قلندر کی نگری اورخون کی لالی

پاک دھرتی جس کا دامن کئی بار خون آلود ہوا ہے۔جس کا ذرہ ذرہ مکینوں کے لہو سے نم ہوا ہے ۔وہاں آج بھی یہ حالت ہے کہ ابھی تو دہشت گردی میں زخمی ہونے والوں کے زخموں سے خون رس رہا ہوتا ہے ۔جاں بحق ہونے والے افراد کے جنازے اُٹھ رہے ہوتے ہیں ۔اور اُسی وقت ملک کے کسی گوشہ میں خون کی ندیاں بہہ جانے کی نئی خبر کانوں میں گرم سیسہ اُنڈیلنے کی مانند لگتی ہے۔خوف و وحشت ، درد و کراہٹ ، بے چینی و اضطراب ،رنج و عالم جیسی تمام پریشانیاں آنکھوں کے سامنے لہرانے کی وجہ سے امن کی امید کی کرن دھندلی پڑنے لگتی ہے۔دل خون کے ٓانسو روتا ہے ، کلیجہ پھٹ رہا ہوتا ہے۔ لیکن ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے ۔اے ارض وطن! تجھے اپنی تشنگی بجھانے کے لیے کتنا لہو چاہیے ۔تیری یہ حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ ابھی بھی اور لہو کی ضرورت باقی ہے ۔

کراچی ، لاہور ، پشاور ، کوئٹہ ، مہمند،شبقدراور اب سیہون کو نشانہ بنایا گیا ۔لال شہباز قلندر جن کا اصل نام سید عثمان مروندی ہے ۔وہ 1196میں افغانستان سے کُوچ کرکے پاکستان آئے تھے۔ جو سندھ کے علاقے سیہون شریف میں مدفون ہے ۔ایک مشہور صوفی بزرگ ، شاعر ، فلسفی اور قلندر کے نام سے ان کو معرفت ملی ۔ اکثر لال لباس زیب تن کرنے کیے رکھتے تھے ۔جس کی وجہ سے انکا نام لال شہباز قلندر پڑ گیا ،

لعل شہباز قلندر جس کے در پہ دنیا سیکھے انسانوں سے یاری ، جس کو خالق پیارا اور اس کی خلقت پیاری ۔ جس نے سب کا درد سنبھالا ، کی سب کی دلداری ۔ ان کی چوکھٹ پر نذرانے کے پھولوں پہ برسے نفرت کے سنگ ۔ گھروں سے سینکڑوں مرادیں لیے اُمیدوں کے پھول ہاروں میں پرو ُ کر لعل شہباز قلندر کی درگاہ پہ آئے ہوئے حاضرین تمام غموں اور اندیشوں سے غافل ہوئے دھمال ڈالنے میں مگن تھے ۔اچانک دھماکہ ہوا جس کی وجہ سے احاطے میں آگ لگ گئی ۔جہاں پاؤں رقص کر رہے تھے اور سر محبت اور عقیدت میں جھوم رہے تھے ۔وہاں ہر طرف لاشیں اور انسانی بکھر گئے ۔

خوف ہ ہراس ہر سُو پھیل جانے سے بھگدڑ مچ گئی ۔ متعدد افراد پیروں تلے کچلے گئے۔16فروری 2017 کو خود کش دھماکے کی وجہ قلندر کی درگاہ پہ عقیدت کے پھول چڑھانے والے خود دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔متعدد افراد شہید ہوئے اورکئی زخمی ہوئے ۔جو فضاء دمادم مست قلندر کی صداؤں سے گونج رہی تھی ۔وہاں اناﷲواناعلیہ راجعون پڑھا جانے لگا ۔محبت اور عقیدت کے پھول لے کر آئے ہوئے حاضرین قلندر کی چوکھٹ سے خالق حقیقی کو ملنے کے لیے روانہ ہونے لگے ۔ان میں سے کئی سہاگ ،بھائی، بیٹے اور والدین اپنے اہل و عیال اور دنیافانی سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔

کبھی اسکول و جامعات، کبھی گلی کوچے و سڑکیں اور شاہراہیں ، کبھی بازار و ہسپتال ، کبھی درگاہیں اور عبادت گاہیں، کبھی تفریحی مقامات اور کبھی معصوم بچے تو کبھی اپنی روزی روٹی کے لیے گھر سے نکلنے والے نامعلوم افراد کی گولیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہے ۔اور کبھی کچی دہشت گردی کی ذد میں آجاتے ہیں ۔ الغرض خیبر سے کراچی تک دہشت گردی کے دل سوز واقعات کی ایک طویل فہرست ہے۔

2014میں آرمی پبلک ہائی اسکول میں خون خوار دہشت گردوں کی واردات کے بعد انتہا پسندوں اور دہشت گردی کے خلاف کاروائی کو ایک نیا رُخ دیا گیا ہے ۔خاطر خواہ اقدام کیے گئے اور ان کاروائیوں کے ثمرات بھی دیکھے گئے ہیں۔ لیکن گاہے بگاہے کہیں نہ کہیں اہدافی قتل اور بم دھماکوں کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں ۔ ہر تھوڑے سے وقفے کے بعد ریاست میں‌کہیں‌نہ کہیں‌خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے ۔ کسی نہ کسی نگری میں موت کا بھیانک رقص ہوتا ہے ۔گھروں میں کہرام مچ جاتا ہے ۔والدین جو اولاد کا جنازہ اٹھا کر زندہ درگور ہو رہے ہیں۔بہنیں بین بین کر کر کے نڈھال ہیں ۔ سہاگنوں کے ہاتھوں پہ لگی حناء کے رنگ اُجڑ رہے ہیں۔یتیم بچوں کی پتھرائی ہوئی آنکھیں سوالی ہیں .لواحقین چلا رہے ہیں، فریاد کر رہے ہیں۔ہمارے پیاروں کو کس جرم کی سزا میں ہم سے چھین لیا گیا ہے۔ہمارے بچے بہن ،بھائی اور والدین کیوں قتل کیے گئے ہیں۔ ہماری یہ نوحہ گری آخر کب تک جاری رہے گی۔

اس وقت پورا ملک دہشت گردی کی ایک نئی لہر کی لپیٹ میں ہے۔ دہشت گردی کا اژدھا اپنا پھن پُھلائے بے گناہوں کو نگلے جا رہا ہے۔ضروری ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مزید سخت اور موثر کاروائیاں کی جائیں۔ مسلح اہلکاروں سے لے کر اساتذہ ، طلباء، علماء، وُکلاء،صحافیوں سے عام شہریوں تک ہر طبقے کے لوگ دہشت گردی کے نشانے پر ہیں۔ایسے کٹھن سمے میں دہشت گردی کے خلاف تمام شہریوں کا مضبوط سیاسی اور سماجی اکٹھ نا گزیر ہے۔ ضروری ہے کہ تمام دوریاں ختم کی جائے ، حکام سے لے کر عوام تک بھر پو ر اتحاد اور یگانگت ہی وہ واحد راہ ہے۔ جس کے ذریعے دہشت گردی کا منہ نوچ کر اسے قابو میں لایا جا سکتا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے