صدر ٹرمپ نے ’دو ریاستی حل‘ کی امریکی پالیسی چھوڑ دی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی دہائیوں سے مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسی کے روایتی ستون، دو ریاستی حل، سے علحیدگی کا اعلان کر دیا ہے۔ بدھ کے روز پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ سے دو ریاستی حل کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں دو ریاستی حل بھی دیکھ رہا ہوں، میں ایک ریاستی حل پر بھی غور کر رہا ہوں۔ مجھے وہ حل پسند ہے جو دونوں قریقوں کو پسند ہوں۔‘ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ یہودی آبادیوں کا پھیلاؤ تھوڑی دیر کے لیے معطل کر دیا۔

ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ وہ ایک بہترین امن معاہدہ لائیں گے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں کو ہی رعایت کرنی پڑے گی۔دونوں سربراہان نے مستقبل میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا خصوصی ذکر نہیں کیا جو تصور خطے میں امریکی پالیسی کا اہم ستون رہا ہے۔گذشتہ کئی دہائیوں سے ہر امریکی حکومت اس تنازعے کے ‘دو ریاستی حل’ کی حمایت کرتی رہی ہے جس کے تحت ایک الگ فلسطینی ریاست کے قیام کا تصور دیا جاتا ہے۔ لیکن منگل کو وائٹ ہاؤس کے ایک سینیئر افسر نے تجویز دی کہ امریکہ دو ریاستی حل کے علاوہ بھی اس قسم کے کسی حل کی حمایت کرے گا جو جس پر فلسطینی اور اسرائیل دونوں متفق ہو جائیں۔ اس تجویز کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ اس تنازعے کے حل کے حوالے سے اپنے دیرنہ مؤقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہو سکتا ہے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے سے لے کر اب تک اسرائیل نے غربِ اردن کے مقبوضہ علاقوں ہزاروں مکانوں پر مشتمل یہودی بستیوں کی تعمیر کی منظور دے دی ہے۔اسرائیل کو امید ہے کہ امریکہ سے ساتھ ان کے دو طرفہ تعلقات میں بہتری آئے گی۔ یاد رہے کہ اوباما انتظامیہ کے آٹھ سالوں میں دونوں ممالک کے درمیان متعدد موضوعات پر اختلافِ رائے تھا۔

پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ سے اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کو یروشلم منتقل کرنے کے ان کے انتخابی وعدے کے بارے میں جب پوچھا گیا تو ان کہنا تھا کہ ’اس پر مجھے بہت خوشی ہوگی۔ ہم اس پر سنجیدگی، انتہائی سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔‘ جب اسرائیلی وزیراعظم سے دو ریاستی حل کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی توجہ لیبل کے بجائے مواد پر رکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امن کے لیے دو شرائط ہیں، پہلے کہ فلسطینی لوگ اسرائیل کو تسلیم کریں اور دوسرا یہ کہ کسی بھی امن معاہدے میں دریائے اردن کے مغرب کے تمام تر علاقے پر اسرائیل کو سکیورٹی کا مکمل کنٹرول حاصل ہو۔

اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ میں ’شدت پسند اسلام‘ کو روکا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ کے سسر وزیراعظم نیتن یاہو کی سیاسی مہم کے ایک اہم ڈونر رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے