معاف گواہ بنا لیا ۔ وہ اس وقت پنڈت نہرو کی ذاتی دلچسپی سے پیرول پر دلی علاج کیلیے آئے تھے اور مردولہ سارا بائی کے ہاں قیام پذیر تھے ۔ پیشتر اس کے وہ دوبارہ گرفتار ہوتے وہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے تعاون سے پاکستان منتقل ہونے میں کامیاب ہو گے۔ حکومت ہندوستان نے پیر صاحب کو محفوظ راہ داری فراہم کرنے پرپاکستان سے شدید احتجاج کیا ۔

ان اور دیگر جڑی وجوہات کی وجہ سے اس وقت بھی پاک بھارت بات چیت کا عمل انتہائی سست روی کا شکار ہو گیا۔ اسی اثنا میں خطے میں ایک اور بڑا اہم واقعہ پیش آ گیا جس نے علاقائی ہی نہیں بلکہ عالمی سیاست کے زاویے بھی تبدیل کر دیے۔ ۱۹۶۲ میں بھارت و چین کے مابین جنگ شروع ہو گئی۔ پاکستان کے صدر ایوب خان نے کشمیر کے حل میں امریکی مدد کے وعدے کی وجہ سے پاکستان کو چین بھارت جنگ میں چین کی خواہش کے بر عکس الگ رکھا۔

۲۷ دسمبر ۱۹۶۳ ؁ء کو سرینگر میں موئے مقدس کی چوری کا واقع پیش آ گیا اور پوری وادی میں پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے۔ حکومت نے ۴ جنوری ۱۹۶۴ کو موئے مقدس کی بازیابی کا تواعلان کیا مگر لوگوں نے حکومتی دعوے کی صحت پر یقین نہ کیا اور مظاہروں کو جاری رکھنے کا اعلان کر دیا ، ۲۵ جنوری کو مولانا مسعودی کی سربراہی میں محی الدین کرہ ، میر واعظ مولوی محمد فاروق، (میر واعظ عمر فاروق کے والد ) پر مشتمل ایکشن کمیٹی بنانے اور موئے مقدس کے اصلی ہونے کی تصدیق کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کمیٹی نے بڑی برد باری اور دور اندیشی کے ساتھ مشتعل لوگوں کی رہنمائی کی اور ان کے جذبات کو قابو میں رکھا۔ ( سرینگر کے دوست ان معلومات کو درست کر سکتے ہیں ، یہ وہ معلومات ہیں جو پنڈی پہنچی تھیں۔ )۔

۹ فروری ۱۹۶۴ کو بھارتی خفیہ ایجنسی IB کے سربراہ بی این ملک نے سرینگر کا دورہ کرنے کے بعد پنڈت نہرو کو بریفنگ دیتے ہوے بتایا کہ ’’ میں نے ۳۱ دسمبر ۱۹۶۳ سے ۴ جنوری ۱۹۶۴ تک کشمیر میں جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اس سے لگتا ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے‘‘ اور یہ لغو الزام بھی لگایا کہ موئے مقدس کی چوری ایک سازش ہے اور اس واقعے کے پیچھے بھی پاکستان کا ہاتھ ہے اور ایسا پیر مقبول گیلانی کے ذریعے کرایا گیا ہے(بی این ملک نے اس کا تذکرہ اپنی کتاب میں بھی کیا ہے) ۔بی این ملک کے اس الزام کی حکومت پاکستان نے فوری تردید جاری کی اور ۱۵ فروری کے روز پیر مقبول گیلانی نےراولپنڈی میں قائم آزاد کشمیر ریڈیو تراڑکھل پر کشمیری زبان میں تقریر کر کے اس الزام کوسختی سے مسترد کیا اور وادی کشمیر کے عوام سے پر امن طور اپنی جدوجہد جاری رکھنے او ر ایکشن کمیٹی کی طرف سے جاری کی جانے والی ہدایات پر عمل کرنے کی اپیل کی۔

وادی کشمیر کے طول و عرض میں تیزی سے پھیلتی عوامی بے چینی سے بھارتی حکومت کی گرتی ساکھ کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا ، پنڈت نہرو نے بیرونی دوستوں کے مشوروں کی روشنی میں کانگریس کی مرکزی رہنما مردولا سارا بائی اور چند دیگر اہم ساتھیوں سے مشورہ کے بعد جموں کشمیر کی مقبول لیڈر شپ شیخ عبداﷲ کو رہا کرکے ان کے ساتھ سیاسی مکالمے کے آغاز اور اور کسی ممکنہ مفاہمت پر پہنچنے کا اہم تاریخی فیصلہ کیا ۔

اسی مشاورت کے دوران اصولی طور یہ طے کر لیا گیا کہ کشمیری لیڈر شپ کے ساتھ جو بھی طے ہو اس پر پاکستان کو بھی شامل کیا جائے ، یہ پنڈت نہرو کا ایک اہم فیصلہ تھا ، یاد رہے اس وقت پاکستانی وزیراعظم محمد علی بوگرہ اورنہرو کے درمیان دو طرفہ بات چیت چل تو رہی تھی۔مگر سست روی کا شکار تھی۔

پنڈت نہرو کو یہ بات سمجھ آ گئی کہ پاکستان کو کشمیری قیادت کے ساتھ بات چیت کا حصہ بنائے بغیر جموں کشمیر میں نہ امن بحال ہو سکتا ہے نہ کوئی حل نکل سکتا ہے۔ کسی بھی حل میں پاکستان کا آن بورڈ ہونا ضروری سمجھا گیا۔ شیخ عبداﷲ رہائی کے فوری بعد بھارتی وزیر اعظم سے ملے ، ان کے اعزاز میں ایک پر تکلف عشائیہ دیا گیا ، بات چیت ہوئی اور دہلی سرینگر سیاسی قیادت کے درمیان مکالمہ کا عمل آگے بڑھانے کیلیے اعتماد سازی کے کچھ اقدامات پر اتفاق ہوا۔

جب شیخ عبداﷲ کو بتایا گیا کہ بات چیت کے عمل کو نتیجہ خیز بنانے اور مسلہ کشمیر کا قابل عمل اور قابل قبول حل تلاش کرنے کے ضمن میں ان کے پاکستان جانے کی ساری سفارتی اور انتظامی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں تو انہوں نے اپنے وفد کی فہرست حکومت ہندوستان کو فراہم کر دی ۔ جب ریاست اور ریاستی ادارے کوئی کام کرنا چاہیں تو ہفتوں کا کام دنوں میں اور دنوں کا کام گھنٹوں میں ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں تو دو نوں آزاد ریاستیں اور ریاستوں کے معاملات کا مسئلہ تھا جن کے درمیان تلخی تھی اور گہری بد اعتمادی ۔ بھارتی حکومت نے جس کشمیری لیڈروں پر غداری اورسازش کا مقدمہ قائم کیا وہی گھنٹوں میں پاسپورٹ اجرا ءکر کے تمام تر سفری انتظامات کر رہی ہے .

کہا جاتا ہے کہ شیخ عبداﷲ نے اپنے درخواست فارم میں قومیت کے خانے میں کشمیری لکھا تھا جسے نظر انداز کر دیا گیا یا اس پر توجہ نہ دی گئی۔ اور اسی قسم کے طرز عمل کا مظاہرہ دوسری جانب سے بھی کیا جا رہا تھا۔ حکومت پاکستان جس نے شیخ صاحب کو ایک موقع پر ناپسندیدہ اور بھارتی ایجنٹ قرار دیا تھا کو گھنٹوں میں ویزے اجراءکر کے پورے پروٹوکول کے ساتھ ریاستی مہمان بنانے پر آمادہ ہو جاتی ہے ۔ ایسا طرز عمل کسی مسئلہ کو حل کرنے میں پختہ ارادے کا اظہار کرتا ہے، ایسے اتفاق رائے کا ہونا ایک سفارتی معجزے سے کم نہیں تھا، شیخ عبداﷲ کا راولپنڈی میں تاریخی استقبال اس بات کی غمازی کرتا تھا کہ پاکستان تنازعہ کشمیر کے کسی بھی ایسے حل کی تائید کرے گا جس سے کشمیری لیڈر شپ مطمئن ہو۔

چوہدری غلام عباس ، میر واعظ مولوی یوسف شاہ ، صدر آزاد کشمیر کے ایچ خورشید سمیت ساری کشمیری قیادت استقبال کیلیے موجود تھی ۔ ان کی انفرادی و اجتماعی نشستیں ہوئیں ۔ (بات چیت کا ویسا ماڈل مکینزم آج کل بھی اپنایا جا سکتا ہے )۔ شیخ عبداﷲاور صدر ایوب کے درمیان مظفر آباد روانگی سے قبل ایک اور ملاقات ہوئی، اس میں شیخ صاحب کو ایک اور پیش رفت سے متعلق بتا دیا گیا کہ ماہ جون ۱۹۶۴ میں ایوب خان دہلی آ کر پنڈت نہرو سے ملیں گے البتہ مناسب تاریخ کا تعین کرنے کیلیے دونوں دارلخلافوں میں متعلقہ حکام رابطہ میں ہیں۔

یہ بھی ایک اہم پیش رفت تھی لا محالہ کوئی تیسرا ایسا سہولت کار تھا جو بڑا ہی با اثر تھا جو دونوں حکومتوں کی طاقتور قیادت پنڈت نہرو اور ایوب خان سے رابطہ میں تھا۔اور یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ وہ امریکہ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا۔ شیخ صاحب اپنے دورہ پاکستان کے اگلے مرحلے میں مظفرآباد پہنچے ، یہاں بھی پورے سرکاری پروٹوکول کے jb6ساتھ آزاد کشمیر کے صدر کے ایچ خورشید نے ان کا استقبال کیا، ہجوم اتنا بڑا تھا کہ سب ہی مہمانوں کو ایک جیسی توجہ ملنا مشکل ہو تا ہے ، حفیظ جالندھری مرحوم اور کے ایچ خورشید مرحوم کے درمیان تلخ کلامی کی وجہ یہی تھی مگر یار لوگوں نے اس کی بھی کہانیاں گھڑ ڈالیں۔

جہلم پل پر راجہ محمد حیدر خان نے اہلیان شہر کی جانب سے ان کا استقبال کیا ، ان کے ہمراہ چکار کے سردار حاکم سنگھ بھی تھے۔ پھر ایک حادثہ ہو گیا اور کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ ایسا کچھ بہت مرتبہ ہو چکا۔ جب بھی حل کی سمت پہنچنے والے ہوتے ہیں کوئی نہ کوئی حادثہ انہیں منزل سے دور لا کھڑا کرتا ہے ۔ دلی میں ہندستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گے اور شیخ عبدا ﷲ اور ان کے وفد نے خبر سنتے ہی تمام مصروفیات منسوخ کرتے ہوئے واپس دلی جانے کا فیصلہ کیا۔

حکومت پاکستان نے شیخ صاحب کا عندیہ معلوم کرنے کے بعد ان کے راولپنڈی پہنچنے سے قبل ہی طیارے کا بندوبست کر لیا، پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ وزیر اعظم ہند کی آخری رسومات میں شرکت کیلئے دہلی واپس چلے گئے ۔راستے میں بھی شیخ عبداﷲ اور بھٹو کے مابین سوگوار ماحول میں بھی غیر رسمی بات چیت چلتی رہی اور اس سانحہ سے بات چیت کی ریل گاڑی کو بریک لگ گئی.

بھارت کا نیا وزیر اعظم اتنے بڑے قد کاٹھ کا تو تھا نہیں کہ وہ جموں کشمیر کے سوال پر نہرو ۔ ایوب ۔ عبداﷲ مفاہمتی فارمولے کو آگے بڑھاتا۔ مگر بعد کے کچھ واقعات سے ایسے اشارے ملتے ہیں کہ وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے پاک بھارت مذاکرات کے پس پردہ سہولت کاروں کو یقین دہانی کرائی کہ وہ مناسب وقت پر ڈائیلاگ کو واپس پٹڑی پر ڈال دیں گے۔ راولپنڈی sheikh abdullahمیں جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور شیخ عبداﷲ مرحوم کے دست راست سمجھے جانے والی شخصیت پیر مقبول گیلانی مرحوم جو میرے انکل تھے اور جو شیخ صاحب کے دورہ پاکستان کے انتطامی معاملات میں رابطہ کار اور نگران تھے ، کو ایوب خان نے ملاقات کیلئے پیغام بھیجا۔

اس ملاقات میں شیخ عبداﷲ کے مجوزہ دورہ مشرق وسطی کے حوالے سے بات ہوئی۔ انہیں بتایا گیا کہ بھارت کی حکومت نے شیخ عبداﷲ کو سفر کی اجازت دے دی ہے اور کہا کہ آپ بھی حج پر جانے کی تیاری کریں ۔ اسی میٹنگ میں ملک حبیب اﷲ بھی موجود تھے ان کی تجویز پرپیر صاحب کی سربراہی میں وادی کشمیر سے تعلق رکھنے والی دو شخصیات جو ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۷ کی حکومت میں وادی کے کوٹے سے وزیر بھی رہے ۔خواجہ ثنااﷲ شمیم اور خواجہ غلام دین وانی مرحوم جو اتفاق سے میری بہو کے نانا بھی ہیں، پر مشتمل رابطہ کمیٹی کو جدہ بھیجنے کا فیصلہ ہوا ۔(یاد رہے اس وقت آئی ایس آئی کا تو وجود نہیں تھا، کشمیر کے معاملات آئی بی ، وزیر امور کشمیر اور سرحدوں پر ایف آئی یو والے چلایا کرتے تھے۔ ) چناری میں بیٹھے راجہ سجاول خان ایریا افسر کے نام سے بہت سے لوگ واقف ہوں گے ، اس شخص نے بہت کار ہائے نمایاں انجام دیے تھے ۔

فروری ۱۹۶۵ میں شیخ عبداﷲ اور دیگر کشمیری رہنماوں کا وفد مشرق وسطی پہنچا ، قاہرہ میں صدر ناصر ، الجزائر میں صدر بن بیلہ اور پھر چینی وزیر اعظم چو این لائی سے کشمیری رہنماوں کی ملاقاتوں میں پاکستان کی کامیاب سفارتی کوششوں کا بڑا عمل دخل تھا (آج تو اس سطح کی کشمیری رہنماوں سے کسی ایک بڑی ملاقات کا حوالہ نہیں ملتا ماسوائے اسلامی ممالک کے وزراے خارجہ کے اجلاسوں میں میر واعظ عمر فاروق کی ملاقاتیں چند ایک وزرائے خارجہ سے کرائی گئیں۔ اعتبار اور معیار دونوں چیزوں کا فقدان ہے )

جدہ میں اس وقت پاکستان کے سفیر خواجہ شہاب الدین جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا، نے بہت محنت کی ، میرے انکل کا کہنا تھا کہ رات دیر تک خواجہ شہاب الدین کے گھر پر مجلسیں سجتیں اور مختلف ممالک کے سفیروں کو دعوتوں پر بلا کر شیخ عبداللہ سے ملاقاتیں کرائی جاتیں۔ شیخ عبداللہ کا اپنے قد کاٹھ اور پاکستان کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں سعودی عرب اور مشرق وسطی کے میڈیا میں خبریں‌چلنے سے بھارتی میڈیا میں شور اٹھا ۔

ہندوستان کی حکومت نے شیخ صاحب کو دورہ ادھورا چھوڑ کر واپس آنے یا پاسپورٹ سرنڈرکرنے کیلیے پیغام بھیجا۔ پاکستان کے سفیر خواجہ شہاب الدین کی رہائش گاہ پر مشوروں کے بعد ، شیخ صاحب نے واپسی کا فیصلہ کیا ۔ پاکستان کی طرف سے سیاسی پناہ لینے کی تجویز کو شیخ عبداللہ نے کس ملک کے سفیر کے مشورہ پر قبول کرنے سے معذرت کی اس پر بھی لکھوں گا ۔بہر کیف قصہ مختصر شیخ عبدالہ اور ان کے ساتھیوں کو جدہ سے واپسی پر پالم کے ہوائی اڈہ پر ہی ڈیفنس رولز آف انڈیا کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔

کشمیر میں احتجاجی مگر پر تشدد مظاہرے شروع ہوگئے ، اس وقت کے پاکستانی اخبارات نے لکھا کہ ان مظاہروں کے دوران ۴۰ لوگ مارے گے اور تین سو کے قریب زخمی ہوئے۔ یہ صورتحال کشمیریوں کو بھارت سے مزید دور کرتی چلی گئی۔ سرینگر میں غلام رسول زیگیر، نذیر وانی جیسے درجنوں نوجوانوں نے زیر زمین سرگرمیاں شروع کر دیں، منشی اسحاق کی abdullahصدارت میںJKPF کے ہونے والے اجلاس میں رائے شماری کے مطالبے کو زیادہ نمایاں طور سامنے لایا گیا۔ سیکلو سٹائل مشینوں نے ہینڈ بل تیار کرنے کا کام شروع کر دیا ۔ ایک ایسی صورتحال پیدا ہو گئی جس میں آپریشن جبرالٹر جیسے منصوبوں کی گنجائش پیدا ہو جانا فطری امر ہے۔

مظفر آباد میں ویلی سے تعلق رکھنے والے با اثر کشمیری مہاجرین جو زیادہ تر اعلی حکومتی عہدوں پر فائز تھے ، میں سے چیدہ چیدہ افراد کوایک خاص سطح تک اعتماد میں لیا گیا تھا تاکہ ان کے رابطوں اور اثر رسوخ کو کشمیر کے دوسری جانب افرادی قوت اور سامان حرب و ضرب کی نقل و حمل میں مدد لی جا سکے۔ اگر ان میں سے کوئی لوگ بقید حیات ہوں توان سے تصدیق کی جا سکتی ہے۔ راولپنڈی میں میر واعظ خاندان کے چند افراد اور ان کے چیدہ چیدہ مریدوں سے بھی راز و نیاز ہوا تھا۔ بارہمولہ سرینگر کشمیر اور جموں، راجوری اور بھدرواہ سے ہجرت کر کے آنے والی چند بااثر شخصیات کو بھی بنائے گے چھوٹے سے سیل کا حصہ بنایا گیا۔ جس کا نام کشمیر لبریشن کونسل رکھا گیا ۔

آپریشن کی حساسیت کے پیش نظر کسی بڑی قابل ذکر شخصیت سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ میر واعظ صاحب اور پیر صاحب کی معرفت مولانا مسعودی، مولوی میر واعظ محمد فاروق ، صدرالدین مجاہد ، محی الدین کرہ جیسی کچھ شخصیات ایسی تھیں جنہیں پیشگی اطلاع کر دی گئی تھی۔دراصل جبرالٹر آپریشن اس قدر خفیہ تھا کہ پاکستان کی فضائیہ کے سربراہ ائیر مارشل اصغر خان کو بھی نہیں بتایا گیا تھا۔ آزاد کشمیر میں چوہدری غلام عباس کو بھی اس بارے میں اس وقت علم ہوا جب صدائے کشمیر کے نام سے شروع ہونے والے ریڈیو اسٹیشن پر یہ اعلان ہوا کہ وہ اس منصوبہ کے تحت قائم ہونے والی لبریشن کونسل کے ممبر بنائے گے ہیں ۔

گذشتہ دنوں ڈاکٹر شکیل مجاہد صاحب نے اپنے والد صدرالدین مجاہد صاحب کے کردار کی بابت جو لکھا وہ ان کے دوسرے بھائی دور درشن والے شبیر مجاہد نہیں لکھ سکتے تھے ، مجھے اس بات کا اندازہ ہےمگر سرینگر کے دوست ان واقعات پر زیادہ مصدقہ معلومات لکھ سکتے ہیں

نوٹ: یہ مضمون یکم ستمبر ۲۰۱۵ کو لکھا تھا جسے مورخہ ۷ فروری ۲۰۱۷ کو فرحان احمد صاحب کی فرمائش پر معمولی قطع و برید بعد از سر نو لکھا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے