لاہور دھماکے کی تحقیقات، جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ

لاہور: پنجاب حکومت نے لاہور میں حالیہ خودکش دھماکے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا فیصلہ کرلیا۔

جے آئی ٹی کی تشکیل کی درخواست پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی جانب سے کی گئی تھی۔

جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی)، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور دیگر تحقیقاتی اداروں کے افسران بھی شامل ہوں گے۔

جی آئی ٹی مال روڈ پر ہونے والے خود کش دھماکے کے حوالے سے تمام شواہد کا جائزہ لے گی اور سرکاری ہسپتالوں میں زیر علاج زخمیوں کے بیانات بھی قلمبند کرنے کے بعد اپنی تفصیلی رپورٹ پیش کرے گی۔

گذشتہ روز سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) سی ٹی ڈی نے وزیراعظم نواز شریف اور پنجاب حکومت کو اب تک کی تحقیقات کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے جے آئی ٹی کی تشکیل کی درخواست کی تھی۔

رواں ہفتے 13 فروری کو پنجاب اسمبلی کے سامنے ہونے والے خودکش دھماکے کے نتیجے میں ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن (ر) احمد مبین اور ایس ایس پی آپریشنز زاہد گوندل سمیت 13 افراد جاں بحق اور 85 زخمی ہوگئے تھے۔

خودکش دھماکا پنجاب اسمبلی کے سامنے مال روڈ پر ہوا، جس کے نتیجے میں آج ٹی وی کی ڈی ایس ین جی کا ڈرائیور، انجینئر اور کیمرا مین بھی زخمی ہوئے۔

اس واقعہ کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروپ ‘جماعت الاحرار’ نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

لاہور کے مال روڈ پر ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد پنجاب کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے کالعدم عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف پورے صوبے میں کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا ہے۔

تفتیشی افسران کا کہنا تھا کہ خودکش حملہ آور کا اصل ہدف پولیس افسران تھے، جس نے کیمسٹس کے احتجاج کے دوران خود کو دھماکے سے اڑایا۔

پنجاب ہوم ڈپارٹمنٹ کے صوبائی انٹیلی جنس سینٹر نے صوبے کے مختلف شہروں میں سیکیورٹی بڑھانے کے حوالے سے پولیس کے اعلیٰ افسران کو ہدایات جاری کردیں۔

تفتیشی معاملات سے آگاہ ایک عہدیدار نے بتایا کہ دیگر شہروں میں اسی قسم کے حملوں کی انٹیلی جنس رپورٹس کی بناء پر کریک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا۔

ہوم ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری ہونے والے مراسلے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ٹریفک پولیس کے عملے کو مہارت سے استعمال کرتے ہوئے ٹریفک جام کے سلسلے کو روکا جانا چاہیے، جو کہ سیکیورٹی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔

مزید کہا گیا کہ ان علاقوں میں کومبنگ آپریشنز کیے جائیں جہاں افغان/پٹھان آبادی رہائش پذیر ہے۔

دوسری جانب مشتبہ حملہ آور کے جسم کے اعضاء بھی ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے بھیجے جاچکے ہیں۔

پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ‘ہم نے مال روڈ سے مشتبہ حملہ آور کے جسم کے اعضاء (جس میں اس کی کھوپڑی، جبڑہ، بال، ایک ٹانگ، دو ہاتھ اور کچھ دیگر اعضاء شامل ہیں) جمع کرکے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے فرانزک سائنس لیبارٹری بھجوا دیئے ہیں’۔

مذکورہ عہدیدار کا کہنا تھا کہ جماعت الاحرار واحد دہشت گرد تنظیم ہے جو لاہور میں اس طرح کے حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے الگ ہونے والے گروپ جماعت الاحرار نے لاہور دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کے حوالے سے جاری کیے گئے بیان میں خودکش بمبار کی ایک تصویر بھی جاری کی۔

اس سے قبل گذشتہ برس (11 ماہ قبل) بھی اس گروپ نے لاہور کے گلشن اقبال پارک میں خودکش دھماکا کیا تھا۔

مذکورہ عہدیدار نے بتایا کہ’ لاہور کے گلشن اقبال پارک حملے کے بعد جماعت الاحرار کی جانب سے جاری ہونے والی تصویر بھی حملہ آور سے میچ کر گئی تھی’۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ‘دوسری جانب جماعت الاحرار کی جانب سے ابھی استعمال ہونے والا ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی وہی ہے جو اس جماعت نے گلشن اقبال پارک دھماکے کے بعد استعمال کیا تھا’۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے