سوچ کا حجاب اور پاکستان میں دہشت گردی

دانشوروں کے پاس حکومتوں کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے کی صلاحیت موجود ہے. واقعات کا اُن کے اسباب و محرکات کے تحت تجزیہ کرنے کی قابلیت ہے، اور اُن کے پیچھے چھپے ہوئے ارادوں کو ڈھونڈنے کی اہلیت بھی ہے. اگرچہ ہمارے ہاں سیاسی آزادی، معلومات تک رسائی اور آزادی اظہار رائے کی دگرگوں صورتحال ہے مگر فریب کے نقاب کو بے نقاب کرنے کیلیے جرآت کا مظاہرہ کرنا ہو گا. دانشوروں پہ آج پہلے سے زیادہ سچ بولنے اور جھوٹ کو بے نقاب کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.

وہ لوگ جن کو معلومات تک رسائی حاصل ہے اور وہ اعدادوشمار کا منطقی جائزہ بھی لے سکتے ہیں، اور جو اُن کو سمجھ آئی ہے وہ اُس بات کو واضح اور سہل استدلال کے ساتھ دوسروں کے سامنے پیش کر سکتے ہیں، اُن پہ عہدِ رواں کی حقیقتیں بیان کرنے کا بھاری فرض عائد ہو چکا ہے.

دہشتگردی اور بربریت کی پہلے ہی کئی کہانیاں ایسی ہیں جو پاکستان کی زمین پہ لکھی جا چکی ہیں، داعش کے جہاد کی کمی رہ گئی تھی وہ بھی سامنے آ گئی ہے. یقیناً دہشتگردی کا موثر ترین مقابلہ ایک خالص فوجی معاملہ بن چکا ہے لیکن ریاستی حکومت بھی سیاسی و سفارتی سطح پر دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کرکے اُن کو مشغول رکھنے کی کوششیں کر سکتی ہے. مگر فوجی کمانڈروں کی اہمیت اور ضرورت اولین ہو چکی ہے.

پاکستانی فوج پچھلے ایک لمبے عرصے سے دہشت گردوں کے ساتھ مصروف جنگ ہے. کئی منصوبے، آپریشن اور ایکشن پلان بن چکے ہیں. مگر دہشتگردی وقفے وقفے سے اپنی شدت میں اضافہ کے ساتھ سامنے آ جاتی ہے. کیا یہاں یہ سوال کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے کہ آخر یہ ناکامی کیوں؟

ہمارے ملک کی بہت بڑی تعداد جان سے ہاتھ دھو چکی ہے، لاتعداد لوگ معذور ہو چکے ہیں، لاکھوں بےگھری کی اذیت ناک حالات کا سامنا کر رہے ہیں اور کروڑوں روپے کا انفراسٹرکچر برباد ہو رہا ہے. خوف اور بےچینی کی تکلیف الگ ہے. ذہنی کرب کا سایہ پورے ملک پہ چھا چکا ہے. کیا یہ سوال کرنا نامناسب ہے کہ آخر یہ معاملہ ختم ہونے کی بجائے دن بہ دن شدید کیوں ہو رہا ہے؟

اِس تباہی کی مکمل اور واضح تصویر کشی کیوں نہیں کی جا رہی ہے. حکومتی ادارے مکمل طور پر جھوٹ بول رہے ہیں. کبھی افغانستان اور کبھی بھارت پہ الزام لگایا جا رہا ہے. اگر یہ الزامات درست ہیں تو پاکستان عالمی سطح پہ اِس معاملے کو کیوں نہیں اٹھا رہا ہے؟ اگر اٹھا رہا ہے تو کامیابی کیوں نہیں مل رہی؟

کچھ آوازیں ایسی بھی ہیں جو سی پیک اور دہشت گردی کو تال میل آپس میں جوڑ رہی ہیں. مگر حالیہ واقعات خصوصاً سیہون شریف والی شدید دہشتگردی کا سی پیک سے تعلق کیونکر جوڑا جا سکتا ہے. سی پیک تو کامیابی سے شروع ہو چکا ہے، چین اور روس جیسی طاقتیں اِس منصوبے کی پشت پہ موجود ہیں، اُس کے باوجود دہشتگردوں کے ہاتھوں اتنے بڑے منصوبے کو کیا خطرات لاحق ہیں، اِس کی کوئی منطق نظر نہیں آتی!

ہماری ریاست اور ریاستی ادارے آج سے قبل بھی کئی بڑے اور چھوٹے آپریشن جاری کر چکے ہیں اور "کامیابی” سے مکمل بھی کئے گئے تھے. اب بھی کئی آپریشن جاری ہیں. افغانستان میں بھی آپریشن کیا گیا ہے، سرحد بھی بند کیے جانے کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں. لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے منشیات کی اسمگلنگ کے باڈر جہاں سے سالانہ 20 ٹن ہیروئن اسمگل ہوتی ہے اور پاکستان میں کالے دھن کی ریڑھ کی ہڈی کو بند کرنے کی جرات پاکستانی اشرافیہ کے بس کی بات ہو گی؟

پاکستان میں کم و بیش پندرہ سے بیس خفیہ و حساس ادارے موجود ہیں. کیا وہ ادارے آخر پاکستان میں موجود دہشت گردوں سے واقف نہیں ہیں؟ اگر وہ ادارے اِن دہشتگردوں سے واقف نہیں ہیں تو اُن کی نااہلیت پہ سوال کیوں نہیں اٹھایا جا رہا؟ اگر وہ ادارے واقف ہیں تو اُن پہ غداری کا سوال کیوں نہیں اٹھایا جا رہا؟

پولیس اور پولیس جیسے دوسرے کئی غیرفوجی ادارے جو امن و امان کے حوالے سے ذمہ دار ہیں، وہ کیا کر رہے ہیں؟ پولیس کے ایک افسر سے اِس استفسار کے بعد جواب ملا کہ ہمارے پاس ایسے "ہائی پروفائل کرائم” کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے. آخر حکمران اشرافیہ ماچس کی ڈبی سے لیکر پچیس روپے کے موبائل لوڈ تک پہ وصول ہونے والے ٹیکس کو کس کنویں میں ڈال رہی ہے؟ آخر اِن اداروں کی صلاحیت کو کون بہتر کرے گا؟

موجودہ سال 2017ء کے 49 دن گزر چکے ہیں جبکہ پاکستان میں یکم جنوری سے لیکر آج تک 23 دہشتگردی کے واقعات ہو چکے ہیں. اِس حساب سے رواں سال کے ہر دو دن کے بعد ایک واردات رونما ہو رہی ہے.

سویلین عدالتیں کیا کر رہی ہیں؟ ریاستی اداروں، حکمرانوں اور دہشت گردوں کے احتساب کے حوالے سے عدالتی کمزوری پہ سوال کیونکر نہیں اٹھایا جا رہا؟ پھر ملٹری کورٹس بھی تشکیل دئیے گئے، اُن کا کیا فائدہ ہوا؟

اِن تمام سوالات کا صرف ایک جواب ہے. انسانی اسمگلنگ، منشیات کی اسمگلنگ اور اسلحے کی اسمگلنگ کی طرح "دہشت گردی” بھی ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے. اِس کاروبار میں ریاستی اہلکاروں سمیت حکمران اشرافیہ کے سرخیل ملوث ہیں.

ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں، ایک بار پھر آپ کو خبردار کر رہے ہیں کہ تمام دہشت گردانہ میلانات، حرکات، رجحانات اور نظریات کی ایک ہی مادی بنیاد ہے یعنی دولت!!! اِسی بنیاد پر تمام تر غارت گری کی جاتی ہے لیکن دہشت گردی کے اِس کاروبار کو کبھی لسانیت، کبھی مذہب تو کبھی فرقے کا لبادہ پہنا دیا جاتا ہے.

وہ لوگ جن کو معلومات تک رسائی حاصل ہے اور وہ اعدادوشمار کا منطقی جائزہ بھی لے سکتے ہیں، اور جو اُن کو سمجھ آئی ہے وہ اُس بات کو واضح اور سہل استدلال کے ساتھ دوسروں کے سامنے پیش کر سکتے ہیں، اُن پہ عہدِ رواں کی حقیقتیں بیان کرنے کا بھاری فرض عائد ہو چکا ہے. اُن کو چاہیے کہ وہ عوام کے سامنے حکمران اشرافیہ کو بے نقاب کریں اور بتائیں کہ حاکمینِ ملک کبھی بھی دہشت گردی اور بنیاد پرستی کی اس دھندے کو بند نہیں سکتے کیونکہ اِس طرح اُن کا اپنا مالیاتی منافع بھی بند ہو جائے گا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے