ستر ممالک کے 81 فیصد لوگ اظہار رائے کی حدود کے قائل

سبوخ سید 

اسلام آباد

۔ ۔ ۔ ۔

freedom-of-speech

مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام منعقد ہ "کیا آزاد ی اظہار رائے توہین کا حق دیتی ہے”کے موضوع پر آن لائن ڈیبیٹ کی رپورٹ شائع کی گئی ۔

ستر سے  زائد ممالک کے 81فیصد لوگوں نے کہا کہ آزادی رائے کے نام پر کسی کی توہین کرنے کا کوئی حق نہیں۔

رپورٹ کے مطابق مغربی ضابطے بھی توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں ۔

رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے ہر ملک کے داخلی قوانین میں آزادی اظہار رائے کی حدود وقیود کو متعین کیاجائے

اس آن لائن ڈیبیٹ میں 81فیصد لوگو ں نے موضوع کے خلاف ووٹ دیا جس کے مطابق آزادی رائے تو ہین کا حق نہیں رکھتا ڈیبیٹ میں 70سے زائد ممالک کے لوگوں نے حصہ لیا۔

آن لائن ڈیبیٹ میں مغربی دانشوروں نے یہ واضح کر دیا کہ آزادی اظہاررائے کسی کی توہین کا حق نہیں دیتی اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ صرف مشرقی اقدار کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مغربی دانشور اور اس آزادی کے علمبردار بھی اسی حق میں ہیں تا کہ عالمی برادری میں اتحاد کی فضا اور بہتر روابط قائم رہیں۔

2

آزادی رائے کا حق معاشرے کی ترقی اور بہتری کے لیے ضروری ہے لیکن اگریہ حق ذمہ داری سے استعمال کیا جائے۔ کچھ انفرادی یا اجتماعی ،اظہار رائے اور عوامل جوکسی معاشرے کے لیے توہین آمیزیا دل آزاری کا باعث ہوان کی و جہ سے جذباتی، عداوت، نفرتیں،معاشرتی بد امنی اورنسلی اضطراب پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں انتشار پھیلتا ہے۔اس لیے آزادی رائے کا کوئی ضابطہ ہونا چاہیے۔

ذاتی اختلاف رائے کے حق اور اپنے ذاتی عقائد پر کار بند رہتے ہوئے ہمیں ان عقائد اور معاشرتی قدروں کا بھی احترام کرنا چاہیئے جو مختلف تہذیبوں میں عام ہیں۔آزادی اظہار رائے کے حق کے نام پر کیئے جانے والے توہین آمیزاقدامات کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت سے مسائل اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے یہ وقت کی ضرورت ہے کہ اس معاملے کو انسانی بنیادوں پر اٹھایا جائے اور اسے ایک معاشرے یا مذہب تک محدود نہ کیا جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ درحقیقت انسانی عظمت کا معاملہ ہے اور معاشرتی پہلو بھی اس سے جڑے ہیں۔معاشرے اور تہذیبوں کے عقائداور اقدار جو کہ صدیوں سے چلے آ رہے ہیں ان کا احترام ہر تہذیب پر فرض ہے۔

کسی بھی بین الاقوامی معاہدے، کنونشن اور ضابطے میں یہ درج نہیں ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کے تحت ایک فرد کسی کی توہین کا حق بھی رکھتا ہے۔اس لیے توہین کے حق کو بنیادی انسانی حقوق کی بجائے انسانوں کے درمیان انتشار کا ذریعہ گردانہ جاتارہا ہے ۔

انسان ایک خاندان کی طرح ہوتے ہیں اور ان کوایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ روابط رکھنے چاہیئے مسلمانوں کا نقطہ نظر مغربی قانون کے مطابق قابل دفاع ہے لیکن بد قسمتی سے ان کو ہمیشہ پرتشدد گردانہ جاتا ہے۔

1

چارلی ہیبڈو کے توہین آمیزخاکے کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہیں اور مغربی ضابطوں جیسا کہ بریڈن برگ اور برائن ڈکسن نے ڈیبیٹ میں کہا کہ مغربی ضابطوں کے مطابق یہ غیر قانونی عمل ہے ۔نفرت پر مبنی بیانات اور ایسے بیانات جو انتشار کا باعث بن سکیں کو قانونی کاروائی کے ذریعے روکا جاتا ہے ۔مسلمانوں کے معاملے میں دوہرے معیارکا خاتمہ ہونا چاہیئے ۔

ابھی تک اظہار رائے کی حدوں کا تعین نہیں کیا گیا ہمیں اس معاملے پر بین الاقوامی سطح پر دانشورانہ مباحثے اور مختلف زاویوں سے تحقیق کرنی چاہیئے تاکہ مشترکہ اصول متعارف ہوں جو عالمی رائے عامہ کو ہموار کریں تاکہ مستقبل میں کسی بھی توہین آمیزاقدام کو قانونی قرار دینے سے روکا جا سکے۔مکالمے اور مباحثے کے ذریعے اتفاق رائے کی راہ تلاش کرنی چاہیئے ہمیں اپنے دلائل کو مضبوط کرنا چاہیئے۔ مذہبی ہتک آمیزی پراقوام متحدہ کی متعدد قراردادیں موجود ہیں۔

او آئی سی اس معاملے میں سرگرم ہے کہ ممالک کے داخلی قوانین میں آزادی اظہار رائے کی حدود وقیود کو متعین کیاجائے۔

Pervez Rasheed sab1-vert

رپورٹ کے اجرا کے موقع پر اسلام آباد میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات پرویز رشید، وفاقی وزیر برائے کامرس اینڈ انڈسٹری خرم دستگیر،سینیٹر راجہ ظفر الحق، چیئر مین مسلم ا نسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی،سابق وفاقی وزیر ایس ۔ایم ظفر، معروف قانون دان احمر بلال صوفی، لیفٹینٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا جبکہ پرنسٹن یونیورسٹی امریکہ کے پروفیسر جمسن ڈوئگ اور آکسفورڈ یونیورسٹی یو۔کے کے پروفیسر ڈاکٹر برین کلگ نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کیا۔ مقررین اور شرکاء نے مسلم انٹیٹیوٹ کی اس کاوش کو سراہا اور خراج تحسین پیش کیا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے