پانچواں چراغ!

لعل شہباز قلندر کے مزار پہ جمعرات کے روز عین دھمال کے وقت ایک دھماکہ ہوا۔ رقص کرنے والے، مست ملنگ، معذور فقیر، مایوس، غریب، اعصاب زدہ حواسی عورتیں، منتیں ماننے والے خوش عقیدہ لوگ، چرسی، بھنگ پینے والے، ننھے بچے، جوان لڑکے،جن کی رگوں میں خون کی جگہ پارہ دوڑ رہا تھا، ایک انبوہ تھا جو ناچتے ناچتے اچانک ایک سرخ رنگ کے غبار میں بدل گیا اور آن کی آن میں رقصاں درویشوں کی طرح نظر سے اوجھل ہو گیا۔باقی رہ گیا، کٹے ہوئے اعضا، مردہ جسموں، پھٹے ہوئے پیٹوں اور سسکتے زخمیوں کا ڈھیر۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 83 لوگ مر گئے۔ 250 زخمی ہوئے۔ دھماکے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی گئی، خود کش بمبار کس دروازے سے آیا تھا، یہ بھی معلوم ہو گیا۔ وزیرِ اعظم نے جانے کس کس چیز کی ڈکار روکتے ہوئے، ایک بساندھی مذمت بھی کر دی، دیگر اربابِ حل و عقد نے بھی شریر دہشت گردوں کو دھمکا دیا کہ ’ہشت اب جو کیا ہے آگے نہ کیجو، بہت ماریں گے ہاں کہے دیتے ہیں۔‘ شنید ہے کہ دہشت گرد اس بات پہ بہت ملول اور متأسف ہوئے۔ کچھ عینی شاہدین کے مطابق زار زار رو ئے۔24 گھنٹے کے اندر اندر، 40 پچاس دہشت گردوں کو مار دیا گیا، افغانستان کے ساتھ سرحدیں بند کر دی گئیں اور افغان سفیر کی طلبی کر لی گئی۔ لاہور دھماکے کا سہولت کار بھی لنڈا بازار سے گرفتار ہو گیا۔

سوچتی ہوں سیہون شریف تو چھوٹا سا شہر ہے میرے پاکپتن کی طرح۔ اتنے بہت سے کفن کہاں سے آئے ہوں گے؟ اتنی کھٹولیاں؟ اتنی قبریں؟ راتوں رات کھود کے کیا گورکن تھک نہ گئے ہوں گے؟ اتنے آنسو بہا بہا کر کیا سیہون والوں کی بینائی کمزور نہ پڑگئی ہو گی؟ پھول، چادریں اور اگر بتیاں تو وہاں بہت ہوں گی ، مگر کیا اپنے پیاروں کی قبروں پہ انہیں چڑھاتے ہوئے دل پھٹ نہ گئے ہوں گے؟ میں کبھی سیہون شریف نہیں گئی، مگر ا س شہر سے بھی میرا وہی تعلق ہے جو اپنے شہر سے۔ سیہون کے سرخ پوش ملنگ میں نے آنکھ کھولتے ہی دیکھے۔ لاہور میں فورٹ روڈ پہ ایک لٹ دھاری ملنگ کھڑا رہتا تھا، بس دعا دیتا تھا، خیرات نہ لیتا تھا۔ اچانک نظر آنا بند ہو جاتا تھا، پوچھو تو کہتا تھا سیہون گیا تھا۔ کیا خبر اس دھماکے کے وقت بھی وہ وہیں ہو؟

سرخ رنگ انقلاب کی علامت ہے۔ لعل شہباز قلندر جلالی بزرگ مشہور ہیں۔ صوفی عقائد سے وابستہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ قلندر کا درجہ کیا ہوتا ہے۔ لعل شہباز قلندر ان چار یاروں میں سے ایک تھے جنہوں نے برِصغیر میں امن اور محبت کا پیغام پھیلایا۔ ہندو انہیں ‘جھولے لعل ‘ کہتے تھے۔ سنا ہے سیہون میں جب لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ‘ جھولے لعل ‘ کہتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں جب شادی کی تقریبات کا آغاز ہوتا تھا تو کیجو میراثن اپنی پاٹ دار آواز میں پہلا کلام ‘ لال میری پت رکھیو بلا جھولے لالن، سندھڑی دا سیہون دا سخی شہباز قلندر، دمادم مست قلندر’ گاتی تھی۔ سمجھ تو کچھ نہ آتا تھا مگر ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور بے وجہ ناچنے اور ناچتے ناچتے رونے کو جی چاہنے لگتا تھا۔ کئی لوگوں کو رقت طاری ہو کر حال آ جاتا تھا۔ غرض ایک عقیدت اور محبت کا تعلق بندھا ہوا تھا۔

سنا ہے کہ جب سرمد کو قتل کیا گیا تو وہ اپنا کٹا ہوا سر لے کر جامع مسجد کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ چند ہی سیڑھیاں چڑھی تھیں کہ سر سبز شاہ نے جو ایک مجذوب تھے اور وہیں مسجد کی سیڑھیوں پر بوریا نشین تھے انھیں کہا، ‘سرمد! فقیر کو اتنا غصہ ٹھیک نہیں۔’ یہ سن کر بے سر کے جسم نے اپنا سر پھینک دیا اور بے جان ہو کر جا پڑا۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر اس روز سرمد سیڑھیاں چڑھ جاتے تو قیامت آ جاتی۔ آج یہ سنا کہ کل جہاں قتلام ہوا تھا ، کچھ لوگ زبردستی گھس آئے، نقارے بجائے، ڈھول پیٹے، نفیری کی تانیں اڑائیں اور خوب دھمال ڈالی۔ یہ سن کر میری جان نکل گئی، ایک بار پھر فقیروں کو غصہ آ گیا ہے۔ ہم نے دلی کے بازاروں میں اورنگ زیب کی اولادوں کا رلنا سنا ہے، اس سلطنت کو پرزہ پرزہ ہوتے پڑھا ہے۔ مزار آج بھی آباد ہیں، شاہوں کے محلات میں الو بولتا ہے ،چمگادڑیں الٹی لٹکتی ہیں اور راتوں کو غول روتے ہیں۔ لعل شہباز قلندر کے چاروں چراغ جلتے رہیں گے اور پانچواں چراغ، جس ازلی اور ابدی آگ سے روشن ہے اس کے نور سے دمکتا رہے گا۔ ہاں بس ایسا ہے کہ محل نہیں رہے، ایوان بھی نہیں رہیں گے۔ جانے قیامت کتنی دور ٹھہری ہے، دیکھنا کہیں کوئی سرمد، سیڑھیاں نہ چڑھ جائے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے