طیبہ تشدد کیس: سازش میں ‘مافیا’ ملوث، اہلیہ جج

اسلام آباد: طیبہ تشدد کیس کی مرکزی ملزم سابق جج راجہ خرم کی اہلیہ ماہین ظفر بھی انصاف مانگنے میدان میں آگئیں اور انھوں نے وزارت داخلہ کو دی گئی تحریری درخواست میں موقف اختیار کیا کہ ایک ‘مافیا’ کا سرغنہ ان کے اور ان کے شوہر کے خلاف سازش کر رہا ہے۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم کی اہلیہ ماہین ظفر کی جانب سے وزارت داخلہ کو دی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ جڑواں شہروں سے تعلق رکھنے والا ایک بااثر قبضہ مافیا کا سرغنہ اس ‘سازش’ میں ملوث ہے۔

درخواست میں کہا گیا، ‘قبضہ مافیا نے من گھڑت کہانی کے ذریعے جج راجہ خرم علی خان کی کردار کشی کی اور طیبہ پر تشدد کو سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل کرکے منفی پروپیگنڈہ کیا گیا’۔

ماہین ظفر کا مزید کہنا تھا، ‘میں اور میرے شوہر طیبہ کو اپنے گھر کا فرد سمجھتے تھے، لہذا ہم اس پر تشدد کا سوچ بھی نہیں سکتے’۔

وزیر داخلہ کی جانب سے درخواست کو کارروائی کے لیے پولیس کو بھجوا دیا گیا۔

کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کا معاملہ دسمبر 2016 کے آخر میں اُس وقت منظرعام پر آیا تھا، جب تشدد زدہ بچی کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو ‘معاف’ کردیا تھا۔

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی جبکہ اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے، تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی، جسے بعدازاں پاکستان سوئیٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔

دوسری جانب تشدد کے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے سیشن جج اور ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ چند پڑوسیوں نے مبینہ طور پر ان کے خلاف ‘سازش’ کی، ملزم جوڑے کے مطابق انہوں نے والدین کی غربت کو دیکھتے ہوئے بچی کو انسانی ہمدردی کی بناء پر اپنے گھر میں رکھا تھا۔

بعدازاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کم سن ملازمہ پر ہونے والے تشدد پر ازخود نوٹس کیس کو مزید ٹرائل کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دیا تھا۔

10 فروری کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہونے والی گذشتہ سماعت کے دوران طیبہ کے والد نے ملزمان کو ایک مرتبہ پھر معاف کرنے کا بیان حلفی جمع کرادیا تھا، جس پر عدالت نے جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے