شمالی کورین رہنما کے بھائی کا قتل، مشتبہ خاتون گرفتار

کوالالمپور: شمالی کوریا کے رہنما کم جانگ ان کے سوتیلے بھائی کم جانگ نیم کے قتل میں ملوث ہونے کے شبے میں ایک خاتون کو حراست میں لے لیا گیا۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق ملائیشین پولیس نے کوالالمپور ایئرپورٹ کے بجٹ ٹرمینل سے ایک خاتون کو حراست میں لیا ہے۔

پولیس کے مطابق حراست میں لی جانے والی خاتون کے پاس ویتنام کے سفری دستاویز ہیں تاہم ان کے اصلی یا جعلی ہونے سے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

حکام کے مطابق حراست میں لی جانے والی خاتون کا نام ڈوان تھائی ہونگ ہے اور اسے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج کی نگرانی کے بعد حراست میں لیا گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے میں ملوث دیگر افراد کو بھی تلاش کررہے ہیں۔

شمالی کوریا کے سربراہ کم جانگ ان کے بڑے بھائی کِم جانگ نَیم ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور کے ایئرپورٹ میں قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔

جنوبی کوریا کے میڈیا پرچلنے والی خبروں کے مطابق کم جانگ نیم کو دو عورتوں نے قتل کیا جو کہ ممکنہ طور پر شمالی کوریا کی خفیہ ایجنٹس تھیں۔

یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ ‘دو خواتین نے زہریلی سوئیاں چبھو کر کم جانگ نیم کو قتل کیا اور پھر ٹیکسی میں فرار ہوگئیں جنہیں ملائیشین پولیس تلاش کررہی ہے’۔

تاہم ملائیشین پولیس کا کہنا ہے کہ کم جانگ نیم کا پوسٹ مارٹم ابھی مکمل نہیں ہوا لہٰذا موت کی وجہ نہیں بتائی جاسکتی البتہ کم جانگ نیم نے ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے والے اہلکار کو بتایا تھا کہ ان پر کیمیکل کا اسپرے کیا گیا۔

دوسری جانب شمالی کوریا نے ملائیشیا سے لاش کی حوالگی کا بھی مطالبہ کردیا ہے اور شمالی کورین سفارتخانے کے حکام نے اس فرانزک لیب کا بھی دورہ کیا جہاں کم جانگ نیم کی لاش رکھی گئی ہے۔

کم جانگ نیم کئی برسوں سے خود ساختہ جلا وطنی کاٹ رہے تھے اور مکاؤ، کوالالمپور اور دیگر شہروں میں مقیم تھے۔

کم جانگ نیم کے قتل کے بعد یہ افواہیں بھی گردش کررہی ہے کہ انہیں قتل کرنے کے لیے شمالی کوریا سے کلنگ اسکواڈ بھیجا گیا تھا کیوں کہ کم جانگ نیم کو شمالی کوریا کے رہنما کم جانگ ان کا مخالف سمجھا جاتا تھا۔

کم جانگ ان نے 2011 میں اقتدار سنبھالا تھا اور انہوں نے آتے ہی بعض اعلیٰ حکومتی عہدے داروں کو سزائے موت دے دی تھی۔

2013 میں کم جانگ ان نے اپنے چچا پر بغاوت کا الزام عائد کرکے انہیں بھی سزائے موت دے دی تھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے