مبہم پالیسیاں اور دہشت گردی

ماضی حال کو اور حال مستقبل کو جنم دیتا ہے ۔ہمارا ماضی اتنا شاندار نہیں جس کی وجہ سے ہم اس حال کو پہنچے،قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان میں جتنے بھی حکمران آئے انہوں نے دور اندیشی سے فیصلے نہیں کیے،دور اندیشی سے کیے گئے فیصلوں سے امن کی کونپلیں پھوٹتی ہیں ۔المیا مگر یہ رہا کہ مملکت خداداد پاکستان میں جب بھی کسی عفریت نے سر اٹھایا حکمرانوں نے اس سے نبٹنے کے لیئے دور اندیش نہیں بلکہ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی اختیار کی ۔

حکمرانوں کی ناقص پالیسی اور کمزور فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ مملکت خدادا اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ،دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں ۔جہاں ان کا دل کرتا ہے معصوم لوگوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کر کے چلتے بنتے ہیں ۔پالیسی ساز ادارے ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں ۔پاکستان میں دہشت گردی کی ابتدا اس دن ہی ہو گئی تھی جب ہم نے افغانستان میں روس کے خلاف پراکسی وار لڑی ۔افغانستان میں سویت یونین کی جارحیت کے خاتمے کی کوشش میں مذہبی جذبات کو بھرپور انداز میں استعمال کرنے کے لیئے دنیا بھر اور بالخصوص عرب ممالک سے جو انتہا پسند لائے گئے وہ ہمارے لیئے سوہان روح بن گئے۔جنرل ضیاء الحق سویت یونین کی جارحیت کے حلاف اس تحریک کی قیادت کر رہے تھے ،اگر ہم یہ جنگ مملکت کی طرف سے باقاعدہ لڑتے ،ہماری افواج اس میں شامل ہوتی ہم باضابطہ عملی انداز میں سویت افواج کو شکست دیتے تو فتح ہمارے قومی فخر کا حصہ ہوتی ،اس کا سہرا امریکہ کے سر سجا ،جنگ سے فراغت پانے والے انتہا پسندوں نے واپسی کی بجائے پاکستان کو اپنا مسکن بنالیا،ریاست نے انہیں اپنے سینے سے لگایا ،نہ جانے ریاست یہ کیوں بھول گئی جو آگ پڑوس میں لگائی جائے اس سے اپنا گھر بھی جلا کرتا ہے ۔

ضیاء الحق کے بعد جتنے بھی حکمران آئے انہوں نے ریاستی مفادات پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی اور دو ٹوک فیصلہ کرنے کی بجائے مصلحت سے کام لیا ۔بی بی شہید ہو یا موجودہ حکمران،مشرف ہو یا عمران خان ،مولوی فضل الرحمٰن ہو یا جماعت اسلامی کی قیادت ہر ایک نے بوقت ضرورت انہیں استعمال کیا ۔اٹھاسی میں محترمہ شہید نے افغان سیل میں مجاہدین کی ایک میٹنگ کی صدارت بھی کی تھی اور دفتر خارجہ کی طرف سے گیارہ نکات پر مشتمل ایک فہرست بھی افغان مجاہدین کو دی تھی یہ بھی کہا گیا تھا کہ افغان مجاہدین اگر افغانستان کے کسی بڑے شہر پر قبضہ کر لیں تو پاکستان حکومت انہیں تسلیم کر لے گی اس میٹنگ میں اس وقت کے امریکی سفیر رابرٹ اوکلے بھی موجود تھے ۔

مشرف کے دور میں انتہا پسندوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی پورے ملک میں دہشت گرد دندناتے پھر رہے تھے دہشت گردوں کا تعلق جن تنظیموں سے تھا وہ مشرف کے ہمرکاب تھے۔مشرف کابینہ میں ان دہشت گردوں کے ہمدرد بڑی تعداد میں موجود تھے جنہوں نے ان کے پھلنے پھولنے میں اہم کردارادا کیا ۔

موجودہ حکمرانوں کے نا چاہتے ہوئے سابق آرمی چیف جنرل راحیل نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا تو کچھ حلقوں کی طرف سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ۔شور برپا کرنے والوں میں کرپٹ حکمران اور بیوروکریٹس شامل تھے جو چند ٹکوں کے لالچ میں بیرونی ایجنٹوں آلہ کار بنے ہوئے ہیں ۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک چادر پوش سیاست دان جو موجودہ حکمرانون کے سیاسی حلیف بھی ہیں ان کے بارے میں خفیہ ایجنسیوں نے مکمل شواہد پیش کیئے کہ وہ افغان ایجینسی این۔ڈی۔ایس سے ڈالر وصول کرتے ہیں۔
دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ صوبائی تعصب اور تنگ نظری بھی ہے اس ملک میں لوگ قومی مفاد کی بجائے صوبائی مفاد کی باتیں کرتے ہیں ۔ملک کے چھوٹے صوبوں سندھ،کے پی کے اور بلوچستان میں ضرب عضب جاری ہے مگر جب پنجاب میں آپریشن کی بات کی جائے تو حکمران آنکھیں دکھانا شروع کر دیتے ہیں ،پنجاب حکومت پر مبینہ طور پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ جہادی اور انتہا پسند عناصر کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیئے استعمال کرتی ہے اس لیئے پنجاب حکومت ان کے خلاف کاروائی کی اجازت نہیں دیتی ۔جھنگ سے حال ہی میں ضمنی انتخابات میں کالعدم تنظیم کے ایک امیدوار کی کامیابی کو پنجاب کے ایک سینئر وزیر کی کامیابی قرار دیا گیا ۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ رانا ثناء اللہ کے جہادی تنظیموں سے اچھے تعلقات ہیں ۔

پاکستان میں دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ غربت اور بروقت انصاف کا نہ ملنا ہے ۔غربت بذات خود ایک سنگین مسئلہ ہے اور اس سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں ۔ بہت سے لوگ غربت کے ہاتھوں تنگ آکر شرپسندوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انہیں پیسے کا لالچ دے کر دہشت گردی پر اکسا رہے ہیں دہشت گردی میں ملوث دینی مدارس کے طلباء ہی نہیں بلکہ جدید یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والے بھی شامل ہیں یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے اس سوچ کو تبدیل کرنے کے لیئے حکومت کو ٹھوس پالیسیا ں بنا نا ہونگی ۔پولیس کو غیر سیاسی کرنا ہوگا ۔علماء حق کو آگے آنا ہو گا سچ کو اٹھارہ سالہ دوشیزہ کی طرح سات پردوں میں چھپا کر رکھنے کی بجائے قوم کے سامنے لانا ہوگا ۔فوجی عدالتوں کی بحالی کی طرف عملی قدم اٹھا نا ہوگا ۔حکمرانوں کو گڈ اور بیڈ طالبان والی پالیسی کو ترک کرنا پڑے گا ،قوم کے روشن مستقبل کے لیئے حکمرانوں کو سیاست دان نہیں لیڈر بن کر فیصلے کرنا ہونگے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے