اسلامک بینکنگ —-چند گذارشات

مملکت خداد کے مشہور ومعروف قانون دان ، محترم جناب ڈاکٹر مشتاق صاحب – بارک اللہ فی عمرہ – نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں موجود اسلامک بینکنگ سسٹم پہ کچھ اشکالات فرمائے ہیں ، ظاہر ہے کہ غیرمنصوص اور مجتہد فیھا مسائل میں اھل علم کی آراء کا مختلف ہونا نہ صرف ناگزیر بلکہ شرعا مطلوب بھی ہے ۔ اس طرح کے تفاوت آراء سے نہ صرف تشنگان علم پر نئی راہیں کھلتی ہیں ، بلکہ ان کے شوق طلب کو مزید مہمیزبھی مل جاتی ہے ۔ نیز کسی بھی غیرمنصوص معاملہ کو حدود میں رکھنے کیلئے اس طرح کے اھل علم کا وجود ، ان کی تحریریں نعمت خداوندی ہواکرتی ہیں ۔

امام ابوبکر رازی – رحمہ اللہ – لکھتے ہیں کہ : ایک دفعہ امیر المومنین سیدنا عمر فاروق – رضی اللہ عنہ نے پیارے محمد رسول ﷺ فداہ ابی وامی – سے کلالہ کی میراث کی تقسیم کے بارے میں دریافت کیا ، تو آپ علیہ السلام – بجائے تفصیلی جواب کے قران کریم سورہ مائدہ کی آیت 176کی تلاوت فرمائی ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سمجھ نہ سکے ، تو انہوں نے اپنی صاحبزادی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنھا سے کسی مناسب موقع پر رسول اللہ ﷺ سے سوال کرنے کا کہا ، اماں جی فرماتی ہیں ، ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا تھا کہ آپ ﷺ نے فورا فرمادیا : آبوک کتب لک ھذا ؟ ابو کے کہنے پہ سوال پوچھ رہی ہو نا؟ پھر آپ ﷺ نے جواب نہیں دیا ، بس اتنا فرمایاکہ : میرا خیال یہ ہےکہ تمہارے ابو اسے کھبی سمجھ نہیں پائیں گے!(1)

ادھر سیدنا عمر بڑے کیف سے اپنا یہ حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : جتنا میں نے رسول اللہﷺ سے کلالہ کے بارے پوچھا، کسی اور بارے نہیں پوچھا ، اور مجھےاس مسئلہ میں رسول اللہ ﷺ سے ڈانٹ بھی خوب پڑی! بلکہ ایک دفعہ تو آپ ﷺ نے اپنی انگشت مبارک میرے سینے مار کرفرمایا ، الاتکیفیک ایة الصيف ؟(2)

علامہ نووی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ڈانٹنے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آپﷺ کو یہ اندیشہ ہوگیا تھا کہ اس طرح سے سیدنا عمراوردیگرحضرات فروعی مسائل میں نصوص پر انحصار کرنے لگیں گے ، جس سے نصوص سے احکام کے استنباط ، جوکہ ایک امر خداوندی ہے ، کا دروازہ بند ہوجائے گا ۔

اس لئے علمی اختلافات جب تک ان کے پیچھے حسد، عناد ، شخصیت پرستی نہ ہو تو اھل علم کیلئے یہ دسترخوان پر دھری مختلف چٹنیوں کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے اھل ذوق بجائے باہم دست وگریباں ہونے کے حظ اٹھاتے ہیں۔اس لئے میرے خیال میں بینکنگ کے جواز وعدم جواز کو بھی اسی نظر سے دیکھا جائے.

گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن
اےذوق اس جہاں کوہے زیب اختلاف سے

محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنی مذکورہ تحریر میں پانچ بنیادی نکات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ البتہ اس سے قبل انہوں نے لکھا ہے اور خوب لکھا ہے کہ ” کئی احباب کیلئے یہ معامہ دلیل سے زیادہ عقیدت” کا بن چکا ہے ،میں اس سے بالک متفق ہوں تاہم اتنا ضرور کہوں گا کہ مجوزین اور ناقدین دونوں طرف عموم پیدا کردیا جائے تو زیادہ اچھا ہوگا۔ڈاکٹر صاحب نے پہلا نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ بینک قانون کی نظر میں ایک شخص ہوتا ہے اور شخصِ قانونی یا شخصِ اعتباری کا یہ تصور اسلامی قانون کے لیے بالکل ہی ناقابلِ قبول ہے ۔

اس سلسلہ میں میری گذارش یہ ہے کہ ” اس میں دو رائے نہیں کہ ” شخص قانونی ” کی
موجودہ اصطلاح اسلامی فقہ کی نہیں ۔بلکہ Adopted ہے۔ فقہ کی کلاسیکل کتب اس کے جواز یاعدم جواز کے بارے خاموش ہیں۔لیکن بایں ہمہ فقہ اسلامی میں اس کا تصور موجود ہے یا نہیں ؟ اس کے بارے اھل علم کی دو آراء ہیں ، ایک رائے مکمل نفی کی ہے ، جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں کئی ایسی سیاسی ، اقتصادی اور اجتماعی کیانات (ENTITIES) موجود ہیں ، کہ ان سے کسی طرح بھی صرف نظر کرنا عملا ممکن نہیں۔

دوسری طرف خود فقہ اسلامی میں اس کے کچھ نظائر بھی موجود ہیں ، مثلا وقف ، بیت المال ، ترکہ مستغرقہ بالدین اور خلطۃ الشیوع وغیرہ ، نیز ان حضرات کے نزدیک اگر اسے اپنا لیا جائے تو اس سے مقاصد شریعہ پر بھی کوئی زد نہیں پڑتی ، لہذا اس کے اعتراف کرنے میں کوئی حرج نہیں ، چونکہ میرا بنیادی مقصد ڈاکٹرصاحب جیسے اھل علم حضرات سے سیکھنا ہے ، مناظرہ یا رد نہیں ، اس لئے دلائل کی تفصیل میں نہیں جاتا ، البتہ اپنے طلبہ دوستوں کے لیے چند کتب کا نام درج کیئے دیتا ہوں جن کے مطالعہ سے کسی حد تک موضوع سے متعلق مفید معلومات مل ہوسکتی ہیں ۔
1.الشخصية الاعتبارية في الفقه الإسلامي والقانون الوضعي ( د.سيد عبده بكرعثمان )

2-افتراض الشخصية (د. عبد الله مبروك النجار)

3.الشخصية الاعتبارية في الفقه الاسلامي (د.أحمد على عبد الله )

4. العقود الشرعیہ الحاکمہ للمعاملات المالیہ (د۔ عیسی عبدہ)

5.المقارنات الشرعیہ (د۔ عبد اللہ حسین)

6.النظام المصرفی (د۔ محمد سراج)

نیز انگریزی میں Legal Personality in Islamic Law اور اردو میں حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب نے اس پہ سیر حاصل بحث فرمائی ہے۔
المختصر یہ کہ شخص قانونی کے معاملہ پر اھل علم کی آراء کافی عرصہ سے مختلف چلی آرہی ہیں۔

ڈاکٹرصاحب نے بینکنگ کے بارے کہا ہے کہ اپنی اصل کے اعتبار سے بینک قرض لینے اور دینے کو کہتے ہیں ۔اگرچہ بینک یا بینکنگ کی کئی ایک تعریفیں کی گئیں ہیں اور ان تعریفوں کے اختلاف کا اثر نفس مسئلہ پر بھی پڑا ہے لیکن قطع نظر اس کے کہ بنک اپنی اصل کے یا مقصد کے اعتبار سے جو بھی ہو ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بنک کو کسی جائز اور صحیح مقصد کیلئے استعمال کرنا ممکن ہے یا نہیں ؟ کیا نیشنل یا انٹرنیشنل طور پر کوئی ایسا قانون موجود ہے کہ جو بنک کو سوائے سودی قرضوں کے لین دین کے کسی اور ایکٹویٹی سے باز رکھتا ہو ؟ اگر ایسا کوئی قانون نہیں تو پھر اس سے مسئلہ کی تکییف پر کیا اثر پڑے گا ؟ میں سمجھ نہیں سکا ، البتہ جو محترم نے اگلا جملہ لکھا ہے کہ
اسلامی قانون کی رو سے قرض، خواہ بغیر سود کے ہو، ناجائز ہے اور صرف اسی صورت میں جائز ہوسکتا ہے جب یہ بطور تبرع ، یعنی خیرات کے طور پر، دیا جائے۔ ذرا سوچیے ایک غریب اکاؤنٹ ہولڈر ایک کھرب پتی شخص (یعنی بینک) کو خیرات دیتا ہے. بالکل درست ہے ، اور یہی بات ڈاکٹر صاحب کے استاد مکرم ڈاکٹر نیازی صاحب – مدظلہ – نے اپنے الفاظ میں یوں کہی ہے
The only loan allowed in Islam is the compassionate loan that does not fix a period for repayment) An open letter to Islamic bankers
یعنی شرعی نقطہ نگاہ سے صرف و ہی قرض درست ہے ، جس کی بنیاد ہمدردی اور مواسات پر ہو ،(یعنی قرض حسنہ ) اوراس کی واپسی کیلئے کوئی مدت مقرر نہ کی گئی ہو۔ ڈاکٹر نیازی صاحب نے اپنےدوسرے مضمون Islamic banking is haram میں اس کی وجہ یہ لکھی ہے ، کہ بینک کے تمام اکاونٹس بنیادی طور پرقرض کے زمرے میں آتے ہیں ، چنانچہ حضرت لکھتے ہیں : The reason is that any account that we open with a bank – current account ,saving account , fixed deposit and so on is in reality a loan یعنی اس کی وجہ یہ ہے کہ بینک میں ہم جو بھی اکاونٹ کھولتے ہیں ، خواہ وہ کرنٹ اکاونٹ ، سیونگ ، فکسڈ ڈپازٹ کوئی بھی ہو ، حقیقت میں قرض ہی ہے کیونکہ اسلام میں قرض حسنہ کے سوا دوسرے کسی قرضہ کی گنجائش نہیں۔

دونوں صاحبان کی یہ بات روایتی بینکوں (conventional banks) کے اکاونٹس سے متعلق تو درست ہے، لیکن اسلامک بینکوں کے بارے کم از کم مجھے قابل اطمینان نظرنہیں آئی کیونکہ اسلامی بینکوں کے جواکاونٹس ہیں ان کی فقہی تکییف اور سٹیٹس ہی الگ ہے۔ اسلامی بینکوں میں ان اکاونٹس کی بنیاد مشارکہ ، اور مضاربہ پر ہوتی ہے ، لہذا قرض دینے کا کوئی سوال ہی نہیں ، البتہ کرنٹ اکاونٹ کے بارے یہ کہاجاسکتا ہے کہ وہ قرض ہے ، اگرچہ اس میں میں بعض حضرات اھل علم انہیں ودائع – امانات – سے تعبیر کرتے ہیں ، لیکن درست بات یہ ہے کہ یہ ودائع نہیں ، کیونکہ یہ مضمون ہوتے ہیں ، یعنی ھلاک ہونے کی صورت میں بینک پرذمہ داری (Liability ) عائد ہوتی ہے ، لیکن سب جانتے ہیں کہ کرنٹ اکاونٹ میں کوئی Period for repayment نہیں ہوتا۔ بلکہ اکاونٹ ہولڈر جب چاہے ، جتنا چاہے بنک سے نکال سکتا ہے ، لہذا اس پر( payment delay ) والا اشکال تو نہیں ہوسکتا ، زیادہ سے زیادہ یہ بات ہوسکتی ہے کہ کرنٹ اکاونٹ کے پیچھے ہمدردی والا جذابہ کارفرما نہیں ہوتا ۔ فقہاء کرام نےممکن ہے قرض حسنہ کے جواز کیلئے ہمدردی کی شرط لگا ئی ہو جو میرے علم میں نہیں ہے بلکہ صحیح بخاری کی مشہور حدیث ” برکۃ الغازی فی مالہ ” کے تحت سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے عمل سے اس بات کی مزید وضآحت ہوجاتی ہے ، کہ قرض ہمدردی کے علاوہ حفاظت کی نیت سے بھی دیا اور لیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ جب لوگ اپنی اپنی امانتیں لے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آتے تھے ، تو سیدنا زبیر بجائے ان کو امانت کے قبول کرنے کے فرماتے تھے : لا لکن ھو سلف (5)
یعنی میں آپ کی رقم صرف اسی صورت قبول کرسکتا ہوں ، جب اسے قرض قرار دیا جائے ۔

آخر میں بار دگر عرض ہے کہ کہاں میرے جیسا طفل مکتب اور کہاں نیازی صاحب اور مشتاق صاحب کی رائے سے اختلاف ؟ لیکن انہی کے طرح کے اساتذہ نےاپنے شاگرودوں کو یہ صراط مستقیم دکھائی کہ دلائل کی روشنی میں علمی اختلاف کوئی گستاخی وبے ادبی نہیں ، بلکہ انہی کا ایک معنوی فیض ہوتا ہے۔
[pullquote]
حوالہ جات[/pullquote]

1۔الجصّاص ،الرّازي،أبوبكر،أحمدبن علي،أحكام القران،تفسيرسورة النّساء الأية 12، دارإحياء التراث العربي بيروت،سنة 1405 ج3/ص18
2- النووی ،ابوزکریا، یحی بن شرف ،شرح صحیح للمسلم ،كتاب الفرائض،باب ميراث الكلالة،دارالجيل بيروت،سنة2010م ج5/61
3- Nyazee , ahsan Imran , an open letter to Islamic bankers & economists , federal law house , Islamabad ,2013 page 3
4- Nyazee , ahsan Imran , Islamic banking is haram , federal law house ,islamabad pg.3
5-البخاری ، ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحیح ، کتاب الجہاد ، باب برکہ الغازی فی مالہ ، مع شرحہ فتح الباری ، دارالمعرفة بيروت ، سنة 1379هج 6/ 228
. 6- Nyazee , ahsan Imran , an open letter to Islamic bankers & economists , federal law house , Islamabad ,2013 page 4

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے