زیرو سے زیرو تک

کچھ ہفتے پہلے نیشنل سکیورٹی ایڈوائز جنرل ناصر جنجوعہ کی ایک بریفنگ میں ان کے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے سیکرٹ ایجنسیوں کے حوالے سے نئے نئے منصوبوں کی تفصیلات سنتے ہوئے یاد آیا کہ یہ سب کچھ سنا سنا لگتا ہے۔ کچھ دیر اپنی یادداشت پر زور دیتا رہا کہ کہاں سنا تھا اور اب اس میں کیا نئی بات ہے ؟

جنرل جنجوعہ نے یہ بریفنگ نیشنل سکیورٹی ایڈوائز سے زیادہ نیشنل ایکشن پلان کے سربراہ کی حیثیت سے دی تھی۔ چوہدری نثار علی خان سے چارج لے کر جنرل جنجوعہ کو سربراہ بنایاگیا تھا ۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اب اس کے سربراہ ہیں لہٰذا حالات بڑی تیزی سے بدلیں گے اور سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ تاہم مجھے کچھ شکوک تھے جن کا میں نے تمام صحافیوں کی موجودگی میں اظہار بھی کردیا ۔ جنرل جنجوعہ کی مہربانی کہ انہوں نے بغیر کسی غصہ کے میرے ان تمام اعتراضات کو سنا اور اپنے تئیں جواب دینے کی کوشش بھی کی۔ جنرل جنجوعہ جو سب کچھ بتارہے تھے اس لیے بھی سنا سنا لگا کِہ سولہ برس قبل میں نے اس ایشو پر اپنے انگریزی اخبار کے لیے وہ خبر فائل کی تھی۔رونا بھی آرہا تھا اور ہنسی بھی کہ آج سولہ سال بعد بھی وہ مسئلہ وہیں کا وہیں موجود تھا ۔ وہی الفاظ، وہی تکرار اور وہی دعوے ‘ ایک انچ بھی اس میں تبدیلی نہیں آئی تھی۔

ہوا کچھ یوں تھا کہ جنرل مشرف کو مارشل لاء لگائے کچھ عرصہ ہوا تھا ۔ان دنوں ان پر ملک کو بدلنے کا بھوت سوار تھا۔ روزانہ کوئی نہ کوئی اجلاس وزیراعظم سیکرٹریٹ میں ہورہا ہوتا جس کو چیف ایگزیکٹو سیکرٹریٹ کا نام دیا ہوا تھا ۔ لگتا تھا کہ سالوں کا کام دنوں میں نبٹا لیا جائے گا۔ ہر مسئلہ کا حل نکال لیاجائے گا ۔ ملک اب دوڑنے لگ جائے گا۔ جنرل مشرف کرسی صدارت پر موجود ہوتے اور گھنٹوں بحث ہوتی اور احکامات جاری ہوتے۔ ان دنوں رپورٹنگ کرنا کچھ مشکل ہوچلا تھا کیونکہ جنرل مشرف دور میں ہر اس صحافی کے پیچھے سیکرٹ ایجنسیوں کا بندہ لگا دیا جاتا جو اندر کی خبریں لاتا تھا۔ فون بھی ٹیپ ہوتے تھے‘ اس لیے ذرائع سے مل کر خبر نکالنا مشکل کام تھا لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں سے خبریں نکل ہی آتی تھیں۔ ایک دن میرے ہاتھ جنرل مشرف کی زیرصدارت سیکرٹ ایجنسیوں کی کارگردگی بہتر بنانے کے لیے منعقد کیے گئے اجلاس کی کارروائی لگ گئی۔ کئی صفحات پر مشتمل ان منٹس میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں سیکرٹ ایجنسیاں ایک دوسرے سے تعاون نہیں کررہیں‘ ان کے درمیان کوآرڈینیشن کا فقدان تھا۔ ان کا ڈھانچا پرانا ہوچکا تھا۔ ایجنسیوں کو ری سٹرکچرنگ کی ضرورت تھی۔ انہیں نئے سرے سے بحال کرنا تھا تاکہ وہ ملک کے اندر بہتر طریقے سے لاء اینڈ آڈر میں اپنا رول ادا کرسکیں۔ جب تک سیکرٹ ایجنسیاں اپنا رول ادا نہیں کریں گے، لاء اینڈ آڈر درست نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کے واقعات ان دنوں بھی ہورہے تھے۔ اس سلسلے میں درجنوں تجاویز اس اجلاس میں دی گئی تھیں کہ کیسے ان ایجنسیوں کو اب جدید لائنوں پر استوار کر کے انہیں اس قابل کرنا ہے کہ وہ ملک کے اندر دہشت گردوں کو نتھ ڈال سکیں ۔

میں نے وہ خبر بنا کر اپنے انگریزی اخبار کو بھیجی۔ ان دنوں یہ بڑی اندرونی خبر تھی کہ جنرل مشرف اپنی سیکرٹ ایجنسیوں کے کردار سے خوش نہیں تھے اور اسے بہتر کرنے کے لیے انہوں نے ایک اجلاس کیا تھا اور اس میں یہ سب کچھ کہا اور تجویز کیا گیا تھا ۔ میرا خیال تھا کہ اگلے دن یہ خبر اخبار کی لیڈ اسٹوری ہوگی۔ ان دنوں ابھی ٹی وی نہیں آئے تھے لہذا اخبار کی خبر ہر طرف دھوم مچا دیتی تھی۔ تاہم اگلے دن مجھے مایوسی کا دورہ پڑا جب میں نے خبر کہیں نہ دیکھیں۔ ایک رپورٹر کے لیے اس سے بڑا ڈپریشن کوئی نہیں ہوتا کہ اتنی محنت کے بعد خبر لائے اور ایڈیٹر اسے نہ لگائے۔ پاکستان کے چند بڑے ایڈیٹرز میں سے ایک شاہین صہبائی ان دنوں اس انگریزی اخبار کے ایڈیٹر تھے۔ وہ بھی دبنگ ایڈیٹر مانے جاتے تھے اور ابھی بھی مانے جاتے ہیں۔ مجھے افسوس ہوا کہ ان جیسے بڑے ایڈیٹر نے بھی شاید جنرل مشرف کے مارشل لاء دبائو کی وجہ سے وہ خبر نہیں لگائی ہوگی حالانکہ شاہین صہبائی کسی سے ڈرنے والے ایڈیٹر نہیں تھے۔ اس دن دوپہر کو میرے ڈان اخبار کے دوست ناصر ملک ملنے دفتر آئے۔ پوچھا کیوں دکھی آتما بن کر بیٹھے ہو۔ ناصر ملک بھی بڑے صحافی تھے۔ میں نے پورا واقعہ بتایا کہ یار کتنی بڑی خبر ضائع گئی۔ انہوں نے کہا چلیں تمہاری خبر نہیں لگی‘ مجھے منٹس دے دو‘ میں نے غصے میں اٹھا کر انہیں منٹس اور خبر دے دی۔ میرے ذہن میں تھا کہ اگر میرے ایڈیٹر اور اخبار کو اتنی بڑی خبر کی ضرورت نہیں تھی کہ کیسے سیکرٹ ایجنسیوں کی ناقص کارگردگی پر جنرل مشرف نے اجلاس کیا تھا اور اس میں ایجنسیوں کے سربراہ موجود تھے اور باقاعدہ ایک پلان بنایا گیا تھا کہ کیسے ان سب کو بہتر کرنا ہے تو پھر کیا فائدہ ایسی خبریں لانے کا۔ لگنے دیں ڈان میں خود ہی میرے اخبار کو احساس ہوگا۔

اگلے دن ناصر ملک سے زیادہ مجھے بے چینی تھی کہ ڈان میں خبر لگی یا نہ لگی۔ اگلی صبح وہ خبر ڈان کی لیڈ اسٹوری تھی‘ میں اندر سے بہت خوش ہوا‘ دفتر پہنچا اور اپنی ای میل کھولی تو ایڈیٹر شاہین صہبائی کی غصے بھری میل موجود تھی۔ بولے یہ بڑی خبر تھی اور تمہاری ایکس کلو سو تھی لہٰذا سوچا تھا اسے آرام سے ایڈٹ کر کے اگلے دن بینر لیڈ لگائیں گے۔ شاہین صہبائی نے میری خوب کلاس لی اور بولے اب تم ایک ڈسٹرکٹ رپورٹر کی اپروچ سے باہر نکلو۔ یہ ایڈیٹر کا حق ہوتا ہے کہ اس نے خبرکب اور کیوں لگانی ہے۔ آپ کو تنخواہ آپ کا اخبار دیتا ہے اور آپ اس کے مقابلے کے اخبار کے رپورٹر کو خبر دیتے ہو۔ یہ چھوٹی حرکت ہوتی ہے‘ چاہے یہ خبر نہ بھی لگتی تمہیں پھر بھی اپنے مقابلے کے اخبار کو نہیں دینی چاہیے تھی ۔ تم مجھے یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ مجھے ایڈیٹر کے طور پر اس خبر کی اہمیت کا پتہ نہیں تھا لیکن ڈان کے ایڈیٹر کو زیادہ علم تھا ۔ تم نے مجھے نیچا دکھانے کی کوشش کی جو کہ غلط بات ہے۔
میں نے شاہین صہبائی سے فورا معذرت کی اور کچھ سبق سیکھے جو آئندہ چل کر اپنی پروفیشنل زندگی میں اپنائے۔

اس لیے جب میں جنرل جنجوعہ کی بریفنگ میں یہ سب کچھ سن رہا تھا کہ کیسے پلان بنایا گیا ہے کہ پاکستانی سیکرٹ ایجنسیوں کو اب نئے سرے سے درست کیا جائے گا۔ ان کی کارگردگی کیسے بہتر ہوگی، ان کی کوآرڈنیشن کیسے ہوگی، ان کا مشترکہ سیکرٹریٹ کہاں ہوگا اور کیسے ان کی لائی ہوئی اطلاعات کو صوبوں تک پہنچایا جائے گا اور کیسے اب دن رات ایک کر کے دہشت گردی کے خلاف انٹیلی جنس نیٹ ورک اور اس کے بعد آپریشن فورس تیار کر کے دہشت گردوں کی کمر توڑی جائے گی تو مجھے سب کچھ سنا سنا لگ رہا تھا۔

مجھے ابھی بھی شک تھا کہ شاید کوئی تبدیلی ہوئی ہو اور میری یاداشت میں کوئی گڑبڑ ہو۔ خیر میں نے محنت کر کے وہ سولہ سال پرانی خبر اور منٹس ڈھونڈے اور مسکرا پڑا کہ سولہ سال پہلے بھی ہم اپنی سیکرٹ ایجنسیوں کی کارگردگی بہتر بنانے کے بارے میں پریشان تھے اور اب بھی پریشان ہیں۔ جو انقلابی اقدامات اس وقت جنرل مشرف دور میں تجویز کیے گئے وہی ملتے جلتے اب جنرل ناصر جنجوعہ بھی بتارہے تھے۔ شاید سولہ برس بعد بھی کوئی اور جنرل جنجوعہ اس طرح کی بریفنگ صحافیوں کو دے رہا ہوگا کہ کیسے وقت آگیا ہے کہ اب سیکرٹ ایجنسیوں کی کارگردگی بہتر کی جائے اور انہیں جدید لائنوں پر استوار کر کے جدید تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کیا جائے۔ اور دہشت گردوں کی کمر توڑی جائے۔میں نے ناصر ملک کی وہ فائل کی ہوئی خبر اور اپنے سولہ سالہ پرانے منٹس دوبارہ سنبھال کر فائل میں رکھ لیے کہ زندگی رہی تو شاید سولہ برس بعد پھر کالم لکھنے کے کام آئیں گے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے