1953،کے فسادات۔حقیقت اور ناول نگاری

آئی بی سی اردو پہ جناب ڈاکٹر عمر فاروق احرار کا مضمون شائع ہوا جس میں انہوں نے ’’تحریک ختم نبوت 1953 کی سرگزشت‘‘ کے حوالے سے ایک ناول کا تذکرہ کرتے ہوئے حسب روایت اور حسب عادت احمدیت کے حوالہ سے ’’مجاہدین‘‘ کا ذکر خیر فرمایا۔مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات،کچھ معروضات خاکسار نے بھی عرض کرنی ہیں۔تاریخ موقع بے موقع خود کو دہراتی رہتی ہے ،اسے ناولوں سے زدوکوب کرنا ممکن نہیں ہے اور خاص طور پر ماضی قریب کے واقعات کو اس آسانی سے افسانوی ادب کی نذر کرنا ممکن نہیں رہا۔

جماعت احمدیہ کے مخالفین نے دلائل وبراہین کے میدان میں اپنا ہاتھ ہلکا دیکھ کر اپنے کھیل کھیلنے کا انداز بدل لیاہے۔دھونس،دھمکی،جھوٹ،فریب،پابندیوں سے کام نہ بن سکا تو اسالیب ادب کا سہارا لیا جارہا ہے۔ناول نگاری کو سیڑھی بنا کر حقائق کو مسخ کیا جارہا ہے اور چونکہ اسی وقت ہی تحقیقات کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیا گیا اس لئے اب اس تحقیقاتی کمیشن پر بھی اعتراضات ہیں۔

ان فسادات کی کیا وجہ بنی،اس کا تاریخی پس منظر جاننا انتہائی ضروری ہے۔جنوری 1953 میں کراچی میں آل پاکستان مسلم پارٹیز کنوینشن منعقد ہوئی۔اس کنوینشن میں ایک متفقہ مجلس عمل بنی جس نے حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ اگر احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار نہ دیا گیا تو مجلس عمل ’’ڈائرکٹ ایکشن‘‘ کرے گی۔مطالبات میں سرظفراللہ خان کو وزیر خارجہ کے منصب سے ہٹانا بھی شامل تھا اور ساتھ میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ احمدیوں کو ملازمتوں سے علیحدہ کردیا جائے۔ان مطالبات کے منظور نہ ہونے کی صورت میں ’’راست اقدام‘‘ یعنی ڈائرکٹ ایکشن کی دھمکی دی گئی۔حکومت نے اس الٹی میٹم کو رد کردیا اور اس مجلس عمل کے سرکردہ لوگوں کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا۔اس عمل سے فسادات پھوٹ پڑے جن کا براہ راست نشانہ احمدی بنے۔یہ فسادات بڑھتے گئے اور پولیس سے جب معاملات سنبھالے نہ گئے توفوج کو بلانا پڑا اور آخرکار ان فسادیوں کو سنبھالنے کے لئے پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لاء لگا۔اس مارشل لاء کا سہرا مولویوں کے سر بندھتا ہے۔انہی فسادات میں مجلس احرار اپنے دس ہزار کارکنان کی موت کا بھی ہر سال موقع بے موقع بھی اعلان واظہارکرتی رہتی ہے۔اصل تعداد کا تذکرہ پڑھ کر آپ حیرت زدہ رہ جائیں گے جس کا تذکرہ آگئے آئے گا۔

حکومت پاکستا ن کی طرف سے تحقیقات کے لئے بعد ازیں ایک بینچ قائم کیا گیا جس کی قیا دت جسٹس منیر نے کی۔اس بینچ نے جو رپورٹ مرتب کی وہ ’’منیر انکوائری کمیشن‘‘ کے نام سے شائع شدہ موجود ہے۔یہ رپورٹ نیٹ پر بھی موجود ہے اور درج ذیل لنک سے اس کا مطالعہ کیا کا سکتا ہے۔ہر صاحب فکر کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ وہ اصل تاریخی حقائق سے کما حقہ واقفیت حاصل کرسکے۔
https://docs.google.com/file/d/0B7fivC1oaF1DbnZPcC01OFRHNms/edit
اگر ان فسادات میں لاقانونیت،ہنگامہ آرائی اور بدامنی کے اثرات و نتائج کا جائزہ لیں تو واضح طور تین باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں ۔

اول:اخلاق سوز مظاہرے۔دوم:پاکستان کے خلاف بغاوت۔سوم:جماعت احمدیہ کے خلاف وسیع پیمانے پر تشدد۔آپ اس دور کے اخبارات دیکھ لیں یا پھر ساری حکومتی کاروائی کا مطالعہ کرلیں آپ کو یہی تین باتیں بار بار نظر آئیں گی کہ کس طرح اسلام اور بانئی اسلامﷺ کے نام نامی پر اپنا الو سیدھا کیا جارہا تھا۔مضمون کی طوالت کےمدنظر میں اس دور کے چند ایک اخبارات کے شذرے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔اخلاق سوز مظاہروں کا تذکرہ کرتے ہوئے اخبارنویسوں نے بیان دیا۔

جناب نصر اللہ خاں صاحب عزیز مدیر ’’تسنیم‘‘ جناب ممتاز احمد خاں صاحب مدیر ’’آفاق‘‘ جناب خلیل احمد صاحب مدیر ’’مغربی پاکستان‘‘ جناب محمد حبیب اللہ صاحب اوج مدیر ’’احسان‘‘ جناب محمد علی صاحب شمسی مدیر’’ سفینہ‘‘ نے متفقہ بیان دیا کہ:
’’ تحفظ ختم نبوت کے مقصد سے ہر مسلمان کو ہمدردی ہے۔ ختم نبوت مسلمان کے ایمان کا جز ہے لیکن اس مقدس مقصد کے نام پر بھنگڑے، سوانگ رچانا، مغلظ گالیاں نکالنا اور اخلاق سوز حرکتیں کرنا مسلمانوں کے لئے باعث شرم ہے۔‘‘

اخبار ’’مغربی پاکستان‘‘ لاہور نے ۶ مارچ ۱۹۵۳ء کے اداریہ میں لکھا:
’’خدا اور محمدﷺ کے نام کے ساتھ انتہائی غلیظ اور قابل نفرت گالیاں دی جاتی ہیں۔ تشدد کے مظاہرے کئے جاتے ہیں، گاڑیاں روک لی جاتی ہیں اور ہر ہجوم کی طرف سے ہر طرح کی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ ہم مسلمانان پنجاب سے گذارش کریں گے کہ وہ مذہب کے معنے غلط نہ سمجھیں اور مذہب کو اس طرح نہ اچھالیں کہ آپ ختم ہوکر رہ جائیں۔ علماء نے آپ کو غلط بات بتائی ہے۔ خدا کے لئے ہر شخص مذہب کا ٹھیکیدار نہیں ہوسکتا۔ مذہب ہر شخص کا اپنا اپنا ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص مسلمان نہیں تو کیا آپ کا اسلام یہ سبق دیتا ہے کہ آپ اسے زبردستی مسلمان بنائیں یا اسے اٹھا کر اپنے ملک سے باہر پھینک دیں۔ ذرا اپنے اعمال کا جائزہ لیجئے۔ کیا آپ مسلمان ہیں؟ ٹھنڈے دل سے غور کیجئے صرف پچھلے چند دن کے اعمال ہی پر نظر ڈالیے۔ کیا یہ سچے مسلمان کے اعمال ہوسکتے ہیں؟ پھر مذہب کے نام پر یہ ہڑبونگ کیوں مچائی جارہی ہے؟ ہم خدا کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ احراریوں کی اس ہڑبونگ، اس راست اقدام، اس ختم نبوت کو اسلام سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کا نام بدنام کیا جارہا ہے۔ اس کا تعلق ضرور کسی سیاسی اغراض سے ہے۔۔۔۔۔ احراری لیڈر ہوں یا دوسرے جو لوگ بھی مذہب کے نام پر آپ کو اشتعال دلاتے ہیں اور اس طرح آپ کے نازک جذبات سے کھیلتے ہیں تو وہ یقیناً پاکستان کے بدترین دشمن ہیں۔‘‘

یہ تھے اس وقت کے احراری رہنماوں اور ان کے ’’مجاہدین‘‘ کے کرتوت کہ خود ان کے ہم مذہب وعقیدہ شریف الطبع لوگ بھی اس سے بیزاری کا اظہار کرکے انہیں خلاف اسلام قرار دے رہے تھے۔آج احراری بضد ہیں کہ یہ اسلام اور آنحضرتﷺ کی محبت میں کیا گیا تو حضور طالبان اور داعش بھی تو لوگوں کے گلے اسلام کے نام پر کاٹ رہے ہیں۔آپ میں اور ان میں فرق کیا ہوا۔آپ احمدیوں کی جانوں کے دشمن تھے وہ اپنے سوا سب کے دشمن ہیں۔

احراری لیڈر اس وقت سرظفراللہ خان کو اسلام اور پاکستان کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر پیش کررہے تھے۔آئیں ذرا دیکھتے ہیں اس وقت حکومت کیا کہہ رہی تھی۔ وزیر دفاع جناب سکندر مرزا صاحب نے ۲۶ فروری ۱۹۵۳ء کو خواجہ ناظم الدین وزیراعظم پاکستان کو ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
’’آپ کے ذاتی دشمنوں نے جن میں ملا بھی شامل ہیں جو مسائل کھڑے کردیئے ہیں اگر سختی سے نہ دبائے گئے تو ملک کی پوری انتظامیہ کو تباہ کرکے رکھ دیں گے۔۔۔ آپ کو اور حکومت کو کھلے عام جو گالیاں دی جاتی ہیں وہ انتہائی اشتعال انگیز اور تیز و تند نویعت کی ہیں۔۔۔۔۔ کیا مذہب اسی کا نام ہے کہ سب سے بڑی اسلامی ریاست کی انتظامیہ کی بنیادوں کو تباہ کردیا جائے؟ قاہرہ میں سر ظفر اللہ خاں کا استقبال پورے احترام اور عزت کے ساتھ کیا گیا۔ وہ تمام عرب ممالک کے سربراہوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں جن کی نظر میں ان کی بہت عزت بھی ہے لیکن کراچی میں عام جلسوں میں انہیں گالیاں دی جارہی ہیں اور ان کی تصویر پر تھوکا جارہا ہے۔ گزشتہ رات ایک گدھے کے جسم کے ساتھ ملا کر ان کا کارٹون بنایا گیا ہے۔ کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کچھ دنیا بھر کے دارلحکومتوں میں رپورٹ نہیں ہورہا ہوگا؟ پھر ایسی صورت میں بین الاقوامی طور پر پاکستان کی کیا پوزیشن باقی رہ جاتی ہے؟ ‘‘

آج بین الاقوامی طور پر پاکستان کی پوزیشن کے بارے میں قارئین مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔یہ انہی پالیسیوں اور احرار کی سعی پیہم کا ثمرہ ہے جس سے آج پوری قوم اور ملک اقوام عالم میں ’’سرخرو‘‘ ہے۔

[pullquote]پاکستان کے خلاف بغاوت[/pullquote]

یہ شورش ایک مقدس کی نعرہ کی آڑ میں بپا کی گئی تھی جو کھلی بغاوت پر منتج ہوئی جس نے ملک کے دانشوروں اور محب وطن طبقوں کی آنکھیں کھول دیں اور انہیں بر ملا تسلیم کرنا پڑا کہ یہ ختم نبوت نہیں بلکہ ختم پاکستان کی تحریک ہے جو پاکستان اور اسلام دشمن طاقتوں کی سازش کا نتیجہ ہے، جیسا کہ مندرجہ ذیل بیانات سے عیاں ہے۔

روزنامہ ’’مغربی پاکستان‘‘ نے نوحہ غم کے زیر عنوان ایک اداریہ میں لکھا:۔
’’اب تو شاید عوام کو بھی اس امر کا احساس ہوچکا ہوگا کہ یہ ’’راست اقدام‘‘ مذہب کی محبت کی وجہ سے شروع نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کا مقصد کچھ اور ہی ہے۔۔۔۔۔ مذہب اور مذہب اسلام جس کی بلندی کے سامنے دنیا کی تمام بلندیاں پست ہیں یہ کبھی اجازت نہیں دیتا کہ اس قسم کی ہنگامہ آرائی کی جائے۔۔۔دشمن ہماری اس حرکت پر خندہ زن ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے اور وہ اندی ہی اندر بہت شاداں و فرحاں بھی ہیں کہ اس ہنگامہ آرائی سے یقیناً پاکستان کمزور ہوجائے گا اور وہ اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو ایک ہی ضرب میں ختم کردیں گے۔‘‘

وزیراعلیٰ پنجاب جناب میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ نے اپنی ۱۵ مارچ ۱۹۵۳ء کی نشری تقریر میں کہا:۔
’’حفاظت ناموس رسول کے مقدس نعرے کی آڑ میں بعض شر پسند اور پاکستان دشمن عناصر نے ایسی وحشیانہ حرکات کیں جن سے اسلام کے نام کو دھبہ لگا اور پاکستان کے مفاد اور وقار کو شدید نقصان پہنچا۔ ان عناصر نے ہماری پاک مسجدوں کو غلط سیاست کی کھلی سازش کا اکھاڑا بنانے تک سے دریغ نہ کیا۔ وہ لوگ جو کل تک پاکستان کے الم نشرح دشمن تھے۔ امن پسند اور بھولے شہروں کی آنکھوں میں خاک ڈالنے میں کامیاب ہوگئے` ریل گاڑیوں کی پٹڑیاں اکھاڑ دی گئیں تاکہ خوراک کی نقل و حرکت مسدود ہوجائے۔ تار اور ٹیلیفون کے سلسلے کو منقطع کرنے کی کوشش کی گئی۔ بیوپاریوں اور محنت مزدوری کرنے والوں کو کام کے سلسلے کو منقطع کرنے کی کوشش کی گئی۔ بیوپاریوں اور محنت مزدوری کرنے والوں کو کام سے جبراً روکا گیا۔ دکانیں اور گھر لوٹے گئے۔ عورتوں کی بے عزتی ہوئی،قتل و غارت کا بازار گرم ہوا۔ غرضیکہ ہر ممکن طریق سے بدامنی اور انتشار، دہشت اور ہراس پھیلانے کی کوشش کی گئی تاکہ صوبہ کی اقتصادی اور شہری زندگی ختم ہوجائے۔‘‘

جناب خواجہ ناظم الدین وزیراعظم پاکستان نے پاکستان پارلیمنٹ میں بجٹ اجلاس کے دوران تقریر کرتے ہوئے فرمایا۔
’’جن لوگوں نے اس کی راہنمائی کی اور جو اکثریت میں تھے زیادہ تر احراری گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔۔۔۔۔ یہی لوگ اور ان کے نمائندے ہیں جنہوں نے قائداعظم کو نعوذ باللہ کافراعظم اور پاکستان اور پلیدستان کہا۔ جنہوں نے پاکستان کی شدید مخالفت کی اور قیام پاکستان کے بعد بھی سرحد پار کے ساتھ اپنے روابط قائم رکھے۔‘‘

اخبار’’سفینہ‘‘ لاہور نے لکھا:۔
’’احرار نے تحفظ ناموس رسولﷺ~ کے لئے یہ جھگڑا شروع نہیں کیا بلکہ ان کا مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے یہ لوگ پاکستان کے دشمن ہیں اور اس کے ساتھ مسلمانوں کی وحدت میں بھی ان کے لئے ناقابل برداشت ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر پہلے تو ان کے ملی شیراز کو درہم برہم کریں اور اس کے ساتھ پاکستان کو بھی ختم کریں۔‘‘

یہ تھی احراریوں کی تحریک ختم نبوت کی ایک جھلک جسے آج یہ ناول نویسی کے زور پر بدلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور دیدہ دلیری سے اسے اسلام اور حب اسلام کے نام پر پھیلا بھی رہے ہیں،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کے نام پر ملک کو ایک ایسی آگ میں دھکیلا گیا جس کی تپش آج تک محسوس کی جاسکتی ہے۔

[pullquote]جماعت احمدیہ کے خلاف وسیع پیمانے پر تشدد[/pullquote]

شورش پسندوں نے جس زور اور شدت سے حکومت پاکستان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اسی درجہ طاقت و قوت کے ساتھ معصوم اور نہتے احمدی ان کے غیض و غصب اور تشدد کا نشانہ بنے۔ اس طرح پاکستان کے ازلی مخالفوں نے جماعت احمدیہ سے قیام پاکستان کے جہاد میں شرکت کا انتقام لینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔احمدیوں کو ایک صبر آزما کٹھن دور سے گزرنا پڑا۔انہیں مارا پیٹا گیا،قتل کیا گیا۔املاک جلائے گئے،کاروبار تباہ کر دئے گئے۔بائیکاٹ کیا گیا۔ذہنی ونفسیاتی تشدد کا ہر حربہ استعمال کیا گیا اور یہ سب کچھ انتہائی وسیع پیمانے پر سوچی سمجھی اسکیم اور اسی تحریک ختم نبوت کی آڑ میں کیا گیا۔مضمون کی طوولت کے پیش نظر ان تمام واقعات کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے،لیکن تاریخ احمدیت میں یہ تمام واقعات مکمل تفاصیل اور شہادتوں کے ساتھ محفوظ ہیں۔جماعت احمدیہ کے اس وقت کے خلیفہ دن رات احمدیوں سے رابطے میں تھے اور احمدی بھی اپنے امام کو اپنے اوپر ہونے والے مظالم سے آگاہ رکھ رہے تھے،اس لئے یہ تمام ریکارڈ محفوظ ہے۔صاحبان مطالعہ کو پیش کیا جا سکتاہے۔انہی واقعات میں ایک احمدی میجر کو بھی ایک جلسہ میں شامل لوگوں نے انتہائی بے دردی سے قتل کردیا تھا۔بانی جماعت احمدیہ کے خاندان کو بھی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان پر مقدمات تک قائم کئے گئے،لیکن باالآخر ان کی بے گناہی ثابت ہوئی۔

ان فسادات کے ذمہ داران کا تعین کرنے کے لئے انکوائری کمیشن قائم کیا گیا ۔ تحقیقاتی عدالت کی کارروائی یکم جولائی ۱۹۵۳ء سے شروع ہو کر ۲۸ فروری ۱۹۵۴ء تک جاری رہی۔ کل ۱۱۷ اجلاس ہوئے۔ جن میں ۹۲ اجلاس شہادتوں کی سماعت اور اندراج کے لئے مخصوص رہے۔ شہادت ۲۳۔ جنوری ۱۹۵۴ء کو ختم ہوئی اور اس مقدمے پر بحث کا آغاز یکم فروری کو اور اختتام ۲۸/ فروری ۱۹۵۴ء کو ہوا۔

تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ جماعت احمدیہ کی مظلومیت اور اس کے خلاف الزامات کی بریت سے پر ہے مثلاً فاضل ججوں نے احمدیوں کے خلاف صوبائی حکومت کے افسوس ناک طرز عمل کا نقشہ کھینچتے ہوئے اپنی رائے حسب ذیل الفاظ میں دی:
’’احراریوں سے تو ایسا برتاؤ کیا گیا گویا وہ خاندان کے افراد ہیں اور احمدیوں کو اجنبی سمجھا گیا۔ احراریوں کا رویہ اس بچے کا سا تھا جس کو اس کا باپ کسی اجنبی کو پیٹنے پر سزا کی دھمکی دیتا ہے اور وہ بچہ یہ جان کر کہ اسے سزا نہ دی جائے گی اجنبی کو پھر پیٹنے لگتا ہے۔ اس کے بعد چونکہ دوسرے لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں اس لئے باپ محض پریشان ہو کر بیٹے کو مارتا ہے لیکن نرمی سے تاکہ اسے چوٹ نہ لگے‘‘

جماعت احمدیہ کے امام اور دوسرے بزرگوں کو احراری لیڈروں نے فحش اور اخلاق سوز گالیاں دیں۔ اس کا ذکر فاضل جج صاحبان نے درج ذیل الفاظ میں کیا ہے:

’’ایک اردو اخبار مزدور ملتان سے شائع ہوتا ہے جس کا ایڈیٹر سید ابو ذر بخاری ہے جو مشہور احراری لیڈر سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا بیٹا ہے۔ اس اخبار کی غالب توجہ صرف احمدیوں کے خلاف تحریک پر مرتکز رہی ہے۔ اس نے اپنی اشاعت مؤرخہ ۱۳/ جون ۱۹۵۲ء میں ایک مضمون شائع کیا جس میں جماعت احمدیہ کے امام کے متعلق عربی خط میں ایک ایسی پست اور بازاری بات لکھی کہ ہماری شائستگی ہمیں اس کی تصریح کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر یہ الفاظ احمدی جماعت کے کسی فرد کے سامنے کہے جاتے اور نتیجہ یہ ہوتا کہ کسی کی کھوپڑی توڑ دی جاتی تو ہمیں اس پر ذرا بھی تعجب نہ ہوتا۔ جو الفاظ استعمال کئے گئے وہ پرلے درجے کے مکروہ اور مبتذل ذوق کا ثبوت ہیں۔ اور ان مین اس مقدس زبان کی نہایت گستاخانہ تضحیک کی گئی ہے جو قرآن مجید اور نبی کریمﷺکی زبان ہے۔‘‘

تحقیقاتی عدالت کے بنیادی فرائض میں یہ شامل تھا کہ وہ تحقیق و تفتیش کے بعد رائے قائم کرے کہ فسادات کی ذمہ داری کس جماعت یا فرد پر عائد ہوتی ہے۔ جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے فاضل جج صاحبان نے اگرچہ بعض واقعات کی طرف اشارہ کر کے یہ لکھا کہ:
’’ان کے خلاف عام شورش کا موقع خود انہیں کے طرزعمل نے بہم پہنچایا‘‘

مگربایں ہمہ انہوں نے واضح لفظوں میں یہ فیصلہ دیا:
’’احمدی براہ راست فسادات کے لئے ذمہ دار نہ تھے کیونکہ فسادات حکومت کے اس اقدام کا نتیجہ تھے جو حکومت نے اس پروگرام کے خلاف کیا تھا جو ڈائریکٹ ایکشن کی قرارداد کے ماتحت آل مسلم پارٹیز کنونشن نے اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘‘
اس کے مقابل فاضل ججوں نے اپنی تحقیقات کی بناء پر مندرجہ ذیل جماعتوں یا اداروں کو فسادات پنجاب کا براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا :۱ ( مجلس اہرار ) ۲ ( جماعت اسلامی ) ۳ ( آل پاکستان مسلم پارٹیز کنونشن کراچی )
۴ ( آل مسلم پارٹیز کنونشن لاہور) ۵ ( تعلیماتاسلامی بورڈ کراچی کے ممبر ) ۶ ( صوبائی مسلم لیگ ) ۷ ( مرکزی حکومت) ۸( محکمۂ اسلامیات ) ۹ ( اخبارات)

ڈاکٹر عمر فاروق صاحب شکوہ کناں ہیں کہ اس رپورٹ میں واقعات کو مسخ کیا گیا اور یہ رپورٹ حقائق پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ڈاکٹر صاحب کے نزدیک تو ناول ’’عشق کا قیدی‘‘ ہی ان واقعات کو جانچنے کا صحیح اور حقیقی طریق ہے اور اس ناول میں اصل صورتحال پیش کی گئی ہے مگر افسوس کہ ڈاکٹر صاحب اس رپورٹ کو بہرحال تاریخی حقائق وواقعات سے ہرگز جھٹلا نہیں سکتے جس رپورٹ کو قومی تاریخ میں مستند اور پاکستان کی بہترین سرکاری دستاویزات میں شمار کیا جاتا ہے۔تمام واقعات کو من وعن پیش کیا گیا ہے ،جنہیں دیگر ذرائع سے جانچا جا سکتا ہے۔اپنے خلاف آنے والے فیصلے کو اور سیاہ اعمال سے پردہ ہٹانے والی رپورٹ پر الزام لگانا سمجھ میں آتا ہے۔

جہاں تک عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کے بیان کو شامل نہ کرنے کی بات ہے تو ڈاکٹر صاحب سے سادہ سا سوال یہ ہے کہ اور کتنے لوگوں کا بیان اس رپورٹ میں شامل ہے جو اس عدالت کے روبرو پیش ہوکر اپنا موقف پیش کرتے رہے۔عدالت نے ان تمام واقعات وشہادات کو پیش نظر رکھ کر اپنا فیصلہ سنایا ہے اور سفارشات مرتب کی ہیں۔جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے متعدد مضامین جمع کروائے تھے کیا وہ اس رپورٹ کا حصہ ہیں؟جماعت احمدیہ کے خلیفہ سے جو جرح کی گئی کیا وہ اس رپورٹ کا حصہ ہے؟تحریری بیانات چھتیس سو صفحات اور شہادتیں سینتیس سو صفحات پر مشتمل تھیں جبکہ یہ رپورٹ صرف چھ صد صفحات پر مشتمل ہے۔اس میں تمام شہادتوں کا شائع کرنا ناممکن ہی تھا۔عجیب منطق ہے چونکہ سید الاحرار کی ’’معرکۃ الآراء‘‘ تقریر اس رپورٹ میں شامل نہیں اس لئے یہ غیر مستند ہے۔
ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے

جہاں تک احرار کے دس ہزار ’’مجاہدین‘‘ کی شہادت کا سوال ہے اس بارہ میں منیر انکوائری رپورٹ کے مطابق لاہور میں پولیس اور فوج کی فائرنگ کی وجہ سے صرف بائیس لوگ جان سے گئے اور دوسرے شہروں میں بھی چند اشخاص کی ہلاکت ہوئی۔چند اشخاص کو دس ہزار بنا دینے میں احراریوں کو بہت زیادہ محنت کرنی پڑی اور یہ تعداد ہر سال بڑھتی رہی اور انسانی جسم کی طرح اب اس ’’فگر‘‘ کا ارتقاء رک گیا ہے وگرنہ بعید نہیں کہ یہ لاکھوں میں چلی جاتی۔اگر ہم یہ کہیں کہ رپورٹ میں اصل تعداد چھپائی گئی تب بھی یہ زیادہ سے زیادہ سینکڑوں میں ہوتی یا ایک دو ہزار کی تعداد میں مرنے والوں کو چند کہا گیا،لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ دس ہزار بندہ مرا ہو اور عدالت اس کو چند اشخاص میں لکھے اور اس وقت کے اخبارات ورسائل اس بات پر چپ سادھے رہیں۔
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا

[pullquote]مضمون کے جواب میں کوئی صاحب اپنی تحریر بھیجنا چاہیں تو آئی بی سی اردو اسے شائع کرنے کا پابند ہے .
[/pullquote]

ٹیم آئی بی سی اردو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے